’’بلوچستان کی حقیقی لیڈرشپ کا راستہ روکنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے‘‘

ایکسپریس فورم لاہور میں منعقد ہونے والی نشست کا احوال


Shehzad Amjad/Shams Qazafi October 10, 2012
ایکسپریس فورم لاہور میں منعقد ہونے والی نشست کا احوال فوٹو : فائل

بلوچستان کا مسئلہ ان دنوں ہر فورم ، ہر پلیٹ فارم، ہر سطح اور ہر مقام پر موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور اپنی سنگینی کے اعتبار سے ملک کے سلگتے اور پیچیدہ مسئلہ کی صورت اختیار کرگیاہے۔

بلوچستان میں ایک عرصہ سے شورش برپا ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ انسانی جان ومال کاتحفظ ایک چیلنج بن چکا ہے ۔روشن دن میں لوگوں کا اغوا ،مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اور ٹارگٹ کلنگ نے اس سرزمین کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔خطے میں اس صوبے کی سٹریٹیجک لوکیشن اور معدنیات کے عظیم اور قیمتی ذخائر کی موجودگی نے عالمی طاقتوں اور سامراجی قوتوں کو بھی اس جانب متوجہ کررکھاہے جو للچائی نظروں سے اس صوبے کی جانب دیکھتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ علاقہ عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن گیا ہے ۔

صوبے کے قبائلی رسم و رواج میں گُندھی ہوئی تہذیب اور مذہبی پس منظر کے حامل یہاں کے لوگ انتہائی جفاکش ،محنتی ، محب وطن اور قوم پرست ہیں ۔ملک کے دوسرے حصوں کی طرح قومی انتخابات یہاں بھی ہوتے ہیں لیکن منتخب نمائندوں اور عوام کے درمیان رابطے اور تعلق کا فقدان موجود ہے ۔کیونکہ یہاں کے سردار ہی ان کے اصل حاکم ہیں اور ان کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار انہی سرداروں کے پاس ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ صوبہ برسراقتدارطبقے کی نظر التفات سے بھی محروم چلا آرہاہے ۔

خصوصاً فوجی آمریتوں نے یہاں پر جو ظلم ڈھائے اورانسانی حقوق کی دھجیاں بکھیریں ان کے نتیجے میں یہاں کے باسیوں کے دلوں میں نفرت کی خلیج پیدا ہوگئی ۔ان میں پایا جانے والا احساس محرومی ان کو بغاوت پر مجبور کررہاہے یہی وجہ ہے کہ آج اس صوبے میں نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اسلحہ تھام کر ریاست کے مقابل آکھڑ ا ہوا ہے ۔جس پر ہر محب وطن کوبجا طور پر تشویش لاحق ہے اور ہر آنے والا دن اس پریشانی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔ ملک کی تمام قومی جماعتیں ،عوام اور اہل فکر و دانش اس مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنی ایک رائے رکھتے ہیں ۔

چنانچہ یہ جاننے کے لیے کہ اس قومی مسئلہ پر اہل سیاست ،عسکری اور قانونی و آئینی ماہرین کیا سوچ رکھتے ہیں ،ان کا زاویہ نگا ہ کیا ہے اور ان کے پاس اس مسئلہ کا کیاحل ہے ؟ روزنامہ ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں ممتاز قانون دان اورعوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور دانش ور پروفیسر اعجاز الحسن، مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں مرغوب احمد ، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر سرفراز چیمہ اورعسکری تجزیہ نگار جنرل ( ر) راحت لطیف نے ''بلوچستان کامسئلہ ، محرکات اور اس کا حل''کے موضوع پر منعقدہ ایکسپریس فورم میں اظہارخیال کیا ۔ خالد قیوم نے روز نامہ '' ایکسپرس'' کی جانب سے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا جب کہ شہبازانورخان نے موضوع کے بارے میں ابتدائی کلمات ادا کیے اور اہل الرائے کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ فورم میں ان سیاسی رہنمائوں ،ماہرین، تجزیہ نگاروں نے بلوچستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں جن خیالات کااظہار کیا اس کی رپورٹ نذ ر ِقارئین ہے ۔

احسان وائیں
(مرکزی جنرل سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی )

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسان وائیں نے کہا کہ بلوچستان سے ملک کی سالمیت وابستہ ہے، یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو 1947 سے آج تک پانچ فوجی آپریشن برداشت کرنے پڑے جبکہ وہاں آج تک سول حکومت بننے ہی نہیں دی گئی۔آج تک وہاں فوج کی حکمرانی ہے اور سارا کچھ فوج کرتی ہے۔ بلوچستان کا موجودہ حکومت نہ کچھ سنوار سکتی ہے اور نہ بگاڑسکتی ہے۔ نوازشریف ، بینظیر دونوں دو دو بار وزیراعظم رہے لیکن دونوں کے پاس اختیار نہیں تھا، فوج نے انہیں خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیوں سے باہر رکھا ہوا تھا۔

