ایک ہی خاندان
برصغیر پاک وہند پر اپنی حکمرانی کو مسلّط اور مستحکم کرنے کے لیے انگریز نے دو ادارے قائم کیے۔
برصغیر پاک وہند پر اپنی حکمرانی کو مسلّط اور مستحکم کرنے کے لیے انگریز نے دو ادارے قائم کیے۔ ایک سول سروس اور دوسرا فوج۔یہ دونوں ادارے شروع دن ہی سے کسی نہ کسی شکل میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں اور علاقائی فتوحات کے لیے سرگرم رہے۔1757میں بنگال کی فتح کے ساتھ ہی انتظامی امور کے لیے ایک مختصر سا نظام وجود میں آیا۔ آہستہ آہستہ یہ دونوں ادارے یہاں کے حالات، ماحول، تہذیب وثقافت اور انگریز کی حکمرانی کے اہداف کے مطابق بنتے اور سنورتے رہے۔
ان دونوں اداروں میں انگریز نے کچھ اداراتی اخلاقیات اور ایک مخصوص گروہی تہذیب کو فروغ دیا۔ سول سروس اور فوج، دونوں کے افسران اپنے رہن سہن، بول چال، تہذیبی اقدار، اخلاقی سوچ، لباس، یہاں تک کہ بہت حد تک بولنے کے انداز تک سے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی ان کا یہ نقش اور ٹھپہ قائم نظر آتا ہے۔
سول سروس تو اس قدر سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کی زد میں آئی کہ اپنا وہ حلیہ برقرار نہ رکھ سکی، لیکن فوج نے چونکہ پہلے دن سے لے کر آج تک انگریز کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط میںکسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی، اسی لیئے آپ کو انگلستان کا ریٹائرڈ جنرل، کرنل یا بریگیڈیر اور بھارت، پاکستان یا بنگلہ دیش کا ریٹائرڈ آفیسر ایک طرح کی عادات و خصائل کا حامل نظر آئے گا اور آپ اسے فوراً اس کی چال ڈھال سے پہچان لیں گے کہ یہ ایک ریٹائرڈ فوجی ہے۔ آج سے تیس سال قبل تک یہ پہچان سول سروس کے ساتھ بھی وابستہ تھی اور ان سول افسران کی بھی دوران ملازمت اور بعداز ملازمت زندگی پہچانی جاتی تھی۔
ان دونوں اداروں کو انگریز نے سرکار کا وفادار بنانے اور انگریزی تہذیب و ثقافت سے مرعوب رکھنے کے لیے انھیں چند سبق ازبر کروائے۔ ان میں سب سے پہلا سبق انگریزی تھی۔ غلط بولو، بری بولو، لیکن انگریزی بولو۔اسی لیے پورے برصغیر کی فوج کی ایک مخصوص انگریزی نکل کر سامنے آئی۔
دوسری جانب سول سروس میں چونکہ عام آدمی سے تعلق پڑتا تھا اس لیے علاقائی زبان کو ایک اختیاری ذمے داری کے طور پر سیکھنا ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا، لیکن افسران کی دفتری اور ماحولیاتی زبا ن انگریزی ہی رہی۔ یوں وہ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، خواب دیکھتے اور گفتگو کرتے اس بات کا خیال رکھتے کہ کہیں انھیں عام آدمی نہ تصور کرلیا جائے۔
علاقائی زبان سیکھنے پر علیحدہ الاؤنس دیا جاتا۔ تمام ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں ایک شعبہ انگریزی کا ہوتا او ردوسرا علاقائی زبان کا جسے ورنیکلر کہتے۔ اس ورنیکلر میں بھی زیادہ تر فارسی زبان استعمال ہوتی اس لیئے کہ صدیوں سے برصغیر کی دفتری زبان فارسی تھی اور قدیم ریکارڈ اسی زبان میں تھا۔ ان دونوں اداروں کے افسران کو زندگی گذارنے کے جو اصول سکھائے گئے وہ خالصتاً سیکولر اورریاستِ انگریزسے وابستہ تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ایک مقامی ڈپٹی کمشنر اپنے ہی قبیلے، قوم یا مذہب کے افراد پر لاٹھی چارج کر لیتا، جیل بھیج دیتا، یہاں تک کہ گولی بھی چلادیتا۔ اس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ سامنے والا شخص کس قدر حق پر ہے، یہ جلوس، جلسہ یا پھر لوگوں کا علم بغاوت دراصل حاکم کے خلاف ہے، جس کا وہ ملازم ہے خواہ وہ انگریز قابض ہی کیو ں نہ ہو۔ اس کے نزدیک امنِ عامہ کا قیام اس کی بنیادی ذمے داری تھی اور باغی کو کچلنا فرض اولین خواہ وہ اس کی طرح کلمہ پڑھتا ہو یا بھگوت گیتا۔
اس کے جذبات ہو سکتا ہے ہجوم کے ساتھ ہوں لیکن نوکری کرنے کی ایسی غلامانہ صفت اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف ان پر گولی تک چلانے کے احکامات صادر کر دیتا تھا۔ یہی حال فوج کا تھا۔ اس کے نزدیک سرحدی تحفظ، علاقائی سالمیت اور بغاوت کا قلعہ قمع سب سے اہم تھا اور یہی ذمے داری اس کے وجود کا جواز تھی۔
اسی لیے مسلمان کو مسلمان پر، ہندو کو ہندو اور سکھ کو سکھ پر گولی چلانے یا اس سے جنگ کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہ ہوتا۔ تاجِ برطانیہ سے وفاداری اس وقت کے ایک فوجی کی معراج تھی۔ اور وہ اپنی زبان بولنے والوں، بلکہ اپنے قبیلے والوں سے بھی لڑنے کے لیے میدان میں اتر آتا۔ اس لیے کہ اسے اس بات کا درس دیا گیا تھا کہ وردی پہننے کے بعد تم نے ایک نیا قبیلہ، گروہ یا برادری کو اختیار کر لیا ہے، اب تمہارا مرنا جینا انھیں کے ساتھ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ سول سروس اور فوج کے افسران کی آپس میں ہی رشتے داریاں ہونے لگیں۔ وہ جو برادری، نسل رنگ سے باہر نہیں نکلتے تھے انگریز کی غلامی کے بالا دست رشتے میں پیوست ہونے لگے۔
ان دونوں اداروں نے اس برصغیر میں اپنے اور عوام کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کے لیے ایک اور طبقہ ''زرعی اور سیاسی اشرافیہ'' کو تخلیق کیا۔ وہ لوگ جنھیں ہزاروں ایکڑزمینیں عطا کی گئیں۔
یہ زمینیں خالصتاً وفاداری کے صلے میں دی گئیں۔ جس نے جنگوں میں جتنے زیادہ کڑیل جوان انگریز کی فوج میں بھرتی کروائے تھے، وہ اتنا ہی بڑا، خان، نواب، چوہدری، وڈیرہ اور تمن دار بنا دیا گیا۔ ان سب کی اولادوں کو انگریزی تہذیب اور سول سروس اور فوج کی طرح اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے لاہور میں چیف کالج کھولا گیا جسے ایچیسن کالج کہا جاتا ہے۔ یہاں اس سیاسی اشرافیہ کو وہی سب کچھ سکھایا گیا جو سول سروس اور فوج کو سکھایا جاتا تھا۔
یوں ان لوگوں کا رہن سہن، عادات و اطوار او ر سوچ سب کی سب ایک جیسی ہوگئی۔ کتنے ایسے عہدے تخلیق کیے گئے جو انتظامی امور میں سول سروس کی مدد کرتے اور مراعات یافتہ زندگی گذارتے۔ آنریری مجسٹریٹ سے لے کرنمبر دار تک ان سب پر اس سیاسی اشرافیہ کے فرزندان فائز ہوتے اور ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے دفتر اور گھر پر لہرائے جانے والے برطانوی پرچم کی بالا دستی کے لیے کام کرتے۔انھیں بھی انگریز سرکار کی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے اپنی قوم، اپنی نسل یہاں تک کہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو دبانے، انھیں انگریز کا وفادار بنانے اور یہاں تک ان کے خلاف مخبری کر کے سزا دلوانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہ ہوتی۔ یہ سب وہ ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کر رہے ہوتے جسے ریاست یا حکومت کی رٹ کہا جاتا ہے۔
یہ تیسرا طبقہ جسے سیاسی اشرافیہ کہا جاتا تھا اقتدار کے ایوانوں میں ان دونوں طبقات کا شریک ہو گیا، لیکن اس کی حیثیت مرعوب سی رہی۔ ڈپٹی کمشنر کی ایک رپورٹ کسی خان، وڈیرے یا چوہدری کی ساری وفاداریوں پر پانی پھیر سکتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ اس طبقے نے جب اپنی وسیع جائیدادوں اور سرکاری دفاتر میں اثرورسوخ سے لوگوں کو اپنا مطیع بنا لیا اور انگریز کو یہ یقین ہو گیا کہ اب اس سیاسی اشرافیہ نے عوام کواچھی طرح جکڑ لیا ہے اور عوام انھیں چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں جا سکتے، تو اس نے لوکل کونسل،لیجس لیٹیو کونسل وغیرہ کے انتخابات شروع کروا دیے، تا کہ لوگوں کو اس فریب میں مبتلا کیا جائے کہ یہ جو وزیراعلیٰ ہے، یہ تمہارے ووٹ سے برسراقتدار آیا ہے۔
یہ سیاسی اشرافیہ، فوج اور سول سروس کے ساتھ رشتے داریوں کے بندھن میں بند ھنے لگی اور یوں اس برصغیر میں ایک ایسا وسیع خاندان وجود میں آگیا جو سید،مرزا، جاٹ، گجر، خٹک، آرائیں، گبول وغیرہ تو نسلاً تھے لیکن ان کی رشتے داریاں اسی اشرافیہ سے باہر نہیں ہوتی تھیں۔ باپ جرنیل تو بیٹا ڈپٹی کمشنر اور داماد اسمبلی کا رکن۔ عرب انساب کے بہت ماہر ہوا کرتے تھے۔ برصغیر میں یہ کام مراثی کرتے تھے جو لوگوں کے شجرۂ نسب کو یاد رکھتے۔ آج اگر کوئی انساب کا ماہر اس ملک میں ان تینوں گروہوں کا شجرہ نسب ترتیب دے تو حیران رہ جائے، یہ سب تو ایک ہی دوسروں میں نسلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
ان کے دکھ سکھ سب مشترک ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان سب کا مفاد ایک ہے۔ ان سب کی صفوں میں اگر کوئی نیچ ذات کا کمی کمین اپنی محنت سے آملے تو چند ہی سالوں میں ایسا کندن بن کر نکلتا ہے کہ پہنچنانا مشکل ہو جاتا ہے، اور ایک دو نسلوں بعد تو وہ اشرافیہ کی ویسی ہی علامت بن جاتاہے۔ ڈیڑھ سو سالوں سے یہی ایک خاندان ہے جس کی اس ملک پر حکومت ہے۔ گنتی کے یہ چند لوگ اٹھارہ کروڑ عوام پر آج بھی حکمران ہیں۔
ان دونوں اداروں میں انگریز نے کچھ اداراتی اخلاقیات اور ایک مخصوص گروہی تہذیب کو فروغ دیا۔ سول سروس اور فوج، دونوں کے افسران اپنے رہن سہن، بول چال، تہذیبی اقدار، اخلاقی سوچ، لباس، یہاں تک کہ بہت حد تک بولنے کے انداز تک سے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی ان کا یہ نقش اور ٹھپہ قائم نظر آتا ہے۔
سول سروس تو اس قدر سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کی زد میں آئی کہ اپنا وہ حلیہ برقرار نہ رکھ سکی، لیکن فوج نے چونکہ پہلے دن سے لے کر آج تک انگریز کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط میںکسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی، اسی لیئے آپ کو انگلستان کا ریٹائرڈ جنرل، کرنل یا بریگیڈیر اور بھارت، پاکستان یا بنگلہ دیش کا ریٹائرڈ آفیسر ایک طرح کی عادات و خصائل کا حامل نظر آئے گا اور آپ اسے فوراً اس کی چال ڈھال سے پہچان لیں گے کہ یہ ایک ریٹائرڈ فوجی ہے۔ آج سے تیس سال قبل تک یہ پہچان سول سروس کے ساتھ بھی وابستہ تھی اور ان سول افسران کی بھی دوران ملازمت اور بعداز ملازمت زندگی پہچانی جاتی تھی۔
ان دونوں اداروں کو انگریز نے سرکار کا وفادار بنانے اور انگریزی تہذیب و ثقافت سے مرعوب رکھنے کے لیے انھیں چند سبق ازبر کروائے۔ ان میں سب سے پہلا سبق انگریزی تھی۔ غلط بولو، بری بولو، لیکن انگریزی بولو۔اسی لیے پورے برصغیر کی فوج کی ایک مخصوص انگریزی نکل کر سامنے آئی۔
دوسری جانب سول سروس میں چونکہ عام آدمی سے تعلق پڑتا تھا اس لیے علاقائی زبان کو ایک اختیاری ذمے داری کے طور پر سیکھنا ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا، لیکن افسران کی دفتری اور ماحولیاتی زبا ن انگریزی ہی رہی۔ یوں وہ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، خواب دیکھتے اور گفتگو کرتے اس بات کا خیال رکھتے کہ کہیں انھیں عام آدمی نہ تصور کرلیا جائے۔
علاقائی زبان سیکھنے پر علیحدہ الاؤنس دیا جاتا۔ تمام ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں ایک شعبہ انگریزی کا ہوتا او ردوسرا علاقائی زبان کا جسے ورنیکلر کہتے۔ اس ورنیکلر میں بھی زیادہ تر فارسی زبان استعمال ہوتی اس لیئے کہ صدیوں سے برصغیر کی دفتری زبان فارسی تھی اور قدیم ریکارڈ اسی زبان میں تھا۔ ان دونوں اداروں کے افسران کو زندگی گذارنے کے جو اصول سکھائے گئے وہ خالصتاً سیکولر اورریاستِ انگریزسے وابستہ تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ایک مقامی ڈپٹی کمشنر اپنے ہی قبیلے، قوم یا مذہب کے افراد پر لاٹھی چارج کر لیتا، جیل بھیج دیتا، یہاں تک کہ گولی بھی چلادیتا۔ اس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ سامنے والا شخص کس قدر حق پر ہے، یہ جلوس، جلسہ یا پھر لوگوں کا علم بغاوت دراصل حاکم کے خلاف ہے، جس کا وہ ملازم ہے خواہ وہ انگریز قابض ہی کیو ں نہ ہو۔ اس کے نزدیک امنِ عامہ کا قیام اس کی بنیادی ذمے داری تھی اور باغی کو کچلنا فرض اولین خواہ وہ اس کی طرح کلمہ پڑھتا ہو یا بھگوت گیتا۔
اس کے جذبات ہو سکتا ہے ہجوم کے ساتھ ہوں لیکن نوکری کرنے کی ایسی غلامانہ صفت اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف ان پر گولی تک چلانے کے احکامات صادر کر دیتا تھا۔ یہی حال فوج کا تھا۔ اس کے نزدیک سرحدی تحفظ، علاقائی سالمیت اور بغاوت کا قلعہ قمع سب سے اہم تھا اور یہی ذمے داری اس کے وجود کا جواز تھی۔
اسی لیے مسلمان کو مسلمان پر، ہندو کو ہندو اور سکھ کو سکھ پر گولی چلانے یا اس سے جنگ کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہ ہوتا۔ تاجِ برطانیہ سے وفاداری اس وقت کے ایک فوجی کی معراج تھی۔ اور وہ اپنی زبان بولنے والوں، بلکہ اپنے قبیلے والوں سے بھی لڑنے کے لیے میدان میں اتر آتا۔ اس لیے کہ اسے اس بات کا درس دیا گیا تھا کہ وردی پہننے کے بعد تم نے ایک نیا قبیلہ، گروہ یا برادری کو اختیار کر لیا ہے، اب تمہارا مرنا جینا انھیں کے ساتھ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ سول سروس اور فوج کے افسران کی آپس میں ہی رشتے داریاں ہونے لگیں۔ وہ جو برادری، نسل رنگ سے باہر نہیں نکلتے تھے انگریز کی غلامی کے بالا دست رشتے میں پیوست ہونے لگے۔
ان دونوں اداروں نے اس برصغیر میں اپنے اور عوام کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کے لیے ایک اور طبقہ ''زرعی اور سیاسی اشرافیہ'' کو تخلیق کیا۔ وہ لوگ جنھیں ہزاروں ایکڑزمینیں عطا کی گئیں۔
یہ زمینیں خالصتاً وفاداری کے صلے میں دی گئیں۔ جس نے جنگوں میں جتنے زیادہ کڑیل جوان انگریز کی فوج میں بھرتی کروائے تھے، وہ اتنا ہی بڑا، خان، نواب، چوہدری، وڈیرہ اور تمن دار بنا دیا گیا۔ ان سب کی اولادوں کو انگریزی تہذیب اور سول سروس اور فوج کی طرح اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے لاہور میں چیف کالج کھولا گیا جسے ایچیسن کالج کہا جاتا ہے۔ یہاں اس سیاسی اشرافیہ کو وہی سب کچھ سکھایا گیا جو سول سروس اور فوج کو سکھایا جاتا تھا۔
یوں ان لوگوں کا رہن سہن، عادات و اطوار او ر سوچ سب کی سب ایک جیسی ہوگئی۔ کتنے ایسے عہدے تخلیق کیے گئے جو انتظامی امور میں سول سروس کی مدد کرتے اور مراعات یافتہ زندگی گذارتے۔ آنریری مجسٹریٹ سے لے کرنمبر دار تک ان سب پر اس سیاسی اشرافیہ کے فرزندان فائز ہوتے اور ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے دفتر اور گھر پر لہرائے جانے والے برطانوی پرچم کی بالا دستی کے لیے کام کرتے۔انھیں بھی انگریز سرکار کی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے اپنی قوم، اپنی نسل یہاں تک کہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو دبانے، انھیں انگریز کا وفادار بنانے اور یہاں تک ان کے خلاف مخبری کر کے سزا دلوانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہ ہوتی۔ یہ سب وہ ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کر رہے ہوتے جسے ریاست یا حکومت کی رٹ کہا جاتا ہے۔
یہ تیسرا طبقہ جسے سیاسی اشرافیہ کہا جاتا تھا اقتدار کے ایوانوں میں ان دونوں طبقات کا شریک ہو گیا، لیکن اس کی حیثیت مرعوب سی رہی۔ ڈپٹی کمشنر کی ایک رپورٹ کسی خان، وڈیرے یا چوہدری کی ساری وفاداریوں پر پانی پھیر سکتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ اس طبقے نے جب اپنی وسیع جائیدادوں اور سرکاری دفاتر میں اثرورسوخ سے لوگوں کو اپنا مطیع بنا لیا اور انگریز کو یہ یقین ہو گیا کہ اب اس سیاسی اشرافیہ نے عوام کواچھی طرح جکڑ لیا ہے اور عوام انھیں چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں جا سکتے، تو اس نے لوکل کونسل،لیجس لیٹیو کونسل وغیرہ کے انتخابات شروع کروا دیے، تا کہ لوگوں کو اس فریب میں مبتلا کیا جائے کہ یہ جو وزیراعلیٰ ہے، یہ تمہارے ووٹ سے برسراقتدار آیا ہے۔
یہ سیاسی اشرافیہ، فوج اور سول سروس کے ساتھ رشتے داریوں کے بندھن میں بند ھنے لگی اور یوں اس برصغیر میں ایک ایسا وسیع خاندان وجود میں آگیا جو سید،مرزا، جاٹ، گجر، خٹک، آرائیں، گبول وغیرہ تو نسلاً تھے لیکن ان کی رشتے داریاں اسی اشرافیہ سے باہر نہیں ہوتی تھیں۔ باپ جرنیل تو بیٹا ڈپٹی کمشنر اور داماد اسمبلی کا رکن۔ عرب انساب کے بہت ماہر ہوا کرتے تھے۔ برصغیر میں یہ کام مراثی کرتے تھے جو لوگوں کے شجرۂ نسب کو یاد رکھتے۔ آج اگر کوئی انساب کا ماہر اس ملک میں ان تینوں گروہوں کا شجرہ نسب ترتیب دے تو حیران رہ جائے، یہ سب تو ایک ہی دوسروں میں نسلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
ان کے دکھ سکھ سب مشترک ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان سب کا مفاد ایک ہے۔ ان سب کی صفوں میں اگر کوئی نیچ ذات کا کمی کمین اپنی محنت سے آملے تو چند ہی سالوں میں ایسا کندن بن کر نکلتا ہے کہ پہنچنانا مشکل ہو جاتا ہے، اور ایک دو نسلوں بعد تو وہ اشرافیہ کی ویسی ہی علامت بن جاتاہے۔ ڈیڑھ سو سالوں سے یہی ایک خاندان ہے جس کی اس ملک پر حکومت ہے۔ گنتی کے یہ چند لوگ اٹھارہ کروڑ عوام پر آج بھی حکمران ہیں۔