اٹلی میں پشاور مارکیٹ دھماکوں اور دیگر کارروائیوں میں ملوث 18 دہشت  گرد گرفتار

دہشت گردوں کے گروہ کا تعلق القاعدہ کی ذیلی تنظیم سے ہے جس کا سرغنہ خان سلطان ولی ہے،اطالوی پولیس


2009 میں پشاور کے مصروف مینا بازار میں دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 زخمی ہو گئے تھے فوٹو:فائل

پشاور کی مارکیٹ میں دھماکوں اور اٹلی میں ویٹیکن سٹی پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے 18 مبینہ دہشت گردوں کو اٹلی سے گرفتار کر لیا گیا جب کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے گرفتاریوں کی تصدیق کردی ہے۔

اطالوی پولیس کے مطابق ساحلی شہر سر دینیا میں گزشتہ 6 سال سے کچھ غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا اسی دوران شدت پسندوں کے گروہ کا انکشاف ہوا جس سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد پورے ملک میں چھاپے مارے گئے اور 18 دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سرکاری وکیل ماورو مورا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار دہشت گرد 2010 میں ویٹیکن سٹی پر حملوں کے منصوبہ بندی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹلی کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے تحقیقات کے دوران دہشت گردوں کی مشتبہ گفتگو کی آڈیو ٹیپ بھی حاصل کی جس کے بعد ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ دہشت گردوں کے گروہ کا تعلق القاعدہ کی ذیلی تنظیم سے ہے جس کا سرغنہ خان سلطان ولی ہے جو اولبیا میں کافی عرصے سے دکان چلا رہا تھا جب کہ دوسرے اہم رکن ایک مسجد کے امام ہیں جو لوگوں کو گروپ میں شامل کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ گروہ مغربی ممالک اورحکومت پاکستان کے خلاف مسلح جددو جہد کے لیے لوگوں کو تیار کرتا تھا اور اسی گروپ نے 2009 میں پشاور کے مصروف مینا بازار میں دھماکے کئے جس میں 100 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 زخمی ہو گئے تھے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ گرفتار دہشت گردوں میں 2 افراد مبینہ طور پراسامہ بن لادن کے سیکورٹی کا بھی حصہ رہے ہیں جب کہ یہ گروہ پاکستان اور افغانستان سے لوگوں کو عارضی ویزوں کی مدد سے یورپ اسمگل بھی کرتا ہے۔

دوسری جانب دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے مطابق اٹلی میں مبینہ 18 دہشت گردوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جس میں پشاور حملوں میں ملوث دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ اطالوی حکام نے پاکستانی دفتر خارجہ کو بھی 18دہشت گردوں کی گرفتاری سے متعلق آگاہ کر دیا ہے جب کہ وزارت خارجہ نے ملزموں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں