عملی اور تعمیری سیاست کی روشن مثال

موجودہ حکومت نے یہ تمام کامیابیاں صرف دو سال کے مختصر عرصے میں حاصل کر لی ہیں۔

mnoorani08@gmail.com

موجودہ نواز حکومت اور سابقہ زرداری حکومت کے درمیان ایک بہت بڑا بنیادی فرق جو رفتہ رفتہ کھل کر عیاں ہوتا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت حتی الامکان کچھ نہ کچھ اچھا کرنے کی جستجو میں ہمہ تن مشغول اور مصروف ہے جب کہ سابقہ جمہوری حکومت صرف وقت گزارے کی پالیسی پر گامزن تھی۔

اُس نے صرف اور صرف اپنے پانچ سال پورے کرنے تھے وہ جیسے تیسے اُس نے کر لیے۔ بحیثیت مجموعی اُس دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ ہاں البتہ کرپشن اور مالی بدعنوانی کی وارداتوں کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے آمرانہ دور کے فوراً بعد جب جمہوری دور آیا اور اُس نے حالات میں بہتری پیدا کرنے کی بجائے مزید بگاڑ پیدا کر دیا تو عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اِس جمہوری دور سے تو سابقہ غیر جمہوری دور ہی بہتر تھا۔

یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ 2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اِس ملک و قوم پر حکمرانی کا مینڈیٹ مل گیا۔ اُس کی اِس کامیابی کے پیچھے محترمہ کی ناگہانی ہلاکت کے باعث لوگوں کی ہمدردیوں کے ساتھ ساتھ کچھ پرویز مشرف کی اپنی کوششوں اور خواہشوں کا بھی عمل دخل تھا۔

جس نے محترمہ کے ساتھ دبئی میں ہونے والی ایک خفیہ ڈیل کے تحت پری رگنگ کا ایک منصوبہ تشکیل دیا کہ آئندہ الیکشن میں اگر پیپلز پارٹی اُنہیں اگلے پانچ برس کے لیے اپنا صدر بنانے پر رضامند ہو جائے تو وہ این آر اُو کے ساتھ ساتھ اقتدار بھی اُس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ مگر افسوس کہ محترمہ تو اِس دنیا میں باقی نہ رہیں لیکن زرداری صاحب کی قسمت یقینا بدل گئی۔ وہ اپنے اوپر لگائے گئے سابقہ تمام الزامات سے بری اور پاک صاف ہو کر شومئی قسمت سے کنگ میکر بن گئے۔

حالات کو اپنی مرضی و منشاء کے تحت چلانے کا گر رکھتے ہوئے وہ میاں صاحب اور جناب پرویز مشرف دونوں کے ساتھ گیم کھیل گئے اور ملک کے ایک ایسے عہدے پر براجمان ہو گئے جسے ہر طرح کا قانونی اور آئینی استثناء حاصل تھا۔ اپنی زندگی کے اِس سنہری موقعے کو اُنہوں نے ویسے تو بہت ہشیاری اور سمجھداری سے استعمال کیا لیکن ملک و قوم کے بھلائی اور بہتری کے لیے کوئی کار ہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ کاش وہ اپنی قابلیت اور ذہانت وطنِ عزیز کی ترقی و شادمانی کے لیے بھی استعمال کرتے۔

دوستی اور مفاہمت کی سیاست سے وہ اپنا اقتدار تو بچاتے رہے لیکن قوم اور ملک کو زوال اور انحطاط پذیری کے اندھیروں میں دھکیلتے گئے۔ نہ دہشت گردی کو روک سکے اور نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کر سکے اور نہ روز افزوں مہنگائی کو لگام دے سکے۔ کر اچی میں قتل غارت گری بڑھتی رہی اور وہ مسکرا مسکرا کر در گزر کرتے رہے۔ یہ اُنہی کے دور کا شاخسانہ تھا کہ ہمارے عوام جمہوریت سے بدظن اور بد دل ہوتے گئے۔

اب جا کے کچھ بہتری کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہونے لگی ہے۔ طالبان فیکٹر ضربِ عضب کی کارروائیوں کے باعث مضمحل اور قریب الموت ہے۔


روز روز کے دھماکے اور خود کش حملے اب پہلے کی مانند دکھائی اور سنائی نہیں دیتے۔ کراچی میں بھی نامعلوم دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ اور سخت ہو چکا ہے۔ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب چل پڑا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے فضا ساز گار ہونے لگی ہے۔ ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بڑھنے لگا ہے۔ حالیہ دنوں میں چین کے ساتھ 45 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ اقتصادی راہداری اور بجلی پیدا کرنے کے آٹھ منصوبوں کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے۔

