کراچی میں امن کی دعا

کبھی وقفے وقفے سے تو کبھی مسلسل کراچی کی سڑکیں بے گناہ انسانی جانوں کے خون سے سرخ کی جاتی رہی ہی


Shabbir Ahmed Arman October 11, 2012
[email protected]

پھر وہی کالا دھواں، انسانی جانوں کا زیاں
آہ و فغاں اور سسکیاں
دم توڑتی انسانیت کی ہچکیاں
خوف کا، دہشت کا، وحشت کا سماں
پھر سے بڑھتی تلخیاں، وہی زباں، وہی بیاں
اے خدائے مہرباں، الحفیظ و الاماں
ساکنان شہر بے اماں، آخرش جائیں کہاں

یہ منظر نامہ ہے منی پاکستان شہر کراچی کا جہاں کسی زمانے میں اس کی سڑکیں پانی سے دھلائی جاتی تھیں مگر گزشتہ تین عشروں سے کبھی وقفے وقفے سے تو کبھی مسلسل اس کی سڑکیں بے گناہ انسانی جانوں کے خون سے سرخ کی جاتی رہی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر گزشتہ چھ مہینوں سے شہرِ قائد لہولہان ہے۔ لیاری میں لوگ زندہ جلائے جا رہے ہیں۔ ''دم دا کی بھروسہ''، کب کس سمت سے چلتی ہوئی نامعلوم کارتوس زندگی کا باب بند کر دے، کب کس وقت موٹر سائیکل پر دو سوار کسی راہ گیر کے برابر آ کے رکے اور اس کی مطلوبہ شناخت پوچھے۔ اِدھر پہچان بتا دی، ادھر گولی چل دی، بس کام تمام۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے، کب کوئی قومی شناختی کارڈ دِکھانے کا تقاضا کرے اور شکار جان کر اغوا کر لے، کوئی ضمانت نہیں، بے رحمانہ، سفّاکانہ تشدد زدہ لاش کی برآمدگی معاشرے کی شناخت بن چکی ہے، اسٹریٹ کرائمز اور بھتہ خوری صنعت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

شریف شہری نفسیاتی دبائو کا شکار ہیں۔ وہ بے یقینی کے عالم میں گھر سے نکلتے ہیں کہ معلوم نہیں زندہ سلامت گھر واپسی ہو گی یا نہیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سنا ہے کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت وقت کی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن حکومت ہے کہاں؟ انسانی جانوں کی ہلاکتوں کو گروہوں اور زبانوں میں بانٹا جا رہا ہے، ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول کر ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ ''انسان مارے جارہے ہیں'' انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کر کے انسانیت کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟ کیا خونریزی کی وارداتیں شہر کراچی کا مقدر ہیں؟

امن کیسے قائم ہو گا، جس شہر کی انتظامیہ غیر جانبدار نہ ہو، جس شہر کی 35 ہزار پولیس اہلکاروں میں سے 27 ہزار پولیس اہلکار چند وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہوں اور باقی 8 ہزار پولیس والے ڈیڑھ کروڑ آبادی کی حفاظت کے نام پر سر عام رشوت کا بیوپار کرتے نظر آتے ہوں۔ شہر کے ہر گلی، کوچے کی راہ داری پر خود حفاظتی گیٹ بنا دیے گئے ہوں اور قانون نافذ کرنے والے بھی حصار میں ہوں، ذرا سوچیں! اس شہر میں کیسے امن قائم ہو گا جو وزیرستان سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہو۔

اہم ملکی اداروں کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی یہ رپورٹ شہریوں کے لیے باعثِ تشویش ہے کہ شہر میں خونریزی کے لیے ایک گروپ کو 3 ہزار M-16 لائٹ ویٹ امریکن گن سپلائی کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ گن اپنی مکمل کٹ کے ساتھ بلیک مارکیٹ میں 27 لاکھ روپے کی بمشکل دستیاب ہوتی ہے مگر کراچی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اچانک اتنے بڑے پیمانے پر اس گن کی فراہمی نے اہم ملکی اداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس گن میں ایک چھوٹا M-320 راکٹ لانچر فٹ کر کے اسے ٹینک یا بکتر بند شکن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب کہ اس رائفل میں استعمال ہونے والا ایک اور بڑا لانچر 40MM اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ وہ کسی عام عمارت کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ گن عراق اور افغانستان میں بھی استعمال کی گئی ہے۔ اس گن میں لگنے والے میگزین پسٹل سے لے کر اسٹین گن تک کے نتائج فراہم کرتے ہیں جب کہ بیک وقت فلیش لائٹ، لیزر لائٹ، پہاڑوں میں جاری مشن اور رات کے اندھیرے میں دیکھنے کی اضافی صلاحیت والی دوربین بھی اس کا حصّہ ہے۔ اﷲ خیر کرے۔

نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ بھی غور طلب ہے کہ دنیا میں روایتی ہتھیاروں کی سالانہ تجارت کا حجم 40 سے 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، ان ہتھیاروں میں سے کئی شام، سوڈان، کانگو اور دیگر کئی ممالک میں تنازعات کو فروغ دینے اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ہتھیار اب تک لا تعداد لوگوں کی جان لے چکے ہیں اور اگر عالمی برادری نے انھیں ظالم حکومتوں، دہشت گردوں اور مجرموں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے سرگرمی نہ دِکھائی تو یہ ہتھیار مزید لاتعداد لوگوں کی جان لینے کا باعث بنیں گے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ یہ حقیقت مضحکہ خیز ہے کہ تیل سے لے کر غذائی اجناس تک ہر شے کی بین الاقوامی تجارت کے لیے عالمی ضابطے اور قوانین موجود ہیں لیکن روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور خرید و فروخت کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی عالمی معاہدے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوام متحدہ کے 192 اراکین میں سے صرف 52 ممالک میں ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق قوانین موجود ہیں جن میں سے بھی صرف نصف ممالک ایسے ہیں جہاں ان قوانین کی پابندی نہ کرنیوالے افراد کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکا دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن اوباما انتظامیہ ہتھیاروں کی تجارت کے لیے بین الاقوامی ضابطے وضع کرنے کی کوششوں کی حمایت کر رہی ہے۔

معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ ملک میں عدم برداشت کے باعث انسانوں کو سر عام مارا جا رہا ہے۔ آج میرے جیسا آدمی بھی یہ سوچتا ہے کہ میں یہاں کیسے زندہ ہوں؟ اگر اس سوچ کو نہ روکا گیا تو پھر انسانوں کے ہاتھوں سر عام انسانوں کے قتل کے واقعات بڑھتے جائینگے۔ جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ نے کہا ہے کہ معاشرے کی عدم برداشت کی گھنائونی تصویر کراچی میں نظر آ رہی ہے جہاں لاشیں اٹھ رہی ہیں لیکن کسی کو فکر ہی نہیں، انسانوں کو تربیت دی جائے کہ غصّے کو پینے والا اور معاف کرنیوالا مومن ہے۔

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ریاض بھٹی کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ذہنی اور نفسیاتی مسائل بہت بڑھ چکے ہیں، ہمارے سیاستدانوں اور اداروں نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ یہ معاشرہ اب چھوٹی موٹی باتوں سے نہیں ٹھیک ہونے والا، یہاں پر بڑی تبدیلی آئے گی تو بات بنے گی۔ معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے ہم سب کو اجتماعی طور پر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر توبہ کرنی چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے۔ کیا ارباب اختیار کراچی کو ماضی کا وہ امن اسے واپس لوٹا سکیں گے جواس کے عروس البلاد ہونے کے حوالے سے یہاں قائم تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں