پانچ کروڑ کا برقع

کیا برقعہ واقعی ایک فیس سیونگ ٹیکنیک تھا یا بس وقت کی ضرورت۔ مانیں نہ مانیں،یہ برقعہ ایان کو پانچ لاکھ ڈالر کا پڑ گیا.


سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایان کو برقعے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اگر آہی گئی تھی تو برقعے کے نیچے سے شاکنگ پنک کپڑے کا نمودار ہونا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟

عزت ماب، شعلہ ماہتاب، ایان علی المعروف سپر ماڈل کے بارے میں یہ کہنا کہ انکے نام سے تو آپ واقف ہونگے، توہین ایان کے زمرے میں آجائے گا اور پھر کچھ ہو نہ ہو ہمارے موبائل کے سگنل ضرور غائب ہوجائیں گے کیوں کہ اس قصہ ہائے تین درویش میں جن لوگوں کا نام آرہا ہے ان میں سے ایک خالد ملک ہیں جو کہ رحمان بابا [جی وہ موبائل فون والے] کے برادر خورد ہیں۔ اس لیے موبائل سگنل کو محفوظ رکھتے ہوئے چلتے ہیں پانچ لاکھ ڈالرز، اور ایان کے اسکرٹ سے پنک کپڑوں تک کے سفر پر جس میں کہیں کہیں شریعت کی آمیزش بھی برقع کے صورت نظر آتی ہے۔

اس میڈیائی قیامت کے بارے میں میڈیا پر جو گفتگو چل رہی ہے۔ اس کے مطابق خالد ملک نے یہ پانچ کروڑ ڈالر ایان ملک سوری ایان علی کے ہاتھ، عزیر بلوچ کیس کے سلسلے میں دبئی بھجوائے تھے، ملزمہ [میرے منہ میں خاک] نے اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ یہ پانچ لاکھ ڈالر، یعنی پانچ کروڑ پاکستانی روپے [ہائے کتنے زیرو ہوتے ہیں کروڑ میں؟] دبئی میں پیپلز پارٹی کے ''صولت مرزا'' یعنی عزیر بلوچ کے وکیل کو دینے تھے۔

لیکن یہ صرف امکان ہے کیوں کہ ابھی یہ بات ثابت ہونا باقی ہے کہ اس قلو پطرہ کو پھنسانے میں کون کون کس کس حد تک ملوث ہے۔ ویسے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں عورت کو پراڈکٹ بنا کر بیچنے سے لے کر ان کی اسمگلنگ جیسے کام بھی بخوبی ہوتے ہیں یہ تو پھر ایک ''امانت دار'' ماڈل تھی جو ''معمولی اجرت'' پر بس اپنا ''کام'' کر رہی تھی کہ کسی کسٹم والے نے اپنا ''کام'' دکھاکر اسے جیل کا رستہ دکھا دیا۔



لیکن اصل کام تو اڈیالہ جیل پہنچنے کے بعد شروع ہوا جب وہاں پہنچتے ہی اڈیالہ جیل نے فائیو اسٹار کا روپ دھار گیا۔ ایان نے کیا کھایا، کیا پہنا، کچھ پہنا یا نہیں پہنا، جیسی خبریں میڈیا پر تواتر کے ساتھ چلنے لگیں گویا ایان علی کے ساتھ اگر کوئی بد سلوکی ہوگئی تو ہماری ملکی سلامتی داو پر لگ جائے گی۔ ویسے کئی پولیس والوں کی ''جنسی سلامتی'' بھی داو پر لگ گئی تھی اسی لیے تو پیسے دے دے کر ایان کے ساتھ اپنی ڈیوٹی لگوا رہے تھے کے چلو شادی کا کھانا نہ سہی، تمبو کے ساتھ لگ کر خوشبو سے ہی لطف اندوز ہوجائیں اور ماشااللہ ہماری وکلا برداری کے بھی کیا کہنے جنھوں نے ایان علی کی مختلف پیشیوں کے دوران کالے کوٹ اتار کر کیمرے ہاتھ میں پکڑ لیے اور ہماری بیچاری، برقعہ پوش پلس پردہ دار، ایان علی نے پردے کی حرمت کا پاس رکھتے ہوئے انھیں یہ مشورہ دیا کہ ''اگر اتنا شوق ہے تو میری تصویریں انٹرنیٹ سے ڈاون لوڈ کرلو''۔



ویسے تو جیل کی دیواریں پھلانگ کر ایسی خبریں بھی باہر نکلی تھیں کہ ایان نے 14 روزہ قید کے دوران نماز کی پابندی اور قران کا مطالعہ بھی شروع کردیا تھا، ہاں جب اسٹیج ایکٹرس الحاج محترمہ نرگس صاحبہ مشرف بہ حج ہو سکتی ہیں تو کاکی ایان کیوں نہیں راہ حق اختیار کر سکتی؟ اسی لیے تو مختصر کپڑوں کے بعد برقعہ اور برقعے سے شاکنگ پنک کلر کے کپڑے میں ان کا ''جذبہ حق'' چھلکا پڑرہا تھا۔

ویسے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سپر ماڈل ایان ولی اوہ سوری ایان علی جو کیمرہ کوئین مانی جاتی ہیں ان کو برقعے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور آ ہی گئی تھی تو برقعے کے نیچے سے شاکنگ پنک کپڑے کا نمودار ہونا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ کیا برقعہ واقعی ایک فیس سیونگ ٹیکنیک تھا یا بس وقت کی ضرورت۔ مانیں نہ مانیں، یہ برقعہ ایان کو پانچ لاکھ ڈالر کا پڑ گیا، بھئی ظاہر ہے راہ حق میں آزمائش تو آتی ہے۔ خیر اب دیکھئے یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے ویسے تو وہاں کے قیدیوں اور پولیس والوں کی دلی خواہش ہوگی کہ ایان کم ازکم عمر قید ہوجائے تاکہ وہ اڈیالہ جیل کی سونی راتیں بھی رنگین ہوجائیں [بیوروکریسی کے لیے]، رہے قیدی اور کانسٹیبل وہ بےچارے تو غریب کے عجیب سپنے کے مصداق افسوس اور حسرت سے ہاتھ ملنے پر بھی خوش رہیں گے۔ کیا فرماتے ہیں آپ لوگ بیچ اس مسئلے کے۔



نوٹ: ایان علی بُرا مت لگانا، آئی ایم سوری، اوپر کی گئی باتیں بس میری روزی روٹی کا سبب ہیں میرے دل میں تمھارے لیے کچھ بھی غلط نہیں، کیونکہ میں دماغ سے سوچتا ہوں ورنہ اپنا تبادلہ اڈیالہ جیل کروالیتا۔

[poll id="384"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں