مسئلہ بلوچستان حل طلب
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچوں کی وفاقی حکومت سے بڑھتی ہوئی دوری اور اجنبیت ختم ہو
SRINAGAR:
بلوچستان کے مسئلے کو براہِ کرم سنجیدگی و متانت کے ساتھ حل کرنے کے لیے ساری قوم و حکمراں ایک پرچم تلے آئیں۔
پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچوں کی وفاقی حکومت سے بڑھتی ہوئی دوری اور اجنبیت ختم ہو، مگر بلوچستان کے موجودہ حالات جاننے کے لیے اس کے ماضی سے آگاہی ضروری ہے، برطانوی تسلط کے دوران حکومتِ برطانیہ نے بلوچستان کو دو حصّوں میں منقسم کیا ہوا تھا۔ شمال میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ ایران کی سرحد تک، ایک علاقے کی پٹی برٹش بلوچستان کہلاتی تھی۔ دوسرا حصّہ بلوچستان کے باقی وسیع و عریض علاقہ بلوچ سرداروں کی ریاستیں تھیں جو اندرونی معاملات میں آزاد تھیں۔
جولائی 1943 میں قائداعظم نے کوئٹہ میں مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے لیے مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ دراصل بلوچستان کا مقدمہ خود قائداعظم کو لڑنا تھا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ دوسرا حصّہ جہاں بلوچ سرداروں کی ریاستیں تھیں اسے دراصل ریاستِ قلات کہا جاتا تھا۔ نواب قلات 1946 میں قائداعظم کے پاس تشریف لائے اور مسلم لیگ میں شمولیت کی حامی بھری، لیاقت علی خان نے بلوچستان کو اسٹیٹ یونین بنادیا تھا اور اس کی ایک حیثیت مرتب و واضح ہوگئی۔
فیروز خان نون نے سلطانِ مسقط سے گوادر پورٹ خرید لیا تھا جو واقعی تاریخی اقدام اور ان کی زبردست کامیابی تھی۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں گوادر میں گرچہ کام ہوا مگر ہماری من حیث القوم لاپروائی سے وہ علاقہ ابھی تک غیر فعال ہے اور اس سے ہم استفادہ نہیں کرپارہے، جس صوبے میں سوئی کے مقام پر گیس دریافت ہوئی جہاں سے سارے ملک میں پھیلی وہیں گیس 32 سال بعد آئی، یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے۔ بگٹی صاحب نے اپنی کئی ایکڑ زمین ملک کو دی ہوئی تھی جس سے پائپ لائن ہو کر گزرتی تھی۔
جس کا 7000 سے 25000 روپے سالانہ فی ایکڑ کرایہ وہ مانگ رہے تھے جو کہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ پرویز مشرف نے بگٹی کو قتل کرکے آمریت ہی میں ایک غلط روایت ڈالی، ہم غلط طریقوں سے، غلط کام کرنے کے عادی جو ہوگئے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے بلوچستان میں قتل و غارت چل رہی ہے مگر ہماری حکومت کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہاں کے لوگوں کو دلاسہ دینے کے لیے کوئٹہ ہی میں ہنگامی بنیاد پر کوئی پڑائو ڈال لیتی، اب وہاں کا سارا نظام گڑبڑ ہے اور اس وقت وہاں 12، 13 گروپس پیدا ہوگئے ہیں جو قتل و غارت کرتے ہیں، ہمارے دشمن وہاں کے معصوم لوگوں کو آزاد بلوچستان کے نعرے سے بہکا رہے ہیں۔ اگر تخریبی کارروائیاں غیر ملکی ایجنسیاں کررہی ہیں تو ہماری ایجنسیاں کیا کررہی ہیں وہاں؟
بلوچستان کا مسئلہ سراسر سیاسی ہے اور اسے محض گفت و شنید ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ حالات کی ذمے داری ہماری سابقہ حکومتوں پر منحصر ہے، ہمیں بلوچوں سے انھی کی زبان میں بات کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں بلوچستان کا دیرپا حل اسی صورت ممکن ہوپائے گا جب سرداروں کو ایک جگہ بلایا جائے گا۔ وہاں کے لوگوں کو مرکزی حکومت میں، اہم عہدے مثلاً صدارت، وزارت عظمیٰ بھی دی جائے اور اہم وزارتیں دی جائیں، وہاں تعلیم کا انفرا اسٹرکچر اور صنعتیں لگانے پر دل کھول کر پیسہ صرف کیا جائے، نیز وہاں کے لوگوں کو دوسرے صوبوں میں بھی ملازمتیں دی جائیں۔
بلوچستان ہمارا آئیڈیل صوبہ ہے، اس کے حالات درست کرنے کے لیے وہاں چھوٹی تجارتوں اور گھریلو صنعتوں کو موثرانداز سے فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کی اصل جڑ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو غربت و پس ماندگی میں پنہاں ہے۔ بلوچستان کی تمام تر خرابیوں، محرومیوں اور پس ماندگی کا ذمے دار خود وہاں کا سرداری نظام ہے، عام بلوچ سے رابطہ بڑھا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
سفارت خارجہ کیا کررہی ہے، وہ بلوچوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ بیرونِ ملک بالخصوص خلیجی ممالک میں موجود ہے، کو اس سلسلے میں قائل نہیں کررہے ہیں، حالانکہ جب کوئی گھر کا آدمی ناراض ہوتا ہے تو اس سے بات چیت کے ذریعے اسے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب وہاں لاپتا افراد MISSING PEOPLE کے بارے میں معلوم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ تو خلائوں میں ہے لیکن سلام ہے چیف جسٹس پر اس معاملے کو انھوں نے ازخود لیا اور کہا کہ فلاں مدت تک یہ ہوجانا چاہیے لیکن فوراً ہی ان کی لاشیں آنی شروع ہوگئیں۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف پرویز کیانی نے ایک قابلِ تحسین کام یہ کیا کہ وہاں پر ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کردیا جو ایک خوش آیند قدم ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے دہشت گردی بلوچستان کا ہی نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں اب تک 5 فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے وہاں کے مسائل کو حل کیا جائے۔ انھیں تعلیم دیں اور معاشی مسائل حل کریں۔ اگر ہم ان لوگوں کو عزت دیں تو بلوچستان کی خاطر ''خان آف قلات'' بھی لندن سے آجائیں گے۔ ہمارے اہل حل و عقد اگر ان سے بات کریں تو مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا، بلوچستان کا کوئی شخص پاکستان کے خلاف نہیں ہے۔ ہم دشمنوں کے ارادے بھانپ کر ان کے عزائم کو ناکام بنادیں۔
بلوچستان کے ساتھ زیادتی پاکستان نے بالکل نہیں کی بلکہ انھی کے سرداروں نے کی ہے، اب سرداروں کو پیسے دینے کے بجائے وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے، ان کی مفلوک الحالی کو دیکھتے ہوئے انھی کو منظم کرنا ہوگا تاکہ پاکستان مخالف تحریکیں دم توڑ دیں۔بلوچستان میں علیحدگی کے آثارآغازِ پاکستان ہی سے موجود تھے جب خان آف قلات نے تمام بلوچ سرداروں کا ایک اجلاس طلب کیا اوراس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کی آزادی کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے تاہم قائداعظمؒ نے خان آف قلات کو پاکستان میں شامل ہونے کے لیے رضامند کر ہی لیا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کی غربت ہے، لہٰذا وہاں کے سرداروں کا عمل دخل محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر صوبے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 37190 مربع کلومیٹر ہے جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد بنتا ہے اور پاکستان کا مجموعی رقبہ 796,095 ہے۔ اس وقت یہ صوبہ نہایت سنگین صورت حال سے دوچار ہے، وہاں جاری بدامنی اور پاکستان مخالف جذبات کے پس پردہ کئی اور وجوہات ہیں' اگر پاکستان کو بڑے المیہ سے بچاناہے تو اس صوبے کی طرف توجہ دینا ہوگی، وہاں معاشی بدحالی ہے جو ختم ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں ایسے لوگ ہیں جن سے قوم پرست گھبراتے ہیں،ان کی خدمات لی جائیں۔
ہماری عدم توجہی اور بے اعتنائی بلوچستان میں وہ حالات پیدا کررہی ہے جو 1971 میں مشرقی پاکستان کے وقت تھے، خدانخواستہ کسی اور تکلیف دہ المیے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا بلوچستان میں موجودبے چینی کے اسباب کا دردمندانہ جائزہ لینے اور شکایتوں کے ازالے کے لیے ہنگامی بنیادوںپر موثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے، تمام اداروں، سماجی تنظیموں اور مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحیتیں اور توجہ صرف اس ایک نکتے پر مرکوز کریں کہ اہل بلوچستان کی دل جوئی کیسے ممکن ہے، وہاں کے مقامی لوگوں کو اسکول، کالج، یونیورسٹیوں کی طرف لائیں، ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں، ان کے دلوں میں پاکستان مخالف سوچوں کو پنپنے نہ دیں، یہی وقت کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو براہِ کرم سنجیدگی و متانت کے ساتھ حل کرنے کے لیے ساری قوم و حکمراں ایک پرچم تلے آئیں۔
پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچوں کی وفاقی حکومت سے بڑھتی ہوئی دوری اور اجنبیت ختم ہو، مگر بلوچستان کے موجودہ حالات جاننے کے لیے اس کے ماضی سے آگاہی ضروری ہے، برطانوی تسلط کے دوران حکومتِ برطانیہ نے بلوچستان کو دو حصّوں میں منقسم کیا ہوا تھا۔ شمال میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ ایران کی سرحد تک، ایک علاقے کی پٹی برٹش بلوچستان کہلاتی تھی۔ دوسرا حصّہ بلوچستان کے باقی وسیع و عریض علاقہ بلوچ سرداروں کی ریاستیں تھیں جو اندرونی معاملات میں آزاد تھیں۔
جولائی 1943 میں قائداعظم نے کوئٹہ میں مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے لیے مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ دراصل بلوچستان کا مقدمہ خود قائداعظم کو لڑنا تھا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ دوسرا حصّہ جہاں بلوچ سرداروں کی ریاستیں تھیں اسے دراصل ریاستِ قلات کہا جاتا تھا۔ نواب قلات 1946 میں قائداعظم کے پاس تشریف لائے اور مسلم لیگ میں شمولیت کی حامی بھری، لیاقت علی خان نے بلوچستان کو اسٹیٹ یونین بنادیا تھا اور اس کی ایک حیثیت مرتب و واضح ہوگئی۔
فیروز خان نون نے سلطانِ مسقط سے گوادر پورٹ خرید لیا تھا جو واقعی تاریخی اقدام اور ان کی زبردست کامیابی تھی۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں گوادر میں گرچہ کام ہوا مگر ہماری من حیث القوم لاپروائی سے وہ علاقہ ابھی تک غیر فعال ہے اور اس سے ہم استفادہ نہیں کرپارہے، جس صوبے میں سوئی کے مقام پر گیس دریافت ہوئی جہاں سے سارے ملک میں پھیلی وہیں گیس 32 سال بعد آئی، یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے۔ بگٹی صاحب نے اپنی کئی ایکڑ زمین ملک کو دی ہوئی تھی جس سے پائپ لائن ہو کر گزرتی تھی۔
جس کا 7000 سے 25000 روپے سالانہ فی ایکڑ کرایہ وہ مانگ رہے تھے جو کہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ پرویز مشرف نے بگٹی کو قتل کرکے آمریت ہی میں ایک غلط روایت ڈالی، ہم غلط طریقوں سے، غلط کام کرنے کے عادی جو ہوگئے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے بلوچستان میں قتل و غارت چل رہی ہے مگر ہماری حکومت کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہاں کے لوگوں کو دلاسہ دینے کے لیے کوئٹہ ہی میں ہنگامی بنیاد پر کوئی پڑائو ڈال لیتی، اب وہاں کا سارا نظام گڑبڑ ہے اور اس وقت وہاں 12، 13 گروپس پیدا ہوگئے ہیں جو قتل و غارت کرتے ہیں، ہمارے دشمن وہاں کے معصوم لوگوں کو آزاد بلوچستان کے نعرے سے بہکا رہے ہیں۔ اگر تخریبی کارروائیاں غیر ملکی ایجنسیاں کررہی ہیں تو ہماری ایجنسیاں کیا کررہی ہیں وہاں؟
بلوچستان کا مسئلہ سراسر سیاسی ہے اور اسے محض گفت و شنید ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ حالات کی ذمے داری ہماری سابقہ حکومتوں پر منحصر ہے، ہمیں بلوچوں سے انھی کی زبان میں بات کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں بلوچستان کا دیرپا حل اسی صورت ممکن ہوپائے گا جب سرداروں کو ایک جگہ بلایا جائے گا۔ وہاں کے لوگوں کو مرکزی حکومت میں، اہم عہدے مثلاً صدارت، وزارت عظمیٰ بھی دی جائے اور اہم وزارتیں دی جائیں، وہاں تعلیم کا انفرا اسٹرکچر اور صنعتیں لگانے پر دل کھول کر پیسہ صرف کیا جائے، نیز وہاں کے لوگوں کو دوسرے صوبوں میں بھی ملازمتیں دی جائیں۔
بلوچستان ہمارا آئیڈیل صوبہ ہے، اس کے حالات درست کرنے کے لیے وہاں چھوٹی تجارتوں اور گھریلو صنعتوں کو موثرانداز سے فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کی اصل جڑ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو غربت و پس ماندگی میں پنہاں ہے۔ بلوچستان کی تمام تر خرابیوں، محرومیوں اور پس ماندگی کا ذمے دار خود وہاں کا سرداری نظام ہے، عام بلوچ سے رابطہ بڑھا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
