چراغ حسن حسرت۔۔۔۔ہم تم کو نہیں بھولے
لیکن ان کے اس جوہر کو پرکھنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنھیں ان سے برسوں ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔
انجینئر راشد اشرف نے اپنی کتاب ''چراغ حسن حسرت۔۔۔۔ہم تم کو نہیں بھولے'' میں ان تحریروں کو جمع کیا ہے جن سے حسرت کی زندگی کے مختلف ادوار پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ تحریریں ایسے لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں، جنھوں نے حسرت کو قریب سے دیکھا۔ حسرت کا وقت کشمیر میں گزرا، وہ کلکتہ میں رہے، دلی میں، لاہور میں، کراچی میں رہے۔ فوجی زندگی کے دنوں میں کچھ وقت سنگاپور میں بھی گزرا۔ ہر دور میں ان سے یادیں وابستہ ہیں۔
چراغ حسن حسرت ادیب تھے، شاعر تھے، صحافی تھے اور پایہ کے کالم نگار تھے۔ ان کے اہل قبیلہ نے ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے میں بخل نہیں کیا ہے۔
مولانا حسرت کے فرزند ظہیر الحسن جاوید نے ان کی زندگی کے نجی پہلوؤں کا ذکر کیا ہے یہ تحریر ایک باپ سے اس کے بیٹے کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''حسرت جب شملہ آئے تو ان کی عمر 16 برس تھی۔ ''پیغام'' کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے تو سترہ سال کے تھے، ''نئی دنیا'' کی سیاحت انھوں نے 19 سال کی عمر میں کی۔
بیس سال کی عمر میں ''عصر جدید'' کے مدیر اور ہندوستان کے نامور صحافی بنے پھر اکیس سال کی عمر میں اپنا اخبار ''آفتاب'' نکالا۔ اس اخبار نے علم و ادب کی دنیا میں ایسا نام پایا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار ''الہلال'' کی طرح اسے بھی ایک ادبی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیا گیا۔''
سنگاپور میں جنگ کے دوران میں جو فوجی اخبار ''جوان'' کے عنوان سے نکالا گیا تھا، حسرت اس کے ایڈیٹر ہوئے۔ وہ اس وقت میجر تھے۔ ضمیر جعفری ان کے ساتھ تھے۔ ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں۔ ''تعریف کے معاملے میں مولانا شقاوت کی حد تک سخت تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنا تلوار کی دھار پر چلنا تھا۔ دوستوں کی محبت ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور تسکین تھی۔'' یہ دوست کون تھے، احمد شاہ بخاری پطرس، مجید ملک، مولانا صلاح الدین احمد، صوفی تبسم، تاثیر، عابد، فیض اور تاج۔
مولانا چراغ حسن حسرت سے منٹو کے تعلقات کا اندازہ خود منٹو کی تحریر سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''مولانا عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مردم کش ہیں، سراسر غلط ہو گا لیکن ان کے کردار میں یہ عجیب و غریب چیز ہے کہ وہ جلا کر مارتے ہیں اور مار کر جلاتے ہیں۔ مجھے انھوں نے کئی بار موت کے گھاٹ اتارا ہے اور کئی بار اپنے اعجاز سے زندہ کیا ہے۔''
ایک محفل میں ادب پر گفتگو ہو رہی تھی۔ حسرت کہنے لگے، نوجوان ٹراتے زیادہ ہیں، آتا جاتا کچھ نہیں۔ اس پر منٹو نے بھڑک کر کہا ''مولانا ! آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر ایسا کوئی کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد سے میں فسانہ آزاد کے تمام روزمرہ اور محاورے آپ کے دماغ سے نچوڑ لوں تو پتہ ہے کیا ہو؟ آپ ایک سیدھے سادے ہاتو بن کر رہ جائیں۔''
مولانا بپھر گئے، گرج کر بولے ''برخوردار! اگر یہی کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد سے میں تمہارے اندر سے سمرسٹ ماہم کی سب کہانیوں کے چربے نکال لوں تو پتہ ہے کیا ہو؟ تم سیدھے علی گڑھ جا کر سیکنڈ ایئر میں داخلہ لے لو گے۔''
صوفی تبسم نے حسرت کی دل نشیں تصویر کھینچی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے حسرت کو اگر کسی نے صحیح معنوں میں سمجھا ہے تو وہ صوفی صاحب ہی تھے۔ لکھتے ہیں۔ ''حسرت عجیب مرد قلندر تھے۔ ادب و شعر کی کائنات نظر میں سمائی تھی لیکن اپنی گرد و پیش کی بستی دنیا سے بڑے غافل تھے۔ ان کے دھندوں سے بہت کم سروکار رکھتے تھے۔
جب خانہ آبادی کی فکر ہوئی تو میرے پاس تنہا آئے اور کچھ دیر خاموش رہنے پر بولے، حضرت صوفی بھائی میں شادی کر رہا ہوں۔ میں نے کہا، بڑی خوشی کی بات ہے۔ کہا، ہاں خوشی کی بات تو ہے لیکن شادی کیسے ہو گی۔ میرے پاس تو کچھ نہیں۔ ایک سو روپیہ ہیں۔ میں نے کہا، حسرت صاحب یہ کافی ہے۔ پھر میرے ساتھ وہ بازار گئے اور جب پانچ مکمل عروسی جوڑے کپڑوں کے اور عروسی پلنگ خریدنے کے بعد میں نے کچھ رقم واپس کی تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چائے اور شراب کے سوا انھوں نے کبھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی۔''
صوفی صاحب لکھتے ہیں کہ حسرت خود ساز انسان تھے۔ انھوں نے جو کچھ حاصل کیا تھا اور جس ادبی مقام پر پہنچے تھے وہ ان کی ذاتی کاوش اور محنت کا نتیجہ تھا۔
راشد اشرف نے اپنی اس کتاب میں ایک تحریر پونچھ کے ایک ادیب اور محقق، خوش دیوینی کی شامل کی ہے۔ یہ چراغ حسن حسرت کا سوانحی خاکہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مولانا حسرت کے والد لالہ کشمیر چند کپور تھے اور دادا لالہ فقر چند کپور جو تبت خورد میں سرکاری ملازم تھے۔ لالہ کشمیر چند کپور نے جوانی میں اسلام قبول کر لیا اور اپنا اسلامی نام شیخ بدرالدین رکھ کر اپنے وطن سے ہجرت کر کے تحصیل بارہ مولہ کے گاؤں بمیار آ گئے۔ یہاں ان کی شادی منشی حسن علی کی لڑکی سے ہوئی اور یہیں 1902ء میں حسرت کی پیدائش ہوئی۔
خوش دیوینی کہتے ہیں کہ منشی حسن علی اپنے زمانے کی ایک اہم ادبی شخصیت تھے۔ وہ اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی تھے۔ گھر میں ایک اچھی لائبریری تھی اور ادبی محفلیں بھی ہوتی تھیں۔ حسرت نے اس کا اثر قبول کیا اور بچپن سے ہی شعر و ادب کی طرف ان کا رجحان ہو گیا۔کتاب میں عاشق بٹالوی کا مضمون بہت دلچسپ ہے۔ حسرت سے ان کی وابستگی اور محبت کا ہر ہر جملے سے اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے حسرت کو کیا سمجھا، کیسا دیکھا صاف گوئی سے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ''حسرت کی دوست نوازی، غم گساری، وضع داری کا جواب نہیں تھا۔
لیکن ان کے اس جوہر کو پرکھنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنھیں ان سے برسوں ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ فطری طور پر بے ضرر اور کم آزار شخص تھا۔ وہ دوستوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور دوستوں کے آرام کو اپنا آرام سمجھتے تھے۔ عاشق بٹالوی لکھتے ہیں ''جنگ چھڑی تو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یعنی حسرت فوج میں ملازم ہو گئے۔
میں نے یہ خبر سنی تو سکتے میں آ گیا۔ کہاں حسرت کہاں فوج کی نوکری، یقین نہیں آتا تھا۔ یوں تو بڑے بڑے ادبائے سحر طراز اور شاعران نغزگفتار نے ''جنتا کی جنگ'' کا نعرہ لگا کر بڑے فخر سے فرنگی آقا کی بندوق اٹھا لی تھی۔ حد یہ کہ کالجوں کے پروفیسروں تک نے درس و تدریس کے گاؤن اتار کر فوجی وردی پہن لینے میں عار محسوس نہیں کی تھی۔ لیکن حسرت کا معاملہ سب سے مختلف تھا۔ تاہم جب وہ یونیفارم میں ملبوس پورے فوجی بن کر لاہور تشریف لائے تو ان کو دیکھتے ہی میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگے میں جانتا ہوں تم کیوں ہنستے ہو۔ سنو میاں لاہور کی ہل من مزید زندگی نے مقروض کر دیا ہے اور فوج میں تنخواہ کافی ملتی ہے۔''
حسرت کی سادہ دلی کا ایک واقعہ اختر رائے پوری نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ''ایک بار رات گئے حسرت اور منٹو کے ساتھ میں جامع مسجد (دلی) کی طرف چلا تو سامنے میدان میں کسی گشتی تھیٹریکل کمپنی کا ڈیرا نظر آیا جو ''لیلیٰ مجنوں'' کا تماشا اسٹیج کر رہی تھی۔ حسرت نے کہا، بہت دنوں سے یہ تماشا نہیں دیکھا۔ چلیں دیکھیں کیا واردات گزرتی ہے۔ میں نے جتنا منع کیا وہ اتنے ہی زیادہ مصر ہوئے اور منٹو نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ اگر یہ باور کر لیں کہ فن کی داد نہیں بلکہ دو گھڑی ہنسنے کا موقع مل جائے گا تو مایوسی نہیں ہو گی۔
اور ہوا بھی یہی۔ صحرا میں اونٹ کی نکیل تھامے مجنوں جا رہا تھا کہ محمل سے منہ نکال کر لیلیٰ نے ڈرامائی انداز میں کہا، پیارے مجنوں! مجھے بھوک لگی ہے۔ مجنوں نے جواب دیا، لیلیٰ، یہاں کھانا نہیں مل سکتا۔ لیکن لیلیٰ نے اصرار کیا۔ بھوک بدستور باقی ہے۔ مجنوں بولا دل و جگر حاضر ہیں۔ اب ثابت ہوا کہ عورت دراصل مردم خور ہوتی ہے کیونکہ لیلیٰ نے یہ پیش کش قبول کر لی اور پھر کہا، پیارے مجنوں مجھے پیاس لگی ہے۔ بے چارے مجنوں نے فصد کھول کر اپنا خون نکالا جس کا پیالہ لیلیٰ پی گئی۔ پھر دونوں نے مل کر گایا:
فراق جاناں میں ہم نے ساقی لہو پیا ہے شراب کر کے
پبلک پر رقت کا عالم طاری تھا اور ہم لوگوں کا ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ لوگوں نے ہم پر ایسے آوازے کسے کہ ہم اگر خود نہ اٹھ آتے تو ضرور نکال دیے جاتے۔''
ظہیر جاوید اپنے والد کی یادوں کو سمیٹے ہوئے لکھتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں حسرت نے مجھے ایک قطعہ لکھوایا تھا۔ یہ ان کے آخری اشعار تھے۔ اس قطعے کا ایک شعر ہی مجھے یاد رہ گیا ہے جو یہ ہے:
حیات خضر کہنے کو بڑی شے ہے مگر حسرت
انھیں جینے کا کیا حق ہے جنھیں مرنا نہیں آتا
چراغ حسن حسرت ادیب تھے، شاعر تھے، صحافی تھے اور پایہ کے کالم نگار تھے۔ ان کے اہل قبیلہ نے ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے میں بخل نہیں کیا ہے۔
مولانا حسرت کے فرزند ظہیر الحسن جاوید نے ان کی زندگی کے نجی پہلوؤں کا ذکر کیا ہے یہ تحریر ایک باپ سے اس کے بیٹے کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''حسرت جب شملہ آئے تو ان کی عمر 16 برس تھی۔ ''پیغام'' کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے تو سترہ سال کے تھے، ''نئی دنیا'' کی سیاحت انھوں نے 19 سال کی عمر میں کی۔
بیس سال کی عمر میں ''عصر جدید'' کے مدیر اور ہندوستان کے نامور صحافی بنے پھر اکیس سال کی عمر میں اپنا اخبار ''آفتاب'' نکالا۔ اس اخبار نے علم و ادب کی دنیا میں ایسا نام پایا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار ''الہلال'' کی طرح اسے بھی ایک ادبی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیا گیا۔''
سنگاپور میں جنگ کے دوران میں جو فوجی اخبار ''جوان'' کے عنوان سے نکالا گیا تھا، حسرت اس کے ایڈیٹر ہوئے۔ وہ اس وقت میجر تھے۔ ضمیر جعفری ان کے ساتھ تھے۔ ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں۔ ''تعریف کے معاملے میں مولانا شقاوت کی حد تک سخت تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنا تلوار کی دھار پر چلنا تھا۔ دوستوں کی محبت ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اور تسکین تھی۔'' یہ دوست کون تھے، احمد شاہ بخاری پطرس، مجید ملک، مولانا صلاح الدین احمد، صوفی تبسم، تاثیر، عابد، فیض اور تاج۔
مولانا چراغ حسن حسرت سے منٹو کے تعلقات کا اندازہ خود منٹو کی تحریر سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''مولانا عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مردم کش ہیں، سراسر غلط ہو گا لیکن ان کے کردار میں یہ عجیب و غریب چیز ہے کہ وہ جلا کر مارتے ہیں اور مار کر جلاتے ہیں۔ مجھے انھوں نے کئی بار موت کے گھاٹ اتارا ہے اور کئی بار اپنے اعجاز سے زندہ کیا ہے۔''
ایک محفل میں ادب پر گفتگو ہو رہی تھی۔ حسرت کہنے لگے، نوجوان ٹراتے زیادہ ہیں، آتا جاتا کچھ نہیں۔ اس پر منٹو نے بھڑک کر کہا ''مولانا ! آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر ایسا کوئی کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد سے میں فسانہ آزاد کے تمام روزمرہ اور محاورے آپ کے دماغ سے نچوڑ لوں تو پتہ ہے کیا ہو؟ آپ ایک سیدھے سادے ہاتو بن کر رہ جائیں۔''
مولانا بپھر گئے، گرج کر بولے ''برخوردار! اگر یہی کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد سے میں تمہارے اندر سے سمرسٹ ماہم کی سب کہانیوں کے چربے نکال لوں تو پتہ ہے کیا ہو؟ تم سیدھے علی گڑھ جا کر سیکنڈ ایئر میں داخلہ لے لو گے۔''
صوفی تبسم نے حسرت کی دل نشیں تصویر کھینچی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے حسرت کو اگر کسی نے صحیح معنوں میں سمجھا ہے تو وہ صوفی صاحب ہی تھے۔ لکھتے ہیں۔ ''حسرت عجیب مرد قلندر تھے۔ ادب و شعر کی کائنات نظر میں سمائی تھی لیکن اپنی گرد و پیش کی بستی دنیا سے بڑے غافل تھے۔ ان کے دھندوں سے بہت کم سروکار رکھتے تھے۔
جب خانہ آبادی کی فکر ہوئی تو میرے پاس تنہا آئے اور کچھ دیر خاموش رہنے پر بولے، حضرت صوفی بھائی میں شادی کر رہا ہوں۔ میں نے کہا، بڑی خوشی کی بات ہے۔ کہا، ہاں خوشی کی بات تو ہے لیکن شادی کیسے ہو گی۔ میرے پاس تو کچھ نہیں۔ ایک سو روپیہ ہیں۔ میں نے کہا، حسرت صاحب یہ کافی ہے۔ پھر میرے ساتھ وہ بازار گئے اور جب پانچ مکمل عروسی جوڑے کپڑوں کے اور عروسی پلنگ خریدنے کے بعد میں نے کچھ رقم واپس کی تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چائے اور شراب کے سوا انھوں نے کبھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی۔''
صوفی صاحب لکھتے ہیں کہ حسرت خود ساز انسان تھے۔ انھوں نے جو کچھ حاصل کیا تھا اور جس ادبی مقام پر پہنچے تھے وہ ان کی ذاتی کاوش اور محنت کا نتیجہ تھا۔
راشد اشرف نے اپنی اس کتاب میں ایک تحریر پونچھ کے ایک ادیب اور محقق، خوش دیوینی کی شامل کی ہے۔ یہ چراغ حسن حسرت کا سوانحی خاکہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مولانا حسرت کے والد لالہ کشمیر چند کپور تھے اور دادا لالہ فقر چند کپور جو تبت خورد میں سرکاری ملازم تھے۔ لالہ کشمیر چند کپور نے جوانی میں اسلام قبول کر لیا اور اپنا اسلامی نام شیخ بدرالدین رکھ کر اپنے وطن سے ہجرت کر کے تحصیل بارہ مولہ کے گاؤں بمیار آ گئے۔ یہاں ان کی شادی منشی حسن علی کی لڑکی سے ہوئی اور یہیں 1902ء میں حسرت کی پیدائش ہوئی۔
خوش دیوینی کہتے ہیں کہ منشی حسن علی اپنے زمانے کی ایک اہم ادبی شخصیت تھے۔ وہ اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی تھے۔ گھر میں ایک اچھی لائبریری تھی اور ادبی محفلیں بھی ہوتی تھیں۔ حسرت نے اس کا اثر قبول کیا اور بچپن سے ہی شعر و ادب کی طرف ان کا رجحان ہو گیا۔کتاب میں عاشق بٹالوی کا مضمون بہت دلچسپ ہے۔ حسرت سے ان کی وابستگی اور محبت کا ہر ہر جملے سے اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے حسرت کو کیا سمجھا، کیسا دیکھا صاف گوئی سے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ''حسرت کی دوست نوازی، غم گساری، وضع داری کا جواب نہیں تھا۔
لیکن ان کے اس جوہر کو پرکھنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنھیں ان سے برسوں ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ فطری طور پر بے ضرر اور کم آزار شخص تھا۔ وہ دوستوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور دوستوں کے آرام کو اپنا آرام سمجھتے تھے۔ عاشق بٹالوی لکھتے ہیں ''جنگ چھڑی تو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یعنی حسرت فوج میں ملازم ہو گئے۔
میں نے یہ خبر سنی تو سکتے میں آ گیا۔ کہاں حسرت کہاں فوج کی نوکری، یقین نہیں آتا تھا۔ یوں تو بڑے بڑے ادبائے سحر طراز اور شاعران نغزگفتار نے ''جنتا کی جنگ'' کا نعرہ لگا کر بڑے فخر سے فرنگی آقا کی بندوق اٹھا لی تھی۔ حد یہ کہ کالجوں کے پروفیسروں تک نے درس و تدریس کے گاؤن اتار کر فوجی وردی پہن لینے میں عار محسوس نہیں کی تھی۔ لیکن حسرت کا معاملہ سب سے مختلف تھا۔ تاہم جب وہ یونیفارم میں ملبوس پورے فوجی بن کر لاہور تشریف لائے تو ان کو دیکھتے ہی میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگے میں جانتا ہوں تم کیوں ہنستے ہو۔ سنو میاں لاہور کی ہل من مزید زندگی نے مقروض کر دیا ہے اور فوج میں تنخواہ کافی ملتی ہے۔''
حسرت کی سادہ دلی کا ایک واقعہ اختر رائے پوری نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ''ایک بار رات گئے حسرت اور منٹو کے ساتھ میں جامع مسجد (دلی) کی طرف چلا تو سامنے میدان میں کسی گشتی تھیٹریکل کمپنی کا ڈیرا نظر آیا جو ''لیلیٰ مجنوں'' کا تماشا اسٹیج کر رہی تھی۔ حسرت نے کہا، بہت دنوں سے یہ تماشا نہیں دیکھا۔ چلیں دیکھیں کیا واردات گزرتی ہے۔ میں نے جتنا منع کیا وہ اتنے ہی زیادہ مصر ہوئے اور منٹو نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ اگر یہ باور کر لیں کہ فن کی داد نہیں بلکہ دو گھڑی ہنسنے کا موقع مل جائے گا تو مایوسی نہیں ہو گی۔
اور ہوا بھی یہی۔ صحرا میں اونٹ کی نکیل تھامے مجنوں جا رہا تھا کہ محمل سے منہ نکال کر لیلیٰ نے ڈرامائی انداز میں کہا، پیارے مجنوں! مجھے بھوک لگی ہے۔ مجنوں نے جواب دیا، لیلیٰ، یہاں کھانا نہیں مل سکتا۔ لیکن لیلیٰ نے اصرار کیا۔ بھوک بدستور باقی ہے۔ مجنوں بولا دل و جگر حاضر ہیں۔ اب ثابت ہوا کہ عورت دراصل مردم خور ہوتی ہے کیونکہ لیلیٰ نے یہ پیش کش قبول کر لی اور پھر کہا، پیارے مجنوں مجھے پیاس لگی ہے۔ بے چارے مجنوں نے فصد کھول کر اپنا خون نکالا جس کا پیالہ لیلیٰ پی گئی۔ پھر دونوں نے مل کر گایا:
فراق جاناں میں ہم نے ساقی لہو پیا ہے شراب کر کے
پبلک پر رقت کا عالم طاری تھا اور ہم لوگوں کا ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ لوگوں نے ہم پر ایسے آوازے کسے کہ ہم اگر خود نہ اٹھ آتے تو ضرور نکال دیے جاتے۔''
ظہیر جاوید اپنے والد کی یادوں کو سمیٹے ہوئے لکھتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں حسرت نے مجھے ایک قطعہ لکھوایا تھا۔ یہ ان کے آخری اشعار تھے۔ اس قطعے کا ایک شعر ہی مجھے یاد رہ گیا ہے جو یہ ہے:
حیات خضر کہنے کو بڑی شے ہے مگر حسرت
انھیں جینے کا کیا حق ہے جنھیں مرنا نہیں آتا