اتحاد امت

ہم دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھنے سے قاصر اور مکمل اس کا شکار ہو چکے ہیں،

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ذرا غور فرمائیے کہ آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ حکومت و اقتدار، مال و زر، ٹیکنالوجی و ترقی، تعلیم و تربیت، جمہوریت یا خلافت؟ یقینا مندرجہ بالا بیان کردہ تمام عناصر مسلم امہ کے لیے اپنی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں تاہم ان تمام سے بڑھ کر امت مسلمہ کو آج سب سے زیادہ ضرورت ''اتحاد امت اور امن و استحکام'' کی ہے۔

تحاد پیدا ہوگیا تو امن و استحکام بھی قائم ہو ہی جائے گا جب کہ انتشار و تفریق، فساد و زوال کا حقیقی باعث بنتا ہے،کوئی بھی قوم تفرقے میں پڑ کر کبھی بھی حکومت و اقتدار، مال و دولت ٹیکنالوجی وترقی، تعلیم و تربیت، جمہوریت کی حقیقی نعمتوں سے صحیح معنوں میں قطعی لطف اندوز نہیں ہو سکتی بلکہ عین ممکن ہے کہ ان میں سے بیشتر مقام تک بھی وہ نہ پہنچ سکے۔

پس کچھ ایسی ہی حالت زار اس وقت عالم اسلام کی ہے، مسلمان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی بہت بڑی قوم لیکن باہم دست وگریباں، تفریق و انتشارکے سبب دنیا کی تمام اقوام ہمیں آنکھیں دکھاتی ہیں، ہم پر حاوی ہیں اور ہم عالمی سطح پر اپنی وقعت کھو چکے ہیں بلکہ ذلت و خواری و غلامی ہم پر مسلط ہے اور یہ سب اس نااتفاقی کی بدولت ہے جو مسلم امہ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے حق میں جو دعائیں فرمائیں ان میں ایک قابل غور دعا یہ بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ''میں نے اپنے پروردگار سے عرض کیا کہ میری امت کو ایک قحط عام سے ہلاک نہ کرے اور ان پر دشمن (کافر) کو اتنا قابو نہ دے کہ وہ ان کی جڑ کو مٹا دے (یعنی مسلمانوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے)۔ میرے رب نے مجھ سے فرمایا، اے محمدؐ! میں آپؐ کی امت کو ایک قحط عام سے ہلاک نہ کروں گا اور ان پر کوئی دشمن ایسا مسلط نہ کروں گا جو ان کی جڑ مٹا دے، اگرچہ ان پر ساری زمین کے کفار حملہ کریں، پر یہ ہو گا کہ آپؐ کی امت میں سے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قید کریں گے۔''

آگے آپؐ نے فرمایا ''مجھے اپنی امت کے معاملے میں جس چیز کا خوف ہے، وہ (امت کو) گمراہ کرنے والوں کے حوالے سے ہے۔'' مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے یہ لیڈران اور قائدین مذہبی بھی ہیں اور سیاسی بھی، مذہبی رہنماؤں کی مخصوص اکثریت مسلمانوں میں تفرقے کا بیج بوتے اور فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کو آپس میں لڑاتے ہیں جب کہ اکثر سیاسی رہنما اپنے حقیر اور ذاتی مفادات کی خاطر عوام میں لسانی، نسلی، ذاتی و وطنی و قومی پروپیگنڈہ کرکے عوام کو ورغلاتے اور باہم دست و گریباں کرتے ہیں، اس کے نظارے ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔

مزید آپؐ نے فرمایا ''میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، ان کے مخالف انھیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے گا۔''


اگر ہم واقعۃً ان مصائب وآفات سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھتے ہوئے اس طرز فکر و عمل پر پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ نظرثانی کرنی پڑے گی جو ہم نے عرصۂ دراز سے اختیار کیا ہوا ہے، ہمارا اصل مسئلہ غیروں کی وہ اندھی تقلید ہے جس نے ہمارے نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔

ہم دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھنے سے قاصر اور مکمل اس کا شکار ہو چکے ہیں، افسوس کہ عالم اسلام میں اس حقیقت کا شعور تاحال نہایت سست ہے، ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا،ہمیں اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں پر کوئی ملال اور شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، تمام تر محرومیوں کے کرب سے زیادہ اذیت ناک امر یہ ہے کہ ہم ہوش کے ناخن ہی نہیں لیتے اور بدستور خواب غفلت میں غرق اور نیند مدہوش میں مست ہیں، دین سے بے رخی کا وہی عالم ہے۔

مغربی غلامی نے ہمارے دل و دماغ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے کر جکڑا ہوا ہے، ہماری اور بالخصوص عرب ممالک کی زندگی کا پہیہ بدستور اسی ڈھب پر گھوم رہا ہے اور اللہ اور اسلام کے بجائے ''عرب قومیت'' اور ''مادروطن'' کے نعرے ذوق و شوق سے اکثر کی زبان زدعام ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ باہمی نااتفاقی اور اور انتشار نے ہمیں فرقوں میں منقسم کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے جب کہ ہماری تاریخ کا واضح سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کے زوال کے دو اسباب ہیں ایک قرآن اور اسلامی تعلیمات سے دوری اور دوسرے باہمی اختلاف اور افتراق، دشمنان اسلام نے ہر دور میں مسلمانوں کو باہم لڑانے اور مٹانے کی کوششیں کیں اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر ممکن حربہ آزمایا، کبھی طاقت کے زور پر تو اورکبھی بحث و تکرار کے ذریعے، لیکن ان کا سب سے موثر وار جو کارگر ثابت ہوا وہ یہی تھا کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت سے برگشتہ کرکے انھیں رنگ، نسل، زبان، وطن اور مسلک کی بنیاد پر فرقوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا اور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے سے برسرپیکار کردیا، یہ صورتحال بالکل واضح ہے کہ عالم اسلام کے سربراہان مملکت دشمنان اسلام کی چال بازیوں کا توڑ کرنے میں قطعی ناکام رہے ہیں ۔

اگر امت مسلمہ وسیع تر مفاد کو محسوس کرتے ہوئے عالم اسلام کے اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی ہوتی تو نہ صرف مشرق وسطیٰ کا بحران ظہور پذیر نہ ہوتا بلکہ پورے کرہ ارض کا نقشہ تبدیل ہوتا، آج جو اسلامی ممالک کبھی امریکا، کبھی روس اور کبھی چین کی پناہ لینے پر مجبور ہیں دنیا بھر کے مظلوموں کی پناہ گاہ بنتے اور ہم یوں اپنی جرم ضعیفی کی سزا نہ پا رہے ہوتے، آج اتحاد امت عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت ہے اگر اب بھی خدانخواستہ ہم نے بحیثیت امت اپنے اندر اتحاد و تنظیم کو یقینی نہ بنایا تو نہ صرف ان مظلوم و مقہور مسلمانوں کی آرزوؤں کا خون ہوگا جو غیر مسلموں کے پنجہ استبداد میں گرفتار ہیں بلکہ پوری دنیائے اسلام پر مایوسی کا اندھیرا اور گہرا ہوجائے گا، نیز باہمی اختلاف و تفریق کی خلیج گہری سے گہری ہوتی چلے جائے گی جوکہ دشمنان اسلام کی شدید خواہش اور سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ہم تو اس نبیؐ کے امتی ہیں جنھوں نے براعظموں، خطوں، قوموں، رنگوں، پہاڑوں، دریاؤں، صحراؤں اور میدانوں کے ہزاروں میل کے فاصلے سمیٹ کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ایک امت میں سمو دیا، ان میں سے کوئی بھی ہم شہری، ہم مسلکی، ہم وطنی، ہم قومی، ہم قبیلہ، ہم لسانی اور ہم مذہبی نہیں تھا لیکن یہ تمام محمد رسول اللہؐ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے ایک امت بن گئے، تمام اختلافات بھول کر صرف ایک امت! آج ہمارے درمیان تفرقے کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کو اسلام سے خارج قرار دینے پر تلے بیٹھے ہیں، یہ مہلک طرز عمل پوری امت کے لیے نہ صرف ہلاکت بلکہ رحمۃ اللعالمینؐ کی بھی یقینا دل آزاری کا باعث اور سنت نبویؐ اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔

خدارا ایسے متضاد رویوں سے زخموں سے چور اور چرکوں سے نڈھال امت کو مزید ضربیں نہ لگائیے بلکہ زخموں پر مرہم اور پھاہا رکھنے کا اہتمام کیجیے، نہ صرف اتحاد امت بلکہ امن عالم کی پائیداری کا راز بھی صرف اور صرف تعلیمات محمدی ؐ ہی میں مضمر ہے جس کی بدولت کل انسانیت کا سرفخر سے بلند ہوا اور آدمی جوہر آدمیت اور شرف انسانیت سے حقیقی معنوں میں روشناس ہوا اور اسے ہر قسم کے خوف، حزن و ملال، ابتلا و آزمائش، استحصال اور افتراق سے کلی آزادی حاصل ہوئی۔
Load Next Story