اس کالم کو کیا نام دوں
پاکستان کا امیج غیر ممالک میں بہت داغ دار ہے کہ وہاں نہ بولنے کی آزادی ہے نہ لکھنے کی
LONDON:
ملک اس وقت بہت سی افواہوں کی زد میں ہے۔ الیکشن کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ لوگ پرانے فرسودہ چہروں اورنظام سے اس حد تک اکتائے ہوئے ہیں کہ اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہاں انقلاب کبھی نہیں آئے گا، کیونکہ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو جب وزارتیں مل جاتی ہیں تو وہ اپنی کلاس فوراً بدل لیتے ہیں۔ پھٹی جینز اور شرٹ سے ایک دم تھری پیس سوٹ میں دِکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ جو ہر دم ''بیگمات'' کو نشانہ بناتے تھے، سرکاری گاڑی ملتے ہی اپنی بیوی اور بیٹیوں کو مہنگے شاپنگ مال میں لے جا کر ایک ہزار کی لپ اسٹک اور عمر چھپانے والی کریموں اور لوشن کی بوتلوں سے لاد دیتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر ایسے نام نہاد انقلابیوں سے واقف ہوں جو ''ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے'' کے کھوکھلے نعرے لگاتے لگاتے غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کر کے زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ پاکستان کا امیج غیر ممالک میں بہت داغ دار ہے کہ وہاں نہ بولنے کی آزادی ہے نہ لکھنے کی۔ بات تو کافی حد تک سچ ہے، لیکن اس طرزِ فکر کی بدولت بعض طالع آزماؤں نے انڈیا جا کر سیاسی پناہ حاصل کی، بعض یورپ اور امریکا نکل گئے۔ اب وہ جو تھڑوں پہ سوتے تھے، کینیڈا اور امریکا سے آتے ہیں تو ساتھ ہی ایک ناول لکھ لاتے ہیں جس میں فوجی ڈکٹیٹروں کے دور کی پابندیوں اور سختیوں کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔
جب انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ اس طرح وہ اپنے بھاگنے اور پارٹی کے نام پر مراعات حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ پھر یہاں آتے ہی اپنے ناول کی تقریب اجرا منعقد کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ناموں کو لفافے اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ دے کر مدعو کیا جاتا ہے تا کہ وہ نہ صرف ان کی مدح سرائی کریں بلکہ ان کے نام کو زندہ بھی رکھیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاست اور حکمرانی پر صرف دولت مندوں کا قبضہ ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار ہمیشہ سے اس میدان کے کھلاڑی رہے ہیں۔ دادا، باپ اور بیٹا۔ یکے بعد دیگرے یہی ہمارا مقدر ہیں۔ اس میدان میں کوئی نیا گھڑ سوار داخل نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس عیاری، چالاکی، مکاری کی ضرورت سیاست میں ہوتی ہے اور جس شاطرانہ ذہن کی پذیرائی ہوتی ہے، وہ ایک عام متوسط طبقے کے آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اوّل تو کوئی اناڑی ان شطرنج کے کھلاڑیوں کی چال کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اور اگر اپنی ذہانت اور قومی خدمت کے جذبے سے مجبور ہو کر اور ان چالوں کو سمجھ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھے تو بھی ناکامی ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ زیادہ ضد کی اور ڈٹ گیا تو ماں اور بہن کسی کو بھی اغوا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہی ہماری تاریخ ہے۔
ایسے حبس زدہ ماحول میں جب عمران خان نے سیاست میں آنے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے بلند بانگ دعوے کیے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو ہنسی آئی اور جلد ہی یہ راز آشکار ہو گیا کہ ان کی ''سونامی'' کی لہریں کس کی مرہونِ منت ہیں۔ ابتدا میں کچھ لوگ، خاص کر نوجوان نسل، خاصی خوش فہمی کا شکار ہو گئی۔ لیکن جلد ہی غبارے میں سے ہوا نکل گئی، جب وہی پرانے فرسودہ چہرے جن سے جان چھڑانے کی باتیں خان صاحب بڑے زور شور سے کیا کرتے تھے، انھی کو پارٹی میں نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ انھیں عہدوں سے بھی نوازا گیا۔ عام ورکر بہت پیچھے چلا گیا۔
تبدیلی اور انقلاب کی خوش کن باتیں کرنے والے عمران خان نے بھی عام ورکرز کے ساتھ وہی سلوک کیا جو جاگیردار اپنے ہاریوں کے ساتھ یا نوابین اپنے غلاموں اور مصاحبین کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اور پھر جس دن شیریں مزاری تحریکِ انصاف سے الگ ہوئیں، اس دن پارٹی کی چولیں ہل گئیں۔ ابھی اور بھی لوگ جائیں گے کہ سونامی خان کی گھن گرج اپنی جگہ مگر ان کی ذہنیت وہی جاگیردارانہ اور قبائلی ہے، جس سے چھٹکارے کی وہ نوید دیتے ہیں۔ اور اب تو یوں لگتا ہے جیسے جوں ہی ان کے سرپرست ریٹائر ہوئے، سونامی کی لہریں واپس پلٹ گئیں۔ ویسے بھی عمران خان کا مقصد کچھ اور لگتا ہے، جس طرح ''فرینڈلی اپوزیشن'' نے لٹیروں کی مدد کی۔
اسی طرح اب خان صاحب کا ٹارگٹ صرف (ن) لیگ کی قیادت ہے۔ ان کی سونامی کی لہروں کا رخ مسلسل (ن) لیگ کی طرف رہا ہے۔ افواہ یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف اور پی پی کا اندرونی گٹھ جوڑ اس لیے ہے کہ (ن) لیگ کو وفاق میں اور صوبے میں دونوں جگہ سیٹیں لینے سے روکا جائے۔ اور اس مقصد میں کامیابی کے بعد دیگر معاملات طے کرلیے جائیں۔ بظاہر تو بالکل نظر نہیں آتا کہ تحریکِ انصاف کامیابی حاصل کر پائے گی، لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھی مقتدر قوتیں چاہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو خفیہ طور پر امریکا بھجوانے کے بعد کسی بھی کہانی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ افغان جہاد سے لے کر ریمنڈ ڈیوس تک کہانی ایک ہی ہے، امریکی ڈالر ہر دفعہ اپنی طاقت دِکھا دیتے ہیں۔
کل سے لاہور میں تیسری الحمرا، قومی و ادبی ثقافتی کانفرنس شروع ہو رہی ہے، جس کے روح و رواں عطاء الحق قاسمی صاحب ہیں۔ یہ کانفرنس تین روز تک جاری رہے گی۔ 12، 13 اور 14 اکتوبر تک۔ پہلے دن افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، جنھوں نے لاہور سبزہ و گل سے بھر دیا ہے۔ چوڑی سڑکیں اور خوبصورت اوور ہیڈ برج جس کی خاص پہچان ہیں اور گزرنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ انتظار حسین کلیدی خطبہ پیش کریں گے، دوسری نشست کا موضوع ہے، ''پاکستان میں کہانی کا عروج و زوال'' جس کی صدارت منیراحمد بادینی فرمائیں گے اور مہمان خصوصی ہوں گے پروفیسر فتح محمد ملک۔ پہلے ہی دن رات آٹھ بجے محفل موسیقی منعقد ہو گی، عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کا نام ہی اس تقریب کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
دوسرے دن پہلی نشست کا موضوع سعادت حسن منٹو ہیں۔ صدارت عبداﷲ حسین کی ہے۔ دوسری نشست کا موضوع ہے۔ ''عالمی سطح پر پاکستانی مصوری کا مقام۔'' میاں اعجاز الحسن صدارت فرمائیں گے۔ تیسری نشست کا موضوع ہے۔ ''پاکستان میں موسیقی کا حال و مستقبل''۔ یہ ایک بہت اہم اور سنجیدہ موضوع ہے، یقیناً نئے زاویے سامنے آئیں گے، اہم تجاویز رکھی جائیں گی۔ اس محفل کی صدارت فرمائیں گے، پٹیالہ گھرانہ کے استاد فتح علی خاں۔ چوتھی نشست رات 8 بجے منعقد ہو گی اور یہ ایک محفل مشاعرہ ہو گی جس کی صدارت ظفر اقبال فرمائیں گے، تیسرے اور آخری دن پہلی نشست کا موضوع ہے۔
''بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کیوں؟'' یہ بھی اپنی جگہ بے حد اہم موضوع ہے۔ آتشیں اسلحہ والے کھلونوں کے دور میں بچوں کے ادب پہ بات کرنا مجھے یوں اچھا لگا کہ مسعود احمد برکاتی صاحب سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق میں سال میں ایک یا دو کہانیاں ضرور اس پرچے (ہمدرد نونہال) کو دیتی ہوں، جس سے میں نے لکھنا شروع کیا اور برکاتی صاحب ہی کی بدولت بچوں کی کہانیوں پہ مشتمل کتاب ''جن دادا اور دوسری کہانیاں'' وجود میں آئی۔ اس نشست کی صدارت فرمائیں گے ڈاکٹر خواجہ ذکریا، دوسری نشست کا موضوع ہے، ''ادب و معاشرے پر میڈیا کے اثرات'' اس کی صدارت منو بھائی فرمائیں گے۔
تیسری نشست میں ''پاکستان میں تھیٹر کی صورت حال'' پر بات کی جائے گی۔ اس کی صدارت انور مقصود فرمائیں گے اور آخری دن اختتامی نشست میں کیا ہوگا؟ یہ میں ابھی نہیں بتائوں گی کہ یہ پروگرام بڑا منفرد اور دل فریب ہے۔ یوں کہیے کہ یہ پروگرام ''بیت الغزل'' ہو گا، جس طرح غزل کے سب سے اچھے شعر کو بیت الغزل کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ پروگرام بھی انگوٹھی کا نگینہ ہو گا۔ اس پر کسی دوسرے کالم میں بات کریں گے، کیونکہ بھرپور بات تمام نشستوں میں شرکت کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔
عطاء الحق قاسمی نے بڑی بھرپور بزم سجائی ہے اور بھلا کیوں نہ سجائیں کہ ان کے ساتھ انتظار حسین، عبداﷲ حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر یونس جاوید، اصغر ندیم سید جیسے بڑے بڑے ادیبوں کے ساتھ ساتھ محمد علی بلوچ، ذوالفقار علی زلفی، آفتاب احمد انصاری اور جناب صبح صادق کے نام نامی نمایاں ہیں۔ صبح صادق بڑی سنجیدگی سے اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں اور نہایت خوش اسلوبی سے ہر کام وقت سے پہلے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پانچ دن اس لاہور میں گزریں گے جو مجھے بہت پسند ہے کہ اس کا سبزہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ باعثِ کشش ہے۔
ملک اس وقت بہت سی افواہوں کی زد میں ہے۔ الیکشن کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ لوگ پرانے فرسودہ چہروں اورنظام سے اس حد تک اکتائے ہوئے ہیں کہ اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہاں انقلاب کبھی نہیں آئے گا، کیونکہ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو جب وزارتیں مل جاتی ہیں تو وہ اپنی کلاس فوراً بدل لیتے ہیں۔ پھٹی جینز اور شرٹ سے ایک دم تھری پیس سوٹ میں دِکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ جو ہر دم ''بیگمات'' کو نشانہ بناتے تھے، سرکاری گاڑی ملتے ہی اپنی بیوی اور بیٹیوں کو مہنگے شاپنگ مال میں لے جا کر ایک ہزار کی لپ اسٹک اور عمر چھپانے والی کریموں اور لوشن کی بوتلوں سے لاد دیتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر ایسے نام نہاد انقلابیوں سے واقف ہوں جو ''ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے'' کے کھوکھلے نعرے لگاتے لگاتے غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کر کے زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ پاکستان کا امیج غیر ممالک میں بہت داغ دار ہے کہ وہاں نہ بولنے کی آزادی ہے نہ لکھنے کی۔ بات تو کافی حد تک سچ ہے، لیکن اس طرزِ فکر کی بدولت بعض طالع آزماؤں نے انڈیا جا کر سیاسی پناہ حاصل کی، بعض یورپ اور امریکا نکل گئے۔ اب وہ جو تھڑوں پہ سوتے تھے، کینیڈا اور امریکا سے آتے ہیں تو ساتھ ہی ایک ناول لکھ لاتے ہیں جس میں فوجی ڈکٹیٹروں کے دور کی پابندیوں اور سختیوں کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔
جب انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ اس طرح وہ اپنے بھاگنے اور پارٹی کے نام پر مراعات حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ پھر یہاں آتے ہی اپنے ناول کی تقریب اجرا منعقد کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ناموں کو لفافے اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ دے کر مدعو کیا جاتا ہے تا کہ وہ نہ صرف ان کی مدح سرائی کریں بلکہ ان کے نام کو زندہ بھی رکھیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاست اور حکمرانی پر صرف دولت مندوں کا قبضہ ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار ہمیشہ سے اس میدان کے کھلاڑی رہے ہیں۔ دادا، باپ اور بیٹا۔ یکے بعد دیگرے یہی ہمارا مقدر ہیں۔ اس میدان میں کوئی نیا گھڑ سوار داخل نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس عیاری، چالاکی، مکاری کی ضرورت سیاست میں ہوتی ہے اور جس شاطرانہ ذہن کی پذیرائی ہوتی ہے، وہ ایک عام متوسط طبقے کے آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اوّل تو کوئی اناڑی ان شطرنج کے کھلاڑیوں کی چال کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اور اگر اپنی ذہانت اور قومی خدمت کے جذبے سے مجبور ہو کر اور ان چالوں کو سمجھ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھے تو بھی ناکامی ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ زیادہ ضد کی اور ڈٹ گیا تو ماں اور بہن کسی کو بھی اغوا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہی ہماری تاریخ ہے۔
ایسے حبس زدہ ماحول میں جب عمران خان نے سیاست میں آنے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے بلند بانگ دعوے کیے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو ہنسی آئی اور جلد ہی یہ راز آشکار ہو گیا کہ ان کی ''سونامی'' کی لہریں کس کی مرہونِ منت ہیں۔ ابتدا میں کچھ لوگ، خاص کر نوجوان نسل، خاصی خوش فہمی کا شکار ہو گئی۔ لیکن جلد ہی غبارے میں سے ہوا نکل گئی، جب وہی پرانے فرسودہ چہرے جن سے جان چھڑانے کی باتیں خان صاحب بڑے زور شور سے کیا کرتے تھے، انھی کو پارٹی میں نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ انھیں عہدوں سے بھی نوازا گیا۔ عام ورکر بہت پیچھے چلا گیا۔
تبدیلی اور انقلاب کی خوش کن باتیں کرنے والے عمران خان نے بھی عام ورکرز کے ساتھ وہی سلوک کیا جو جاگیردار اپنے ہاریوں کے ساتھ یا نوابین اپنے غلاموں اور مصاحبین کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اور پھر جس دن شیریں مزاری تحریکِ انصاف سے الگ ہوئیں، اس دن پارٹی کی چولیں ہل گئیں۔ ابھی اور بھی لوگ جائیں گے کہ سونامی خان کی گھن گرج اپنی جگہ مگر ان کی ذہنیت وہی جاگیردارانہ اور قبائلی ہے، جس سے چھٹکارے کی وہ نوید دیتے ہیں۔ اور اب تو یوں لگتا ہے جیسے جوں ہی ان کے سرپرست ریٹائر ہوئے، سونامی کی لہریں واپس پلٹ گئیں۔ ویسے بھی عمران خان کا مقصد کچھ اور لگتا ہے، جس طرح ''فرینڈلی اپوزیشن'' نے لٹیروں کی مدد کی۔
اسی طرح اب خان صاحب کا ٹارگٹ صرف (ن) لیگ کی قیادت ہے۔ ان کی سونامی کی لہروں کا رخ مسلسل (ن) لیگ کی طرف رہا ہے۔ افواہ یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف اور پی پی کا اندرونی گٹھ جوڑ اس لیے ہے کہ (ن) لیگ کو وفاق میں اور صوبے میں دونوں جگہ سیٹیں لینے سے روکا جائے۔ اور اس مقصد میں کامیابی کے بعد دیگر معاملات طے کرلیے جائیں۔ بظاہر تو بالکل نظر نہیں آتا کہ تحریکِ انصاف کامیابی حاصل کر پائے گی، لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھی مقتدر قوتیں چاہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو خفیہ طور پر امریکا بھجوانے کے بعد کسی بھی کہانی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ افغان جہاد سے لے کر ریمنڈ ڈیوس تک کہانی ایک ہی ہے، امریکی ڈالر ہر دفعہ اپنی طاقت دِکھا دیتے ہیں۔
کل سے لاہور میں تیسری الحمرا، قومی و ادبی ثقافتی کانفرنس شروع ہو رہی ہے، جس کے روح و رواں عطاء الحق قاسمی صاحب ہیں۔ یہ کانفرنس تین روز تک جاری رہے گی۔ 12، 13 اور 14 اکتوبر تک۔ پہلے دن افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، جنھوں نے لاہور سبزہ و گل سے بھر دیا ہے۔ چوڑی سڑکیں اور خوبصورت اوور ہیڈ برج جس کی خاص پہچان ہیں اور گزرنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ انتظار حسین کلیدی خطبہ پیش کریں گے، دوسری نشست کا موضوع ہے، ''پاکستان میں کہانی کا عروج و زوال'' جس کی صدارت منیراحمد بادینی فرمائیں گے اور مہمان خصوصی ہوں گے پروفیسر فتح محمد ملک۔ پہلے ہی دن رات آٹھ بجے محفل موسیقی منعقد ہو گی، عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کا نام ہی اس تقریب کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
دوسرے دن پہلی نشست کا موضوع سعادت حسن منٹو ہیں۔ صدارت عبداﷲ حسین کی ہے۔ دوسری نشست کا موضوع ہے۔ ''عالمی سطح پر پاکستانی مصوری کا مقام۔'' میاں اعجاز الحسن صدارت فرمائیں گے۔ تیسری نشست کا موضوع ہے۔ ''پاکستان میں موسیقی کا حال و مستقبل''۔ یہ ایک بہت اہم اور سنجیدہ موضوع ہے، یقیناً نئے زاویے سامنے آئیں گے، اہم تجاویز رکھی جائیں گی۔ اس محفل کی صدارت فرمائیں گے، پٹیالہ گھرانہ کے استاد فتح علی خاں۔ چوتھی نشست رات 8 بجے منعقد ہو گی اور یہ ایک محفل مشاعرہ ہو گی جس کی صدارت ظفر اقبال فرمائیں گے، تیسرے اور آخری دن پہلی نشست کا موضوع ہے۔
''بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کیوں؟'' یہ بھی اپنی جگہ بے حد اہم موضوع ہے۔ آتشیں اسلحہ والے کھلونوں کے دور میں بچوں کے ادب پہ بات کرنا مجھے یوں اچھا لگا کہ مسعود احمد برکاتی صاحب سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق میں سال میں ایک یا دو کہانیاں ضرور اس پرچے (ہمدرد نونہال) کو دیتی ہوں، جس سے میں نے لکھنا شروع کیا اور برکاتی صاحب ہی کی بدولت بچوں کی کہانیوں پہ مشتمل کتاب ''جن دادا اور دوسری کہانیاں'' وجود میں آئی۔ اس نشست کی صدارت فرمائیں گے ڈاکٹر خواجہ ذکریا، دوسری نشست کا موضوع ہے، ''ادب و معاشرے پر میڈیا کے اثرات'' اس کی صدارت منو بھائی فرمائیں گے۔
تیسری نشست میں ''پاکستان میں تھیٹر کی صورت حال'' پر بات کی جائے گی۔ اس کی صدارت انور مقصود فرمائیں گے اور آخری دن اختتامی نشست میں کیا ہوگا؟ یہ میں ابھی نہیں بتائوں گی کہ یہ پروگرام بڑا منفرد اور دل فریب ہے۔ یوں کہیے کہ یہ پروگرام ''بیت الغزل'' ہو گا، جس طرح غزل کے سب سے اچھے شعر کو بیت الغزل کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ پروگرام بھی انگوٹھی کا نگینہ ہو گا۔ اس پر کسی دوسرے کالم میں بات کریں گے، کیونکہ بھرپور بات تمام نشستوں میں شرکت کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔
عطاء الحق قاسمی نے بڑی بھرپور بزم سجائی ہے اور بھلا کیوں نہ سجائیں کہ ان کے ساتھ انتظار حسین، عبداﷲ حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر یونس جاوید، اصغر ندیم سید جیسے بڑے بڑے ادیبوں کے ساتھ ساتھ محمد علی بلوچ، ذوالفقار علی زلفی، آفتاب احمد انصاری اور جناب صبح صادق کے نام نامی نمایاں ہیں۔ صبح صادق بڑی سنجیدگی سے اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں اور نہایت خوش اسلوبی سے ہر کام وقت سے پہلے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پانچ دن اس لاہور میں گزریں گے جو مجھے بہت پسند ہے کہ اس کا سبزہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ باعثِ کشش ہے۔