بنگالی بھی کہتے تھے کہ ہمیں ہمارے وسائل دو، پٹ سن یہاں پیدا کر کے اس کی ایکسپورٹ کے دفاتر کراچی میں قائم مت کرو لیکن فوج کے ذریعے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بنگالی غدار ہیں۔ فوج نے ہمیشہ عوام کے سامنے جھوٹ بولا۔ جب تک مشرقی پاکستان میں جنرل اروڑا کے سامنے ہمارے جنرل نیازی نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے تو فوجی یہی کہتے رہے کہ چند شرپسند عناصر تھے جن پر فوج نے قابو پالیا ہے۔بلوچستان کی بھی صحیح صورتحال ہمیں نہیں بتاتے، یہ تو سیاسی ورکر بتاتے ہیں، بلوچستان کو فوج کے ہاتھوں چلایا جا رہا ہے لیکن بلوچ اس اندازِ حکمرانی کو قبول کرنے اور اپنا کلچر چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔

سب سے زیادہ تکلیف دہ آپریشن بھٹوکا تھا جو سویلین تھا اور اس نے شہنشاہ ایران کے کہنے پر آپریشن کیا اور ایرانی فورسزکی بمباری سے بلوچستان کے 10ہزار افراد مارے گئے۔غوث بخش بزنجو بہت بڑا لیڈر تھا لیکن حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اسے صوبائی سطح کا لیڈر بننا پڑا۔ 1971ء اور آج میں فرق یہ ہے کہ سانحہ بنگال کے وقت فوجی آپریشن کی حمایت کرنیوالی جماعتیں آج بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کررہی ہیں، مسلم لیگ(ن)کے صدر میاں نوازشریف اور جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن بھی فوجی آپریشن کے خلاف اور بلوچوں کے حقوق کی بات کررہے ہیں، مینگل کے چھ نکات کی حمایت کررہے ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔

یہ تبدیلی ملک کو مزید نقصان سے بچائے گی۔ ہم نیپ والوں کو تو غدار اور ملک دشمن کہتے تھے۔ جب 71ء میں ہم نے ملک ٹوٹنے کی بات کی تو ناصر باغ کے سامنے ہمیں غدارکہہ کرگرفتارکرلیا گیا، اس وقت اگر ہمیں گرفتار نہ کیا جاتا تو پنجاب یونیورسٹی میں اینٹیں پکڑکر ہمیں مارنے کیلئے 100افراد تیار تھے۔ فوج نے ہمیشہ ہم سے جھوٹ بولا، ہم نے 65ء سمیت بھارت کے ساتھ لڑی تمام جنگیں ہاری ہیں۔دس سال سے ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف لڑرہی ہے اور اربوں ڈالرکا ملک کا نقصان ہوچکا ہے اسکے باوجود دنیا ہمیں دہشت گرد قوم کہہ رہی ہے۔

بلوچی قوم پرست ہیں اور باربار کہہ چکے ہیں کہ ہم ملک توڑنا نہیں چاہتے اور یہ بھی اچھی بات ہے اب اسکا حل یہی ہے کہ بلوچستان کے وسائل سونا، لوہا، گیس اور پٹرول انہیں دیئے جائیں، 65 سال سے ہم نے وہاں سے امریکہ کے پریشر پرکچھ نہیں نکالااور جب بھی روسی کمپنیوں نے کام شروع کیا ہم نے کام بند کروادیا۔ 2008ء میں بھی فوج کے ذریعے جعلی قسم کے لوگ منتخب کرائے گئے حقیقی بلوچ لیڈرشپ آگے نہیں آئی۔ سردار اختر مینگل کا چھٹا نکتہ یہی ہے کہ وہاں حقیقی سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے، وہاں سے ہمیں فوج واپس بلالینی چاہئے کیونکہ وہاں تو کوئی بارڈر ہندوستان کا نہیں لگتا، وہاں بلوچ اپنے صوبے کو سنبھالیں۔ 60فیصد بلوچی اور 40فیصد پختون وہاں آباد ہیں جنہیں ضیاء دور میں آپس میں ہی لڑادیا گیا۔ ہزارہ والے شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ جنرل ضیاء نے شروع کرائی تھی۔ فوج کی مذہبی، داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی شروع ہوئی ۔ موجودہ حکومت جمہوری ہے لہٰذاانہیں فوج اور ایجنسیوں کو بچانے کیلئے رحمٰن ملک کے ذریعے بیانات نہیں دلوانے چاہئیں۔

پروفیسر اعجاز الحسن
(سینئر رہنما وچیئرمین فارن لائزن کمیٹی پیپلزپارٹی )

پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما وچیئرمین فارن لائزن کمیٹی پروفیسر اعجاز الحسن نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اورسیاسی اختلافات کے باوجود ملک گیر سطح پر بنائی جانے والی قومی کمیٹی کیلئے تجاویز ڈرافٹ کرنی چاہئیں جبکہ صدر مملکت کو بھی اس سلسلے میں اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیے، صوبے میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ہراساں کئے جانے والے سیاستدانوں کیلئے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا ممکن ہو جائے اور وہاں جنگ وجدل کی کیفیت بند کرکے لوگوں کیلئے روزگارکا بندوبست کیا جائے۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل سے پہلے مسئلے کی وجوہات کا ہمیں پتہ کرنا چاہیے۔

قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کو '' کالونی'' کی طرح چلایا گیا ۔ وہاں کے وسائل کو زبردستی ان سے چھینا گیا اور انکے دانشور و اہل افراد کو مین سٹریم میں نہیں آنے دیاگیا۔گیس انکے صوبے سے نکلتی ہے مگر وہ استعمال بھی نہیں کرسکتے۔سب سے پہلے خان آف قلات شہزادہ عبدالکریم نے بلوچوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی لیکن اسے ملک بدرکردیا گیا۔آزادی سے 1962ء تک وہاں فوجی آپریشن جاری رہے۔ سردار نوریز اور اس کے بیٹوں کو بہلا پھسلا کر پہاڑوں سے نیچے لاکر حیدر آباد جیل بھیج دیا گیا اور وہ بزرگ بلوچ رہنما جیل میں ہی مرگیا۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت سرحد اور بلوچستان میں بنی لیکن صرف9ماہ بعد مرکزی حکومت نے نیپ کی حکومتیں ختم کر دیں۔ حیدرآباد سازش کیس میں نیپ کی ساری لیڈرشپ اور نیشنلسٹ پارٹیاں بھی اندرکردی گئیں۔جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں فوجی آپریشن بند کرنے کی کوشش کی ۔

آج بلوچستان میں شیعہ مسلک کے افراد کو مذہبی بنیادوں پر قتل کیا جارہا ہے جبکہ بلوچستان جاکر بسنے والوں کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس دور میں بلوچوں اور پختونوں کے مابین دوریاں پیدا کی گئیں۔جنرل پرویزمشرف کے دور میں ایک بار پھر فوجی آپریشن ہوا جس میں پاکستان کے حامی واحد سردار نواب اکبر بگٹی شہید ہو گئے۔ مینگل کے چھ نکات 12سال سے ان کے مطالبات ہیں، یہ نئے نہیں ہیں۔ ''سٹیٹ'' اب بھی کسی بھی حکومت سے 100 فیصد زیادہ طاقتور ہے۔فوج تو ہماری قوم کی ہے لیکن ہم اس میں برے لوگوں کی بات کررہے ہیں۔

ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے آج تک سبق نہیں سیکھا۔ بلوچوں کو انکے حقوق دیئے جائیں۔ حکمران اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عملی طور پر ان کے مسائل حل کریں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچ سرداروں کو پیسہ دیا جائے اور یہ نہ سوچا جائے کہ وہ خود کھاجائیں گے اگر وہ نیچے تک پیسہ نہیں لگائیں گے تو بلوچ پنجابیوں کو موردالزام تو نہیں ٹھہرائیں گے۔ بلوچستان کے معاملے کو سنجیدگی سے سمجھنے کی بات ہے، سیاسی پارٹیوں کو اسے سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے، بلوچستان کے مسئلے پر نیشنل الائنس بننا چاہیے لیکن وہ بنے تو تب جب سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہو۔ اگر بلوچستان کا مسئلہ حل کرلیا جائے تو ملک بڑی ترقی کرے گا۔

میاں مرغوب احمد
(مرکزی رہنما مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے میاں مرغوب احمد نے کہا کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ' مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ سے بہتر ہے کہ ہم کسی دشمن کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے اپنی قوم کے سامنے سرنڈر ہوجائیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی میں کی جانیوالی غلطیوں کو آج بھی دہرائے چلے جارہے ہیں' حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان کوتاہیوں کے ازالے کے لئے کچھ ایسے اقدامات کئے جاتے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہی نہ ہوں مگر اتنا کچھ کھو جانے کے باوجود ہم اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے۔

سقوط ڈھاکہ اور بلوچستان سمیت دیگر مسائل کو دیکھیں تو اس میں آمریت اور ڈکیٹیٹر کا تسلسل نظر آئیگا۔اس ڈکیٹیڑشپ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ایسے اقدامات کئے کہ جس سے ان کی ذات کو تو فائدہ جبکہ ملک وقوم کو نقصان ہوتا چلا گیا ۔ان کے بوئے ہوئے یہی بیج آج دہشت گردی ' فرقہ واریت اور صوبائیت کی شکل میں تناور درخت بن چکے ہیں 'جنہیں ختم کرنا ہی ہمارا مشن ہونا چاہیئے ' مگر اس کے لئے ہمیں کوئی بھی جارحانہ انداز اپنانے کی بجائے اسے پرامن طریقہ سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

کیونکہ فرقہ واریت 'دہشت گردی اور صوبائیت کا زہر ہماری رگوں میں اتنی تیزی سے داخل ہوچکا ہے کہ اور ہماری تھوڑی سے بھی کوتاہی اور لاپرواہی اس کو مزید بڑھا دی گی۔ اختر مینگل کے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے پیش کئے جانے والے چھ نکات مجیب الرحمان کے چھ نکات سے نہیں ملتے ' ان کے مطالبات اگر دیکھا جائے تو یہ کسی بھی عام پاکستانی کے ہوسکتے ہیں جس میں انہوں نے احساس محرومی ختم کرنے کے حوالے سے اپنا حق مانگا ہے، جس سے انہیں پچھلے کئی سالوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ہمیں تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اتنے ظلم وستم اور زیادیتوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں۔

یہ مطالبات پورے بلوچستان کی آواز ہیں ' جس میں انہیں صرف اپنا حق اور وسائل چاہئیں' حکومت اگر واقعی صوبہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے میں سنجیدہ ہے تو ان مطالبات کو ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے جو فنڈز مہیا کئے جاتے رہے ان کا ستر فیصد پیسہ چند مخصوص لوگوں کی جیبوں میں ہی جاتا رہا۔ اگر یہی وسائل اور پیسہ بلوچستان کے عام لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوتا تو آج نہ صرف وہاں کے لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوتی بلکہ یہ صورتحال بھی نہ ہوتی'جس کا آج ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صوبہ بلوچستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس میں ہم نے انہیں احساس محرومی کے سوا کچھ نہیں دیا' بلکہ جو صوبہ گیس پیدا کرتا ہے وہاں کے شہریوں کو یہ سہولت ہی حاصل نہیں ہے ۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے۔ بلوچستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے' جن تک وہاں کے شہریوں کو رسائی دی جائے تو اس سے نہ صرف معاشی طور پر وہ خوشحال ہوں گے بلکہ پاکستان اس مد میں زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے' اپنوں کو غدار کہنا چھوڑ دیں۔فوج نے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہے'اس صورتحال کو بدلنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچ فوجی آمریت پر کبھی اعتماد نہیں کرینگے ۔

بلوچوں کے مسائل کے حوالے سے جمہوری حکمران اپنے ساڑھے چار سالہ دور کے اندر اعتماد سازی کرسکتے تھے۔جس کے لیے انہیں کسی قسم کی رکاوٹ کا بھی سامنا نہیں تھا 'کیونکہ اپوزیشن سمیت تمام جماعتیں اس مسئلہ کو حل کرنے کی خواہشمند ہیں۔ جس قوم پر پانچ آپریشن ہو چکے ہوں' جن کے ہزاروں بے گناہ لوگ لاپتہ اور قتل کردئیے گئے ہوں' جنہیں ان کے حق سے محروم رکھا جارہا ہو' بیروزگاری ان کا مقدر بن گئی ہو' دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہو ' جب ان کی کوئی شنوائی نہ ہورہی ہو تو پھر وہ آگ ہی اگلیں گے۔ ہمیں اس آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو نواب اکبر بگٹی کے قاتل کو فوراً پکڑا جائے ۔

اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے ٹرائل بہترین رول پلے کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملہ کو جلد سے جلد حل کیا جائے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے بلوچ' سندھی، پختون اورپنجابی سمیت تمام پاکستانی مسلمان اور بھائی بھائی ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی حقوق کی بات کرتا ہے تو خدارا اس کی بات سننی اور سمجھنی چاہیے۔

عمر سرفراز چیمہ
(مرکزی رہنما تحریک انصاف)

تحریک انصاف کے رہنماء عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ وہ بلوچستان کے حقوق کیلئے اختر مینگل کے تمام نکات کی پوری حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان میں ملک اور آئین کے خلاف کوئی چیز نہیںہے صرف انہوں نے اپنا جمہوری حق مانگا ہے۔ پچھلے 65 سال سے ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اور مجرمانہ غفلت کے باعث بلوچستا ن کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے جوکہ اب بلوچستان کے ہر گلی محلے میں پایا جاتا ہے۔ سابق حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی ڈکٹیٹر انہوں نے اپنی سیاست کیلئے بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کو مراعات دیں مگر وہاں کے عوام کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔

حالیہ صورتحال جس میں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ایسا صرف اس لئے ہوا کہ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث بیرونی طاقتوں کو یہاں سازشیں کرنے کا موقع ملا ۔ تحریک انصاف نے عام آدمی کی فلاح کیلئے کام کو ترجیح دی ہے جس کے باعث وہاں کے عوام کو تحریک انصاف اور عمران خان پر اعتماد پیدا ہوا اور انہوں نے کسی حفاظتی اقدامات کے بغیر بلوچستان میں کامیاب جلسہ کیاحالانکہ دیگر تمام سیاستدانوں کوکہیں بھی جلسہ کرنے کیلئے سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خون چاہے بلوچ کا بہے یا غیر بلوچ کا یہ پاکستان کا ہی خون ہے آج تک بلوچستان میںہونے والی قتل و غارت گری میں 15ہزار افراد قتل کئے جاچکے ہیں مگر ان کے خلاف آج تک باقاعدہ طور پر کہیں بات نہیں کی گئی۔ پاکستان کے ہر شہری کو ملک میں کہیں بھی رہیں، انہیں تحفظ ملنا چاہیے۔ اگر بلوچستان کے شہری کو پنجاب اور دیگر صوبوں میں محفوظ رہنے کا حق ہے تو پنجابی اور دیگر صوبوں کے شہریوں کو بھی بلوچستان میں محفوظ رہنے کا حق ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر 2008ء کے غیر آئینی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا مگر نواز شریف نے اس پلیٹ فارم کو چھوڑ کر انتخابات میں حصہ لیا جس کے باعث حقیقی عوامی قیادت حکومت میں نہیں آسکی اور اب آئین سازی سے باہر ہے اس لئے بھی بلوچستان کا مسئلہ زیادہ الجھ گیا ہے۔

میجر (ر)راحت لطیف
(عسکری تجزیہ نگار)

میجر جنرل (ر) راحت لطیف نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ کو ہم نے بہت بڑی پرابلم بنا دیا ہے۔ سرداری نظام حکومت اور کلچر چل رہا تھا۔ہم نے اس سسٹم کو بدلنے کے بجائے اسی طرح جاری رکھا ' سرداروں کو ہی سب کچھ دیا کہ وہ خود ہی ڈیمز بنائیں' سکول کھولیں اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کریں 'برٹش حکومت نے بھی یہی سلسلہ اختیار کیا ہوا تھا۔ان کے جانے کے بعد بھی یہی سسٹم رائج ہے' جس سے نچلے طبقہ کے مسائل جوں کے توں ہی چلے آرہے ہیں۔ہر دور حکومت میں حکمران اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کے لئے سرداروں کو ہی خوش کرنے میں لگے رہے ۔

آج جمہوری حکومت قائم ہے جس میں بلوچستان سے منتخب ہو کر آنے والے تمام کے تمام پارلیمنٹرین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان زیادہ تر اسلام آباد میں وقت گزارتے ہیں اس پر فیڈرل حکومت کو ایکشن لینا چاہیے کیونکہ منتخب نمائندے اور صوبہ کا وزیراعلیٰ اپنے عوام کے مسائل سننے اور ان کی دادرسی کے لئے نہیں ہوگا تو کس طرح سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ساڑھے چار سالہ دور میں کبھی بھی نہیں سنا اور پڑھا کہ اس صوبہ کے منتخب نمائندہ یا وزیراعلیٰ نے کسی علاقہ کا دورہ کیا ہو۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان کے لئے ایک خصوصی پیکج بنایا جو سرداروں کو ہی دے دیا گیا، حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ یہ ریلیف عام لوگوں تک پہنچاتی۔ رحمان ملک نے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے کہا کہ ہندوستان کی انٹیلی جنس راء کا ہاتھ ہے ا س کے بہت سے اہلکار وہاں موجود ہیں جن میں سے کچھ پکڑے بھی گئے ہیں مگر آج تک وہ کوئی بھی شواہد سامنے نہیں لاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