تعلیم کے میدان میں پاکستان پیچھے کیوں
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقات کی ترجیحات میں کبھی بھی تعلیم کا فروغ شامل نہیں رہا
اقوام عالم کی ترقی وخوشحالی کا راز تعلیم کے فروغ میں مضمر ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقات کی ترجیحات میں کبھی بھی تعلیم کا فروغ شامل نہیں رہا،کیونکہ جاہل اور ان پڑھ عوام ہمیشہ کے لیے محکوم رہتے ہیں اور ان پر حکمرانی کرنا انتہائی سہل ۔ ہم تو اپنے قومی بجٹ کا بمشکل چار فیصد شعبہ تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں اقوام عالم میں بہت پیچھے ہیں۔
اس بات کی نشاندہی تو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ 54 لاکھ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے اورجوجاتے ہیں ان کی بہت کم تعداد دسویں جماعت تک پہنچ پاتی ہے۔ یہ جنوبی ایشیاکے ممالک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ سال میں جو اہداف مقررکیے گئے تھے وہ بھی حاصل نہیں ہوئے ۔
صنفی امتیاز بھی اس میں رکاوٹ ہے کہ ہم ابھی تک علم کی روشنی لڑکیوں تک پہنچنے نہیں دیتے،کہ ہماری سماج کی جاہلانہ رسمیں آڑے آتی ہیں ، لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہمارا فرسودہ نظام تعلیم جدید عہد کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا ، جس ملک میں دہرا ،تہرا نظام ہو وہ بھلا کیسے ''تعلیم سب کے لیے'' کے سلوگن پر پورا اتر سکتا ہے ۔طبقہ اشرافیہ کے لیے بیرون ممالک تعلیم کے مواقعے، مڈل کلاس نجی تعلیمی اداروں کے رحم وکرم پر، اور غریبوں کے لیے سرکاری اسکول ناپید ، یہ ہے ہمارا تعلیمی منظر نامہ ۔ تقریبا اب تک بننے والی کسی بھی سرکاری حکومت کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ماسوائے اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی یا فنڈزکی خردبرد سے ۔عمارتیں خستہ ہیں یا پھر بچے کھلے آسمان تلے پڑھتے ہیں ۔
کبھی ان پر غورکیوں نہیں کیا کہ آخر جو بچے کسی نہ کسی طرح اسکول میں داخل ہونے کے بعد اسکول چھوڑ جاتے ہیں، والدین کی معاشی مجبوریاں اور اساتذہ کا طالبعلموں پر تشدد بھی اہم وجوہات ہیں تعلیم نا مکمل رہنے کی ، یونیسکو نے پندرہ برس قبل جو پانچ اہداف مقرر کیے تھے جن میں بچوں کا اسکول میں داخلہ،بالغ افراد کی ناخواندگی کی شرح کونصف کرنا اور ثانوی تعلیمی سطح تک لڑکے اورلڑکیوں کا برابرکا تناسب شامل ہیں، وہ حاصل نہیں کیے جاسکے۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی ، عوام کی پہلی مانگ تعلیم ہونی چاہیے اور اپنے اس حق کے لیے انھیں اٹھ کھڑے ہونا چاہیے جب کہ سرکاری سطح پر تعلیم کے فروغ کے لیے ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے اور اس 'تعلیم سب کے لیے '' کے سلوگن کو کامیاب بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پرکام کیا جائے ۔تب ہی ہم اقوام عالم میں کوئی مقام پاسکتے ہیں ۔
اس بات کی نشاندہی تو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ 54 لاکھ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے اورجوجاتے ہیں ان کی بہت کم تعداد دسویں جماعت تک پہنچ پاتی ہے۔ یہ جنوبی ایشیاکے ممالک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ سال میں جو اہداف مقررکیے گئے تھے وہ بھی حاصل نہیں ہوئے ۔
صنفی امتیاز بھی اس میں رکاوٹ ہے کہ ہم ابھی تک علم کی روشنی لڑکیوں تک پہنچنے نہیں دیتے،کہ ہماری سماج کی جاہلانہ رسمیں آڑے آتی ہیں ، لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہمارا فرسودہ نظام تعلیم جدید عہد کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا ، جس ملک میں دہرا ،تہرا نظام ہو وہ بھلا کیسے ''تعلیم سب کے لیے'' کے سلوگن پر پورا اتر سکتا ہے ۔طبقہ اشرافیہ کے لیے بیرون ممالک تعلیم کے مواقعے، مڈل کلاس نجی تعلیمی اداروں کے رحم وکرم پر، اور غریبوں کے لیے سرکاری اسکول ناپید ، یہ ہے ہمارا تعلیمی منظر نامہ ۔ تقریبا اب تک بننے والی کسی بھی سرکاری حکومت کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ماسوائے اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی یا فنڈزکی خردبرد سے ۔عمارتیں خستہ ہیں یا پھر بچے کھلے آسمان تلے پڑھتے ہیں ۔
کبھی ان پر غورکیوں نہیں کیا کہ آخر جو بچے کسی نہ کسی طرح اسکول میں داخل ہونے کے بعد اسکول چھوڑ جاتے ہیں، والدین کی معاشی مجبوریاں اور اساتذہ کا طالبعلموں پر تشدد بھی اہم وجوہات ہیں تعلیم نا مکمل رہنے کی ، یونیسکو نے پندرہ برس قبل جو پانچ اہداف مقرر کیے تھے جن میں بچوں کا اسکول میں داخلہ،بالغ افراد کی ناخواندگی کی شرح کونصف کرنا اور ثانوی تعلیمی سطح تک لڑکے اورلڑکیوں کا برابرکا تناسب شامل ہیں، وہ حاصل نہیں کیے جاسکے۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی ، عوام کی پہلی مانگ تعلیم ہونی چاہیے اور اپنے اس حق کے لیے انھیں اٹھ کھڑے ہونا چاہیے جب کہ سرکاری سطح پر تعلیم کے فروغ کے لیے ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے اور اس 'تعلیم سب کے لیے '' کے سلوگن کو کامیاب بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پرکام کیا جائے ۔تب ہی ہم اقوام عالم میں کوئی مقام پاسکتے ہیں ۔