احتیاط سے
ایسی صورتحال میں اپنا دماغ پرایوں کی مصروفیات پر تبصرہ کر کر کے گھن چکر بن جاتا ہے۔
آپ شادی کے پروگرام میں کافی دیر سے آئے ہوئے ہیں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گرمی میں ہونے والے اضافے پر بات کرلی، ہفتے بھر سے پانی نہ آنے پر بات کرلی، لوڈشیڈنگ میں اضافہ پر 'کے الیکٹرک' کو کوسے دئیے، جی بھر کے سیاست دانوں کی ایسی تیسی کردی، تیرے میرے کی برائیاں بھی کرلی، ابھی یہ سلسلہ اور چلتا کہ اچانک ڈنگوں کے ڈھکن کھُلنے کی آوازیں آگئیں۔
بس پھر کیا تھا؟ ساری گپ شپ ایک طرف، قوم نے کھانے کی میز پر ہلہ ّبول دیا، اتنے میں آپ دیکھتے ہیں کہ تین میزیں چھوڑ کر چوتھی پر ایک حضرت نے پانچ چھ طرح کے آیٹم اپنے سامنے ''مال غنیمت'' کی طرح رکھے ہوئے ہیں۔
سیدھے ہاتھ سے کبھی ایک نوالہ حلق میں ٹھونستے، مرغ کی ٹانگ نوچتے، الٹے ہاتھ سے کولڈرنک کا سپ لیتے گولی کی رفتار سے کبھی روٹی تو کبھی بوٹی پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ ایسے میں آپ کے ذہن میں کیا خیال آئے گا؟؟؟ یہی کہ ''کہیں پیٹ ہی نہ پھٹ جائے'' لیکن کیا ایسی صورتحال دیکھ کر یہ خیال نہیں آیا کہ اسی طرح کا رویہ تو سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے والوں کا بھی دکھائی دیتا ہے جو ہر وقت یا تو اپنا لمحے لمحے کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ ناشتے میں یہ اور یہ کھایا، رات بیوی کے ہاتھ کا بنا ہوا کسٹرڈ کھایا۔
صبح موبائل خراب ہوگیا تھا اور دوپہر میں میرا موڈ۔ اس طرح کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے بعد کچھ اور نہیں سمجھ آیا تو اوروں کے اسٹیٹس پر کمنٹس شروع کردیئے، خبروں پر کمنٹس، ٹاک شوز پر کمنٹس، کسی نے کچھ کہا اس پر کمنٹس، کسی نے کچھ نہیں کہا تو اس پر کمنٹس، کوئی تصویر دیکھی اس پر کمنٹس، کوئی ویڈیو دیکھی اس پر تبصرہ اور یہ سارا کام بھی لمحہ بہ لمحہ کے حساب سے
اتنی شدت سے سوشل میڈیا سے چپکے رہنے والوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ دماغ کو نان اسٹاپ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے اور رنگا رنگ تبصرے کرنے سے نہ تو اسے چیزوں کو ٹھیک سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں ٹھیک سے رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے، ابھی ایک معاملے پر رائے دی ہی تھی تو دوسری پوسٹ کے بارے میں کمنٹس کا سوچنے لگے۔
ایسی صورتحال میں اپنا دماغ پرایوں کی مصروفیات پر تبصرہ کر کر کے گھن چکر بن جاتا ہے اورایسے میں بس یہی ''کمنٹس'' کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ ذرا احتیاط سے کہیں!! کہیں دماغ ہی نہ پھٹ جائے۔۔
[poll id="374"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بس پھر کیا تھا؟ ساری گپ شپ ایک طرف، قوم نے کھانے کی میز پر ہلہ ّبول دیا، اتنے میں آپ دیکھتے ہیں کہ تین میزیں چھوڑ کر چوتھی پر ایک حضرت نے پانچ چھ طرح کے آیٹم اپنے سامنے ''مال غنیمت'' کی طرح رکھے ہوئے ہیں۔
سیدھے ہاتھ سے کبھی ایک نوالہ حلق میں ٹھونستے، مرغ کی ٹانگ نوچتے، الٹے ہاتھ سے کولڈرنک کا سپ لیتے گولی کی رفتار سے کبھی روٹی تو کبھی بوٹی پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ ایسے میں آپ کے ذہن میں کیا خیال آئے گا؟؟؟ یہی کہ ''کہیں پیٹ ہی نہ پھٹ جائے'' لیکن کیا ایسی صورتحال دیکھ کر یہ خیال نہیں آیا کہ اسی طرح کا رویہ تو سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے والوں کا بھی دکھائی دیتا ہے جو ہر وقت یا تو اپنا لمحے لمحے کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ ناشتے میں یہ اور یہ کھایا، رات بیوی کے ہاتھ کا بنا ہوا کسٹرڈ کھایا۔
صبح موبائل خراب ہوگیا تھا اور دوپہر میں میرا موڈ۔ اس طرح کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے بعد کچھ اور نہیں سمجھ آیا تو اوروں کے اسٹیٹس پر کمنٹس شروع کردیئے، خبروں پر کمنٹس، ٹاک شوز پر کمنٹس، کسی نے کچھ کہا اس پر کمنٹس، کسی نے کچھ نہیں کہا تو اس پر کمنٹس، کوئی تصویر دیکھی اس پر کمنٹس، کوئی ویڈیو دیکھی اس پر تبصرہ اور یہ سارا کام بھی لمحہ بہ لمحہ کے حساب سے
اتنی شدت سے سوشل میڈیا سے چپکے رہنے والوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ دماغ کو نان اسٹاپ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے اور رنگا رنگ تبصرے کرنے سے نہ تو اسے چیزوں کو ٹھیک سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں ٹھیک سے رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے، ابھی ایک معاملے پر رائے دی ہی تھی تو دوسری پوسٹ کے بارے میں کمنٹس کا سوچنے لگے۔
ایسی صورتحال میں اپنا دماغ پرایوں کی مصروفیات پر تبصرہ کر کر کے گھن چکر بن جاتا ہے اورایسے میں بس یہی ''کمنٹس'' کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ ذرا احتیاط سے کہیں!! کہیں دماغ ہی نہ پھٹ جائے۔۔
[poll id="374"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