یہ سب کیسے ہوا

دلی پایہ تخت تھا اس کو چھوڑ کر ایسے علاقوں کی طرف ہجرت جو نسبتاً کم ترقی یافتہ تھے


Anis Baqar April 24, 2015
[email protected]

یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب تحریک پاکستان زور شور سے غیر منقسم ہندوستان میں چل رہی تھی تو اکثر قراردادیں جلوس جلسہ ان شہروں میں ہوتے تھے جہاں ہندوؤں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی، مثلاً 1930میں علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ باد، لکھنو کا احوال جہاں محمد علی جناح کو قائداعظم کے خطاب سے نوازنا، علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام اور نوجوان مسلم لیگیوں کی فکری تربیت سرسید احمد خان کے افکار جدید اور پھر یہ نعرہ اور جلوس 1940 کے ابتدائی دور میں کہ

بٹ کے رہے گا ہندوستان
لے کے رہیں گے پاکستان

ظاہر ہے آج کشمیر میں صرف پاکستان کا جھنڈا نظر آنے پر اس قدر سختی تو وہ وقت سوچئے جب غیر منقسم ہندوستان میں مسلم لیگ کا جھنڈا نظر آتا تھا۔ یہ سب اس لیے آسان تھا کہ ہندوستان پر تقریباً سات سو برس مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔

اس کے نفسیاتی اثرات اور اس سے زیادہ ہندو مسلم رواداری تھی جس کا ثبوت مولانا محمد علی جوہر کی وہ تحریک جو خلافت کے لیے تھی اس میں مہاتما گاندھی کی شمولیت، مگر یہ رواداری انگریز کے سیاسی اقدامات سے جاتی رہی اور قیام پاکستان کی تحریک ایک حقیقت بن کر ابھری۔ بستیاں اجڑیں خاندان تقسیم ہوئے تاریخ کی سب سے بڑی تقسیم ہوئی اور ہجرت بھی، ہندوؤں اور مسلمانوں نے خون کے دریا عبور کیے۔ نسبتاً مسلمانوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ حکمرانی کی آسودگی مسلمانوں نے زیادہ دیکھی تھی پھرجنگ آزادی کے شکوک اور شبہات کے بیج انگریزوں کے دلوں میں زیادہ تھے۔

دلی پایہ تخت تھا اس کو چھوڑ کر ایسے علاقوں کی طرف ہجرت جو نسبتاً کم ترقی یافتہ تھے، کراچی ممبئی کے زیر اثر یہاں کے تعلیمی ادارے بھی اسی کے ماتحت۔ پھر اودھ، پٹنہ، ڈھاکہ، کلکتہ، دکن، گجرات وغیرہ میں سے پاکستان کے کچھ پاس رہا، کچھ آ کے چلا گیا، کراچی کے ساحل پہ جہاز لنگر انداز ہوئے کچھ ریگزاروں کو عبور کر کے پہنچے۔

آنے والوں کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ کسی غیر کی بستی میں جا رہے ہیں جہاں دربدر مارے پھریں گے بلکہ وہ ملک جو انھوں نے مسخر کیا ہے ووٹ کے زور سے مگر جب وہ پناہ گیر کہلائے تو بھی وہ مہاجر نہ بنے کیونکہ بیوروکریسی اپنی انتظامیہ اور پہلا وزیر اعظم ساتھ لائے تھے۔ گو کہ اس علاقے میں کوئی ان کا حلقہ انتخاب نہ تھا، چند لاکھ کا ساحلی شہر کراچی قائد اعظم نے دارالسلطنت قرار دیا، اردو زبان کو ملک کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا تاکہ صوبے کے لوگ آپس میں رابطے کا کام کریں۔

ایوب خان کی آمد نے گوکہ بہت سے ملکی اعتبار سے بہت اچھے کام کیے، نہری نظام، ڈیم بنائے مگر کراچی سے دارالسلطنت لے جانے نے پہلی بار ان کو مشکوک بنایا اور بنگالی بھی ان کے ہمنوا بنے گوکہ بنگالی اردو کی بالادستی سے ناراض تھے مگر اس کا مداوا کیا جاچکا تھا مگر مسلح افواج اور گورنمنٹ ملازمتوں میں ان کا تناسب آبادی کے اعتبار سے کم رہا۔

ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ایک خاص جمہوریت بنیادی جمہوری کے 80 ہزار ووٹر چن کر 40 ہزار مغربی پاکستان اور 40 ہزار مشرقی پاکستان کے کارندوں کے ذریعے شکست کا انوکھا طریقہ وضع کیا کراچی نے تقریباً صد فیصد فاطمہ جناح کو ووٹ دیا اور پہلی بار کراچی میں پٹھان مہاجر مناقشہ پیدا ہوا۔کراچی کا پورا ماحول بشمول بنگالیوں کے بدل گیا ، شاعر و ادیب دانشور سب ہی مخالف ہوگئے اور تحریر کی دنیا نے ایک سخت کروٹ لی، اس وقت کے ایک معروف شاعر شکیل احمد ضیا کا ایک شعر جو اس وقت کی کیفیت بیان کرتا ہے ملاحظہ ہو:

الحذر الحذر اے خدایانِ زر' ہم نے دیکھا ہے یہ خواب وحشت اثر
کچھ شکستہ مکانوں سے شعلے اٹھے اور پھر شہرکا شہر جلنے لگا

گوکہ ایوب خان نے شاعروں ادیبوں پر توجہ دے رکھی تھی مگر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے قلم کو سربلند رکھا جن میں سید سبط حسن، فیض احمد فیض ، حبیب جالب، حسن حمیدی قابل ذکر ہیں اور کراچی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF)کو صف اول میں ہی رکھنا ہوگا جس نے فاطمہ جناح کے جلسے اور جلوسوں کو سرفہرست رکھا ۔

طلبا کا یہ فرنٹ ڈاکٹر باقر عسکری کے پاس تھا اس وقت جو آگ بھڑکی تھی وہ بجھ گئی اور پٹھان مہاجر پھر شیروشکر ہوگئے اور پنجابیوں کے لیے اردو بولنے والوں کو بغض نہ تھا گویا مہاجر فیکٹر، 1969تک کبھی ایکشن میں نہ تھا گوکہ کالجوں میں اکثر جب الیکشن ہوتے تو این ایس ایف جیتتی۔ مگر کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبا 1968 کے بعد چند برس یونیورسٹی میں کامیاب ہوئی مگر کراچی کی مجموعی فضا این ایس ایف کے پاس تھی ۔

این ایس ایف کے اکابرین زیادہ تر نیشنل عوامی پارٹی کے نظریاتی ساتھی تھے اور اس ملک کی روپوش کمیونسٹ پارٹی کی نظریاتی طور پر ساتھ تھی اور وہ سندھ کے ہاریوں اورکراچی کے مزدوروں کے مابین زبان کو اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے جس کی وجہ سے اردو بولنے والوں میں پارٹی کمزور تر ہوتی گئی۔

وہ پارٹی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا تاریخی جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں کرایا۔ ایوب خان سے اختلاف کی ہمت دی کمزور تر ہوتی گئی اور ایک روز ایسا آیا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ شہر میں بنگالی بہاری فساد کی کیفیت پیدا ہوئی، ایک طرف الاعظم اسکوائرکے قریب بھوک ہڑتالی کیمپ تھے، بہاریوں کو پاکستان لاؤ دوسری جانب جامشورو میں کامل راجپر کا کیمپ تھا، بہارین نہ کھپن۔ سندھی نظریاتی طور پر تقسیم ہوتا جا رہا تھا ۔

بنگال کی علیحدگی کے بعد اردو بولنے والوں کو پانچویں قومیت کا مسئلہ درپیش تھا ۔محمود الحق عثمانی جو نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے جن کے گھر پر پانچویں قومیت کی بحث چلتی رہتی تھی اور ایک دن ایسا آیا کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر جو بعد میں پیپلز پارٹی کی بے نظیر حکومت میں وفاقی وزیر صحت کے درجے پر فائز ہوئے انھوں نے مرکزی میٹنگ میں کراچی صوبے کی قرارداد پیش کی جو ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوئی۔

تمام کام شروع ہونے لگے بینر بننے لگے۔ 1971 میں سندھ کے گورنرکی ایما بھی تھی، جنرل یحییٰ خان بھی اس نظریے کے حامی تھے اور سرمایہ کار بھی مگر کمیونسٹ پارٹی کے صدر نازش امروہوی حامی نہ تھے لہٰذا مزدور اور ہاری فرنٹ خاموش رہا اور طلبا بھی تقسیم رہے۔ غرض این ایس ایف نے تندہی سے کراچی صوبے کی تحریک نہ چلائی، کراچی صوبے کی تحریک کو اصل میں روحانی غذا اس وقت ملی جب ممتاز بھٹو وزیر اعلیٰ سندھ بنے جنھیں بھٹو صاحب نے ٹیلنٹڈ کزن کہہ کر مخاطب کیا، انھوں نے اردو کی مخالفت میں سندھی زبان کو کھڑا کیا جب کہ اردو اور سندھی دوست زبانیں ہیں اور ادھر رئیس امروہوی نے اپنے مصرعے سے شہر کو آگ لگائی:

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

حالات بگڑتے گئے صوبہ نہ بنا مگر نیپ کے بکھرے ہوئے لوگوں نے مہاجر تصور کو عام کیا اور اس پر انھوں نے مہر ثبت کی جنھوں نے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں، نوکریوں میں میرٹ کو نکال باہر کیا،سندھ سیکریٹریٹ میں اردو بولنے والے غائب ہوگئے، پڑھے لکھے لوگوں کو ملازمتیں نہ ملتی تھیں،گورنمنٹ محکموں میں ایک عجیب سا امتیاز تھا، حالات ایسے پیدا ہوئے جو لوگ براہ راست ہجرت کر کے آئے، وہ مہاجر نہ تھے بلکہ وہ تو خود کو معمار پاکستان سمجھتے رہے مگر ان کی اولاد نے خودکو مہاجرکہلوانے میں فخر محسوس کرنا شروع کردیا۔

بالآخر 1975 میں الطاف حسین کی قیادت میں کراچی یونیورسٹی سے APMSOمہاجر اسٹوڈنٹس کا آغاز ہوا۔ کراچی میں بسنے والوں نے اول اول بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی اور وسطی شہر کو بسایا، ادبی محفلیں سجائیں مگر سیاسی تحریکوں کے عوض ان کو کچھ نہ ملا ،کیپٹل (Capital) گیا تو مرکزی حکومت کی ملازمتیں بھی گئیں، بھارت سے آکر سندھ میں بسنے والوں کو بھارت میں آنے جانے میں ویزے کا مسئلہ رہا،کراچی اور سندھ کے لوگوں کا یہ بڑا مسئلہ رہا ہے۔

خاندان کے لوگ بھارت میں مرتے رہے، یہ مسئلہ بھی حل نہ ہوا، مسائل جوں کے توں مقامی اور غیر مقامی کا تصور ملک میں پیدا ہونے لگا۔ سندھ میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے آئے تھے، آنے والے کہتے ہیں، ذرا نیشنل بینک کی (Treasury) کو دیکھ لیں نہ ختم ہونے والی بحث ۔

سندھی ترقی پسند ادبی تحریک کا خاتمہ، عبدالمجید سندھی جیسے لیڈروں کا عنقا ہوجانا، متعصب لیڈرشپ کا عروج، مہاجر فیکٹر کے احیا کے اسباب ہیں۔ مگر وقت کی تیز رفتاری، خیالوں کی بلندی، قربت کے گیت گائیں گے۔ اردو سندھی بولنے والوں کی شادیاں سندھ میں شادیانوں کا مژدہ ہیں مگر یہ عمل ہنوز سست روی کا شکار ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں