ایک اور آواز خاموش ہوئی

سبین محمود کی شخصیت ایک پیغام ہے ان کے لئے جو بولنا چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں۔


کاشف نصیر April 25, 2015
آنکھوں میں چمک، چہرے پر امید سے لبریز تازگی، لب پر مسکراہٹ سبین کی شخصیت کا خاصہ تھے۔

آنکھوں میں چمک، چہرے پر اُمید سے لبریز تازگی، لب پر مسکراہٹ، لہجے میں اپنائیت اور دل پھیک انداز بیان، وہ جب بولتی تو سامع سننا چاہتا، وہ جب سنتی تو مقرر بولنا چاہتا۔ خاموش اور بامہر زبانوں کو جرت اظہار اور قوت گویائی کی تقسیم گویا اسکی متعه زندگی تھی اور شاید اسی جرم کی پاداش میں خود اسکی اپنی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔



سبین محمود اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اس نے اپنی مختصر سی زندگی کو بھرپور، متحرک اور بے باک گزارا۔ کنگر گارڈن کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد اس نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک ٹکنالوجی ایکسپرٹ کے طور پر کیا۔ اپنے استاد اور رفیق ظہیر کدوی اور سافٹ وئیر انڈسٹری کی گرو جہان آراء کے ساتھ ملکر پاکستان میں پہلی بار ملٹی میڈیا سی ڈیز متعارف کرائیں جن میں فیض احمد فیض کے کلام پر مبنی سی ڈی آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

سبین میں ایک عجیب سی بے چینی تھی جیسا کوئی بھپرا سمندر اسکے وجود سے باہر نکلنے کے لئے بے تاب ہو۔ یہ بے تابی اسے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ 2007 میں جب پاکستان میں سوشل میڈیا نے سر اٹھایا تو جیسے اسکے ہاتھوں میں جنت کی کوئی کنجی لگ گئی ہو۔ بلاگرز اور آن لائن دانشوروں کو متحرک کرنے اور ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے اس نے لاتعداد کانفرنس، سمٹ اور میلے منعقد کروائے۔



وہ ایک سچی اور کھری لبرل دانشور تھی۔ اسکی ترقی پسند سوچ، مطالعہ، قوت برداشت اور رواداری اسے فیک لبرل سے نمایاں طور پر جدا کرتی تھی۔ آپ اس سے ہر بات پر اختلاف کرسکتے تھے لیکن کسی بھی اختلافی نقطے پر اسکے چہرے کا رنگ نہیں بدلتا تھا۔ وہ نظریاتی رواداری کی قائل تھی اور ڈائیلاگ اسکا ہتھیار تھا جسکا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے درمیان دوستی کا سبب بھی ایک اختلاف ہی تھا۔



اس نے معاشرے میں بلا خوف و خطر گفتگو کی روایت کو زندہ رکھنے، تخلیق کاروں کو ذہنی پانجھ پن سے نکالنے، طلبہ و طالبان میں غیر نصابی کتب کا شوق پیدا کرنے اور عام لوگوں کو کھل کر زندگی جینے کا حوصلہ دینے کے لئے ایک گوشہ عافیت ''ٹی ٹو ایف'' قائم کیا تھا، جہاں گزشتہ آٹھ سالوں سے روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی تقریب ضرور منعقد ہوتی۔ کبھی شعر و ادب کی محفل برپا ہوتی تو کبھی لکھاری مل بیٹھتے، کبھی ساز اور سر کی لو چھیڑی جاتی تو کبھی مصوری کی نمائش اور مقابلے منعقد ہوتے اور کبھی محفل سماع سجتی۔



میری اس سے متعدد ملاقاتیں ہوئی اور اس نے کم و بیش ہر ملاقات میں اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اسے دیکھا جارہا ہے، اسکی حرکات پر نظر رکھی جاتی ہیں اور اسے نشانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اسکا ہر دوست اسکے اندیشوں سے باخبر تھا۔

https://twitter.com/mehsheikh/status/591692800883695616

تین سال پہلے اسکی ویلانٹائن ڈے کمپین کو توہین مذہب کی شکل دیکر اور سال پہلے ٹی ٹو ایف پر خطرناک پارسل ارسال کرکے بھی اسے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئی البتہ وہ جس خوف کے حصار کو توڑنے نکلی تھی اس میں خود الجھ کر بہادری و جوانمردی کا ایک عنوان بن گئی ہے۔ اسکی موت میں ان لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے جو بولنا چاہتے ہیں، لکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں۔

[poll id="383"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں