بہار عرب کا عذاب محمد مرسی کی سزا
دسمبر 2010ء میں تیونس سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں آناً فاناً یہ سلسلہ پھیل گیا۔
کسے گمان تھا کہ بہار عرب اس قدر جلد اور اس وسیع پیمانے پر خزاں کے ہاتھوں اجڑ جائے گی۔ اس بہار کے غنچے ابھی تک اپنے ''کھلنے'' کی سزا پا رہے ہیں۔ تازہ ترین سزا مصر کے سابق صدر محمد مرسی نے پائی جو اس بہار عرب کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوئے۔
مصر کی ایک عدالت نے انھیں مظاہرین پرتشدد کا قصور وار پایا اور یوں بارہ دیگر شریک ملزمان کے ساتھ بیس سال کی سزا سنادی۔ مرسی پر ابھی تین مقدمات باقی ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے قومی خفیہ راز قطر کے حوالے کیے۔ جس مقدمے میں انھیں بیس سال کی سزا ہوئی، اس مقدمے میں ان پر ایک الزام قتل بھی تھا جس سے وہ بری کر دیے گئے۔ مصر کی عدالتیں جس ہول سیل انداز میں سزائے موت بانٹ رہی ہیں، ان سے یہ بعید نہ تھا کہ مرسی کو بھی سزائے موت دیدی جاتی۔
دسمبر 2010ء میں تیونس سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں آناً فاناً یہ سلسلہ پھیل گیا۔ سالہا سال سے قائم آمر حکومتیں کانچ کی طرح ٹوٹ کر گرنے لگیں۔
ہمارے کئی ایک اینکرز اور تجزیہ کاروں کو بہار عرب اور پاکستان کے ''بے حس عوام'' پر غصہ تھا کہ بہار عرب کا پہلا پڑاؤ پاکستان ہونا چاہیے تھا، 2015ء میں جی کو جلانے کے لیے یمن سے لے کر حلقہ 246 تک بہتیرے موضوعات ہیں۔ لہٰذا ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔ جب سابق صدر محمد مرسی کی 20 سالہ جیل کی سزا چند اخبارات میں تین کالمی خبر میں پابند ہو کر ردی کی نذر ہو گئی۔ ان میڈیا اینکرز کو ایک بھی پروگرام کرنے کی توفیق نہ ہوئی جنھوں نے اس زمانے میں بہار عرب کے تازیانے برسا برسا کر ہمیں بے حال کر دیا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں یا تو بادشاہتیں قائم ہیں یا آمرانہ حکومتیں۔ ساٹھ کی دہائی کے آمر ہوں یا 70ء کی دہائی میں سامنے آنے والے آمر۔ یمن میں علی عبداللہ صالح، تیونس میں زین العابدین، مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں کرنل قذافی، شام میں محمد اسد اور بعد ازاں بیٹا بشارالاسد، عراق میں صدام حسین، استبداد اور آمریت اپنے ساتھ جو طرز حکومت لاتی ہے۔
اس میں کرپشن، اقربا پروری، سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ، بے انصافی، تباہ حال معیشت، زبوں حال انفراسٹرکچر اور انسانی حقوق کی پامالی لازمی عناصر ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو عرب بہار کا آغاز تیونس کے ایک شہر میں ایک سبزی فروش ٹھیلے والے کی خود سوزی سے دسمبر 2010ء کو ہوا۔
لیکن عملاً بے اطمینانی اور جس کا لاوا کافی سالوں سے اندر ہی اندر پک رہا تھا تیونس میں اس سے چند سال قبل کان کنی کی صنعت میں طویل ہڑتالیں ہوئیں، دھرنے دیے گئے، مصر میں مزدوروں نے بار بار احتجاج کیا۔ الجیریا میں خوراک کی قلت پر بار بار مظاہرے ہوئے۔ لیکن بغاوت کا فوارہ دسمبر 2010ء میں تیونس میں پھوٹا۔ زین العابدین حکومت کو ملک سے فرار ہوتے ہی بنی۔ بعد ازاں مصر، الجیریا، اردن، اومان، لیبیا، یمن حتیٰ کہ چند مظاہرے سعودی عرب میں بھی ہوئے۔ مصر میں حسنی مبارک حکومت تمام تر جاہ و جلال کے باوجود چاروں شانے چت ہو گئی۔
انتخابات ہوئے اور اخوان نے اکثریت حاصل کی۔ محمد مرسی صدر بنے۔ اس کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوا۔ صدر مرسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ کچھ کا اختیارات بلا شرکت غیرے کی خواہش اور کچھ اخوان مخالف طاقتوں کی کارفرمائی۔ جولائی 2013ء میں جنرل السیسی نے مرسی کی حکومت کو چلتا کیا اور یوں دائروں میں سفر کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صدر مرسی اور دیگر ساتھیوں کی بے رحمانہ سزائیں۔
سیاسی تبدیلی کی اس لہر کو بہار عرب کا نام دیا گیا یعنی ARAB SPRING۔ اس سے ملتی جلتی اصطلاح 1848ء میں برپا ہونے ہوالے انقلاب کے لیے استعمال ہوئی۔ یعنی SPRING TIME OF NATIONS۔ گزشتہ صدی میں 60ء کی دہائی میں اس اصطلاح کی گونج PRAGUE SPING کی صورت میں سنائی دی۔ عرب ممالک میں سیاسی تبدیلی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مختلف بلاگرز اور تجزیہ کاروں نے ملتی جلتی اصطلاحیں استعمال کیں۔
لیکن غالباً پہلی بار اس اصطلاح کا استعمال امریکا کے جریدے فارن پالیسی میں MARC LYNCH نے کیا اور پھر چل سو چل۔ الجزیرہ کے ایک تجزیہ کار جوزف مصائد نے البتہ راتوں رات ان تحریکوں پر یہ لیبل چسپاں کرنے کو امریکی چال قرار دیا جس کا مقصد بقول ان کے ان بھلی چنگی عوامی تحریکوں کو امریکا کے من پسند رنگ یعنی LIBERAL DEMOCRACY کے رنگ میں رنگنا تھا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں تیونس اور مصر میں اسلام پسند سیاسی جماعتیں جیت گئیں۔ اسلام پسندوں کی جیت نے مغرب کے پرجوش حلقوں کا ''لبرل جمہوریت'' کے ساتھ نوزائیدہ رومانس تہس نہس کر دیا۔ اس کے بعد یہ عوامی تحریکیں اپنے ساتھ تشدد، تباہی اور بے یقینی لے کر آئیں، پیدا ہونے والا خلاء یا تو نئے آمروں نے پر کر دیا یا نئے متشدد اور مسلح گروہوں نے تبدیلی کی خواہش کی تکہ بوٹی کرنی شروع کر دی۔
مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہری نظر رکھنے اور چار دہائیوں سے تجزیہ نگاری کرنے والے لبنان نژاد صحافی رابرٹ فسک (Robert Fisk) کے خیال میں تین عناصر نے عوامی اکثریت کو بہار عرب کا جوش دلایا۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، ٹریول۔ انٹرنیٹ، میڈیا اور سوشل میڈیا نے خیالات کی ترویج کا ایک نیا جہان پیدا کر لیا۔ سالہا سال سے جبر، استبداد، بے انصافی، اقربا پروری اور معاشی ابتری کی وجہ سے عوامی غیض و غضب اندر ہی اندر پک رہا تھا۔
ان عناصر نے اس لاوے کو باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ لیکن جو بعد میں ہوا، اس نے بہار عرب کو عبرت بنا کر رکھ دیا۔ بقول رابرٹ فسک، قاہرہ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اس المیے کو عوامی سادگی میں بیان کر کے گویا کوزے میں دریا بند کر دیا۔۔۔۔ انقلاب کا تجربہ بہت شاندار تھا، لیکن اس کی کوکھ سے صرف تباہی نے جنم لیا!!!!
مصر کی ایک عدالت نے انھیں مظاہرین پرتشدد کا قصور وار پایا اور یوں بارہ دیگر شریک ملزمان کے ساتھ بیس سال کی سزا سنادی۔ مرسی پر ابھی تین مقدمات باقی ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے قومی خفیہ راز قطر کے حوالے کیے۔ جس مقدمے میں انھیں بیس سال کی سزا ہوئی، اس مقدمے میں ان پر ایک الزام قتل بھی تھا جس سے وہ بری کر دیے گئے۔ مصر کی عدالتیں جس ہول سیل انداز میں سزائے موت بانٹ رہی ہیں، ان سے یہ بعید نہ تھا کہ مرسی کو بھی سزائے موت دیدی جاتی۔
دسمبر 2010ء میں تیونس سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں آناً فاناً یہ سلسلہ پھیل گیا۔ سالہا سال سے قائم آمر حکومتیں کانچ کی طرح ٹوٹ کر گرنے لگیں۔
ہمارے کئی ایک اینکرز اور تجزیہ کاروں کو بہار عرب اور پاکستان کے ''بے حس عوام'' پر غصہ تھا کہ بہار عرب کا پہلا پڑاؤ پاکستان ہونا چاہیے تھا، 2015ء میں جی کو جلانے کے لیے یمن سے لے کر حلقہ 246 تک بہتیرے موضوعات ہیں۔ لہٰذا ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔ جب سابق صدر محمد مرسی کی 20 سالہ جیل کی سزا چند اخبارات میں تین کالمی خبر میں پابند ہو کر ردی کی نذر ہو گئی۔ ان میڈیا اینکرز کو ایک بھی پروگرام کرنے کی توفیق نہ ہوئی جنھوں نے اس زمانے میں بہار عرب کے تازیانے برسا برسا کر ہمیں بے حال کر دیا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں یا تو بادشاہتیں قائم ہیں یا آمرانہ حکومتیں۔ ساٹھ کی دہائی کے آمر ہوں یا 70ء کی دہائی میں سامنے آنے والے آمر۔ یمن میں علی عبداللہ صالح، تیونس میں زین العابدین، مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں کرنل قذافی، شام میں محمد اسد اور بعد ازاں بیٹا بشارالاسد، عراق میں صدام حسین، استبداد اور آمریت اپنے ساتھ جو طرز حکومت لاتی ہے۔
اس میں کرپشن، اقربا پروری، سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ، بے انصافی، تباہ حال معیشت، زبوں حال انفراسٹرکچر اور انسانی حقوق کی پامالی لازمی عناصر ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو عرب بہار کا آغاز تیونس کے ایک شہر میں ایک سبزی فروش ٹھیلے والے کی خود سوزی سے دسمبر 2010ء کو ہوا۔
لیکن عملاً بے اطمینانی اور جس کا لاوا کافی سالوں سے اندر ہی اندر پک رہا تھا تیونس میں اس سے چند سال قبل کان کنی کی صنعت میں طویل ہڑتالیں ہوئیں، دھرنے دیے گئے، مصر میں مزدوروں نے بار بار احتجاج کیا۔ الجیریا میں خوراک کی قلت پر بار بار مظاہرے ہوئے۔ لیکن بغاوت کا فوارہ دسمبر 2010ء میں تیونس میں پھوٹا۔ زین العابدین حکومت کو ملک سے فرار ہوتے ہی بنی۔ بعد ازاں مصر، الجیریا، اردن، اومان، لیبیا، یمن حتیٰ کہ چند مظاہرے سعودی عرب میں بھی ہوئے۔ مصر میں حسنی مبارک حکومت تمام تر جاہ و جلال کے باوجود چاروں شانے چت ہو گئی۔
انتخابات ہوئے اور اخوان نے اکثریت حاصل کی۔ محمد مرسی صدر بنے۔ اس کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوا۔ صدر مرسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ کچھ کا اختیارات بلا شرکت غیرے کی خواہش اور کچھ اخوان مخالف طاقتوں کی کارفرمائی۔ جولائی 2013ء میں جنرل السیسی نے مرسی کی حکومت کو چلتا کیا اور یوں دائروں میں سفر کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صدر مرسی اور دیگر ساتھیوں کی بے رحمانہ سزائیں۔
سیاسی تبدیلی کی اس لہر کو بہار عرب کا نام دیا گیا یعنی ARAB SPRING۔ اس سے ملتی جلتی اصطلاح 1848ء میں برپا ہونے ہوالے انقلاب کے لیے استعمال ہوئی۔ یعنی SPRING TIME OF NATIONS۔ گزشتہ صدی میں 60ء کی دہائی میں اس اصطلاح کی گونج PRAGUE SPING کی صورت میں سنائی دی۔ عرب ممالک میں سیاسی تبدیلی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مختلف بلاگرز اور تجزیہ کاروں نے ملتی جلتی اصطلاحیں استعمال کیں۔
لیکن غالباً پہلی بار اس اصطلاح کا استعمال امریکا کے جریدے فارن پالیسی میں MARC LYNCH نے کیا اور پھر چل سو چل۔ الجزیرہ کے ایک تجزیہ کار جوزف مصائد نے البتہ راتوں رات ان تحریکوں پر یہ لیبل چسپاں کرنے کو امریکی چال قرار دیا جس کا مقصد بقول ان کے ان بھلی چنگی عوامی تحریکوں کو امریکا کے من پسند رنگ یعنی LIBERAL DEMOCRACY کے رنگ میں رنگنا تھا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں تیونس اور مصر میں اسلام پسند سیاسی جماعتیں جیت گئیں۔ اسلام پسندوں کی جیت نے مغرب کے پرجوش حلقوں کا ''لبرل جمہوریت'' کے ساتھ نوزائیدہ رومانس تہس نہس کر دیا۔ اس کے بعد یہ عوامی تحریکیں اپنے ساتھ تشدد، تباہی اور بے یقینی لے کر آئیں، پیدا ہونے والا خلاء یا تو نئے آمروں نے پر کر دیا یا نئے متشدد اور مسلح گروہوں نے تبدیلی کی خواہش کی تکہ بوٹی کرنی شروع کر دی۔
مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہری نظر رکھنے اور چار دہائیوں سے تجزیہ نگاری کرنے والے لبنان نژاد صحافی رابرٹ فسک (Robert Fisk) کے خیال میں تین عناصر نے عوامی اکثریت کو بہار عرب کا جوش دلایا۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، ٹریول۔ انٹرنیٹ، میڈیا اور سوشل میڈیا نے خیالات کی ترویج کا ایک نیا جہان پیدا کر لیا۔ سالہا سال سے جبر، استبداد، بے انصافی، اقربا پروری اور معاشی ابتری کی وجہ سے عوامی غیض و غضب اندر ہی اندر پک رہا تھا۔
ان عناصر نے اس لاوے کو باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ لیکن جو بعد میں ہوا، اس نے بہار عرب کو عبرت بنا کر رکھ دیا۔ بقول رابرٹ فسک، قاہرہ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اس المیے کو عوامی سادگی میں بیان کر کے گویا کوزے میں دریا بند کر دیا۔۔۔۔ انقلاب کا تجربہ بہت شاندار تھا، لیکن اس کی کوکھ سے صرف تباہی نے جنم لیا!!!!