سفارت خارجہ کیا کررہی ہے، وہ بلوچوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ بیرونِ ملک بالخصوص خلیجی ممالک میں موجود ہے، کو اس سلسلے میں قائل نہیں کررہے ہیں، حالانکہ جب کوئی گھر کا آدمی ناراض ہوتا ہے تو اس سے بات چیت کے ذریعے اسے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب وہاں لاپتا افراد MISSING PEOPLE کے بارے میں معلوم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ تو خلائوں میں ہے لیکن سلام ہے چیف جسٹس پر اس معاملے کو انھوں نے ازخود لیا اور کہا کہ فلاں مدت تک یہ ہوجانا چاہیے لیکن فوراً ہی ان کی لاشیں آنی شروع ہوگئیں۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف پرویز کیانی نے ایک قابلِ تحسین کام یہ کیا کہ وہاں پر ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کردیا جو ایک خوش آیند قدم ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے دہشت گردی بلوچستان کا ہی نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں اب تک 5 فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے وہاں کے مسائل کو حل کیا جائے۔ انھیں تعلیم دیں اور معاشی مسائل حل کریں۔ اگر ہم ان لوگوں کو عزت دیں تو بلوچستان کی خاطر ''خان آف قلات'' بھی لندن سے آجائیں گے۔ ہمارے اہل حل و عقد اگر ان سے بات کریں تو مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا، بلوچستان کا کوئی شخص پاکستان کے خلاف نہیں ہے۔ ہم دشمنوں کے ارادے بھانپ کر ان کے عزائم کو ناکام بنادیں۔
بلوچستان کے ساتھ زیادتی پاکستان نے بالکل نہیں کی بلکہ انھی کے سرداروں نے کی ہے، اب سرداروں کو پیسے دینے کے بجائے وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے، ان کی مفلوک الحالی کو دیکھتے ہوئے انھی کو منظم کرنا ہوگا تاکہ پاکستان مخالف تحریکیں دم توڑ دیں۔بلوچستان میں علیحدگی کے آثارآغازِ پاکستان ہی سے موجود تھے جب خان آف قلات نے تمام بلوچ سرداروں کا ایک اجلاس طلب کیا اوراس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کی آزادی کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے تاہم قائداعظمؒ نے خان آف قلات کو پاکستان میں شامل ہونے کے لیے رضامند کر ہی لیا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کی غربت ہے، لہٰذا وہاں کے سرداروں کا عمل دخل محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر صوبے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 37190 مربع کلومیٹر ہے جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد بنتا ہے اور پاکستان کا مجموعی رقبہ 796,095 ہے۔ اس وقت یہ صوبہ نہایت سنگین صورت حال سے دوچار ہے، وہاں جاری بدامنی اور پاکستان مخالف جذبات کے پس پردہ کئی اور وجوہات ہیں' اگر پاکستان کو بڑے المیہ سے بچاناہے تو اس صوبے کی طرف توجہ دینا ہوگی، وہاں معاشی بدحالی ہے جو ختم ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں ایسے لوگ ہیں جن سے قوم پرست گھبراتے ہیں،ان کی خدمات لی جائیں۔
ہماری عدم توجہی اور بے اعتنائی بلوچستان میں وہ حالات پیدا کررہی ہے جو 1971 میں مشرقی پاکستان کے وقت تھے، خدانخواستہ کسی اور تکلیف دہ المیے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا بلوچستان میں موجودبے چینی کے اسباب کا دردمندانہ جائزہ لینے اور شکایتوں کے ازالے کے لیے ہنگامی بنیادوںپر موثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے، تمام اداروں، سماجی تنظیموں اور مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحیتیں اور توجہ صرف اس ایک نکتے پر مرکوز کریں کہ اہل بلوچستان کی دل جوئی کیسے ممکن ہے، وہاں کے مقامی لوگوں کو اسکول، کالج، یونیورسٹیوں کی طرف لائیں، ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں، ان کے دلوں میں پاکستان مخالف سوچوں کو پنپنے نہ دیں، یہی وقت کی ضرورت ہے۔