جس سے یقینا عام لوگوں کے لیے روز گار کے ان گنت مواقعے بھی پیدا ہونے لگیں گے۔ ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ لاہور کراچی موٹروے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ساتھ ساتھ مہنگائی کے جن پر بھی قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے اور اشیائے صرف کی قیمتوں کو کسی حد تک بڑھنے سے روکا گیا ہے۔

موجودہ حکومت نے یہ تمام کامیابیاں صرف دو سال کے مختصر عرصے میں حاصل کر لی ہیں۔ جب کہ گزشتہ سال تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے اِس میں کچھ تاخیر ہو گئی ورنہ یہ سب کچھ بہت پہلے ہی ہوجانا تھا۔ ڈی چوک پر دونوں پارٹیوں کی طرف سے پڑاؤ ڈالے جانے کی وجہ سے حالات انتہائی مایوسی اور دگرگوں کا شکار تھے اور جس کی وجہ سے گزشتہ برس چینی صدر کا مجوزہ دورہ بھی ملتوی ہو گیا۔

مگر اب اللہ کے فضل و کرم سے تبدیلی اور خوشحالی کے سفر پر ہمارا وطن ِ عزیز ایک بار پھر سے گامزن ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی ناقص حکمتِ عملی اور خراب کارکردگی کے باعث دیگر سیاسی قوتوں کو جو اچانک مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی تھی نواز حکومت نے اپنی اعلیٰ کارکردگی سے اُس میں دڑاریں ڈالنی شروع کر دی ہے۔ شاید اِسی وجہ سے کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ نون لیگ اپنے پانچ سال پورے نہ کر پائے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر اگلے الیکشن میں اُن کی کامیابی کے امکانات اور بھی معدوم ہوتے جائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کو اِس سے قبل بھی جب کبھی موقعہ ملا اُس نے عوامی بھلائی اور ملکی خوشحالی کے لیے کچھ نہ کچھ کر دکھایا۔ اپنے سابقہ دو نا مکمل دورِ اقتدار میں بھی اُس نے لاہور اسلام آباد موٹر وے بنایا۔ پیلی ٹیکسی متعارف کروائی۔ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایک نیوکلیئر اسٹیٹ کا درجہ دلوایا۔

خود روزگار اسکیم کے تحت نوجوانوں کو قرضے دیکر باعزت روزگار حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اِسی طرح اِس بار بھی دانش اسکول اور لیپ ٹاپ اسکیم کی بنیاد رکھ کر نئے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی۔ اب کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہداری بنا کر اِس علاقے میں ایک انقلابی تبدیلی کی بھی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

کل موٹروے کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے آج اُسکے معترف اور مداح ہو چکے ہیں۔ اِسی طرح آج میٹرو بس، میٹرو ٹرین اور اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں میخیں نکالنے والے کل اُس کی افادیت کی گن گا رہے ہوں گے۔ معاشی مشکلات کے اِس کٹھن دور میں یہ سب کچھ کر دینا کو ئی اتنا آسان اور سہل نہیں ہو تا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے دو سالہ ابتدائی دور میں ترقی و خوشحالی کے ایسے منصوبوں کی شروعات کر دی ہے جن کے فوائد و ثمرات سے ہماری آج ہی کی نہیں آئندہ کی نسلیں بھی مستفید ہو نگی۔ روٹی کپڑا اور مکان جیسے نعروں کی سیاست اور سبز باغ دکھانے کا باب اب بند ہو چکا۔ عملی اور تعمیری سیاست کا دور دورہ ہے۔

یہاں اب وہی کامیاب و کامران ہو گا جو عملاً کچھ کر دکھائے گا۔ تبدیلی اور انقلاب بیان بازی سے نہیں آیا کرتے۔ مسلم لیگ (ن) نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل بھی نہیں کیا تھا اور نہ ایسا کوئی پر کشش اور دلفریب نعرہ لگایا تھا بلکہ ملکی ضروریات کی تحت اقتدار میں آنے کے بعد اِسے اپنی ترجیحات میں شامل کر دیا اور مختصر سے عرصے میں انتھک محنت کر کے پاکستان کی دیرینہ دوست ملک چین کو اِس پر قائل کر کے آج اِسکی بنیاد بھی رکھدی ہے۔
Load Next Story