اب اور بھی کچھ باقی ہے

اب تو خوف ہے کہ کہیں ہم زمبابوے اور سری لنکا سے ہار کر چیمپئن ٹرافی کی دوڑ سے بھی باہر نہ ہوجائیں۔

ہماری ٹیم کا المیہ دیکھیے کہ بنگلہ دیش جیسی معمولی ٹیم کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD:
سمجھ میں نہیں آرہا کہ شکوہ کس سے کروں؟ بنگلہ دیش سے کہ اُس نے مہمانوں کو گھر بُلا کر اچھا نہیں کیا یہ بے حِس کرکٹ بورڈ سے کہ جس نے وائٹ واش ہونے کے بعد بھی ہرزہ سرائی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ویسے تو برائی 1999 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی تھی جب بنگلہ دیش سے واحد میچ ہارے تھے مگر کس کو پتا تھا کہ 2015 کے ورلڈ کپ کے تازہ زخموں پر نمک بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم سے وائٹ واش کی صورت میں ملا جائے گا۔



قومی کرکٹ ٹیم کی شرمناک کارکردگی نے قوم کا سر شرم سے جھکایا دیا ہے۔ اس خجالت و ندامت آمیز شکست سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پی سی بی نے قومی کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ سے ناکام لوٹنے کے بعد اسکی بہتری کیلئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی۔ اسے چاہیئے تھا کہ ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلایا جاتا تاکہ باقیوں کو بھی نصیحت حاصل ہوتی۔ مگر قومی کرکٹ کی صحیح خطوط پر تشکیل نو کرنے کے بجائے ایک ایسے اناڑی اور غیر تجربہ کار کھلاڑی کو کپتان بنا دیا گیا جو دو سال ٹیم سے باہر رہا اور ورلڈ کپ میں بھی اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ اس امر سے پی سی بی کی غیرذمہ داری خوب عیاں ہوجاتی ہے۔ حالیہ سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو انہی وجوہات کی بنا پر بنگلہ دیش جیسی معمولی ٹیم کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا، اگرچہ شکست تو بہت چھوٹا لفظ ہے مگر اِس کے علاوہ جو لفظ ذہن میں آرہا ہے وہ یہاں لکھنا ممکن نہیں۔



اظہرعلی کو بحثیت کپتان جس جارحانہ حکمت عملی کا ثبوت دینا چاہیے تھا وہ اس سے بالکل نابلد نظر آئے، کھلاڑیوں کی فیلڈنگ انتہائی ناقص رہی جو کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہمارا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ مگر ہم ٹھہرے بادشاہ اور کبھی اپنی بنیادی غلطی کو خاطر میں لانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ یوں نظر آ رہا تھا کہ ورلڈ کپ کے بعد بنگال ٹائیگر نے بلندی کی طرف اور گرین شرٹس نے پستی کی جانب اپنا سفر شروع کردیا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ قوم میں سب سے مقبول کھیل کی سربراہی کرنے والے بورڈ کو خالہ جی کا گھر سمجھا ہوا ہے، جس کا دل چاہتا ہے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کرسی تک پہنچ جاتا ہے۔

پہنچنا تو چلیں پھر سمجھ آجاتا ہے لیکن اصل مسئلہ پہنچنا نہٰیں ہے بلکہ پہنچنے کے بعد پھر یوں چپک جاتا ہے کہ جیسے یہ کرسی موصوف کے لیے ہی بنی تھی۔ اعجاز بٹ کو دیکھ لیں، انکے دور میں ٹیم کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا، مگر کسی نے ان سے سوال کرنے کی زحمت کی؟ یہ لاکھوں کی تنخواہ لے کر اپنی مرضی کے فیصلے کرتے رہے مگر آج یہ کہاں ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں۔ پھر نجم سیٹھی اور زکا اشرف کے درمیان ہونے والے میوزیکل چئیر کے کھیل سے کون واقف نہیں۔ رات تو سونے سے پہلے پی سی بی کا چئیرمین کوئی اور ہوتا تھا تو صبح بیدار ہونے کے بعد کوئی اور، مطلب ایک کھیل تماشہ بنایا ہوا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ کسی نے پوچھا کیوں نہیں؟ تو جناب کوئی پوچھے بھی تو کیسے کیونکہ جنہوں نے پوچھنا ہے وہ تو ملک کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہیں۔


جناب زکا اشرف صاحب اپنے اثر و رسوخ کی سیڑھی کو چڑھتے ہوئے سیدھا کرسی تک پہنچے اور پھر جتنی سمجھ تھی کرکٹ کے معاملات کو ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر چلاتے رہے۔ انکے بعد آنے والے جناب نجم سیٹھی کو کون نہیں جانتا، میں تو اب تک سمجھ ہی نہیں پایا کہ اُن کو صحافی کہوں، سیاسی رہنما کہوں یا پھر کھیل کی دنیا کا بے تاج بادشاہ۔ کہ پی سی بی کا جنازہ نکالنے کے بعد اب ان موصوف کا آئی سی سی ''کیریئر'' بھی شروع ہوگیا۔

مگر کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والا پاکستانی یہ سوال پوچھنا چاہتا ہے کہ ہر ماہ 14 لاکھ روپے کے عوض وقار یونس کی خدمات حاصل کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟ اسکواڈ کی تشکیل، ٹریننگ، کھلاڑیوں کی تکنیک اور انکو جدید کرکٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جناب کوچ صاحب کو بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے مگر بجائے کوئی بہتری آنے کے، ٹیم شکست کے خوف سے دو چار نظر آتی ہے۔ دنیا میں ایک تجربہ ناکام ہو تو اسے بار بار نہیں دوہرایا جاتا مگر یہاں کیا کہیں کہ آوے کا آوا بگڑا ہے یا باوا آدم نرالا ہے، ہیڈ کوچ کی سربراہی میں پانچ سیریز لگاتار ہارنے کے باوجود بھی ابھی کسی معجزے کا انتظار ہے اور وہ ہیڈ کوچ بھی اپنی غلطی ماننے کے بجائے ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تھوڑا وقت لگے گا ٹیم کو درست سمت میں چلنے کے لیے۔



بنگالی ہمیں ہرا کر اپنی رینکنگ بہتر نہیں کر سکے لیکن ہمیں ساتویں سے آٹھویں نمبر پر پہنچا دیا ہے اور اب ٹیم کی ''بے مثال'' کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ ہونے لگا ہے کہ آیندہ ماہ زمبابوے اور سری لنکا سے ہار کر ہم کہیں چیمپئن ٹرافی کھیلنے کی دوڑ سے بھی باہر نہ ہوجائیں۔



اب تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی شکست سے سبق حاصل کیا جائے نہ کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر وقت گزارنے پر اکتفا کیا جائے۔ وگرنہ شائقین کے دل سے کهیل کی محبت نکالنے کے سوا پی سی بی اور کچھ کرنے میں ناکام رہے گا۔

[poll id="376"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story