یمن… دنیائے عرب کی طلسماتی سرزمین

خوشبویات،یمنی چادروں اور کافی کے منفرد دیس کی ہزارہا سال پرانی تاریخ ،تہذیب ومعاشرت کا دلچسپ وسبق آموز احوال


مملکت کا نام عربی لفظ ’’یمین‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’دائیں ہاتھ پر۔‘‘ فوٹو : فائل

جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے پر تاریخی ملک، یمن واقع ہے۔ مملکت کا نام عربی لفظ ''یمین'' سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ''دائیں ہاتھ پر۔'' مورخین کے مطابق عربوں نے جزیرہ نما کے جنوبی علاقوں کو یمن اس لیے کہا کہ وہ مکہ مکرمہ کے دائیں ہاتھ پر واقع ہیں۔

یمن میں اولیں انسان کب پہنچے، یہ بات پردہ اخفا میں ہے۔ تاہم آثار قدیمہ عیاں کرتے ہیں کہ دس ہزار سال پہلے یمن میں انسانی بستیاں بس چکی تھیں۔یمن کے قدیم باشندے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہوں نے ہی جزیرہ نما عرب میں سب سے پہلے گاؤں بسائے اور وہاں مستقل طور پر رہنے لگے۔ بقیہ عرب علاقوں میں خانہ بدوش یا بدو آباد تھے جو جہاں پانی اور سبزہ دیکھتے، پڑاؤ ڈال دیتے۔ خیال ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے صحرائے عرب میں مکہ مکرمہ کی صورت پہلی مستقل انسانی بستی کی بنیاد رکھی۔

طویل عرصہ یمن میں کوئی مستقل حکومت نہ تھی، ہر بستی کا سردار خود مختار حیثیت رکھتا تھا۔ آخر تین ہزار سال پہلے موجودہ یمنی دارالحکومت، صنعاء کے علاقے میں ایک گروہ نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ تاریخ میں یہ گروہ ''قوم سبا'' کہلایا۔جلد ہی موجودہ یمن میں مزید تین ریاستیں... مملکت حضر موت ،مملکت اوسان اور مملکت قتبان وجود میں آئیں۔ لیکن ان چاروں ریاستوں میں مملکت سبا ہی سب سے اہم اور طاقتور تھی۔ اسی ریاست میں مشہور ''مارب ڈیم'' تعمیر ہوا جو پہاڑوں سے آنے والے سیلابی پانی کو روکتا تھا۔

ان ریاستوں نے دو خوشبویات... مر اور لبان کی وجہ سے عالمی شہرت پالی۔ یہ دونوں خوشبویات مقامی یمنی درختوں کی رال ہیں۔ اب تو انہیں اہمیت حاصل نہیں رہی، لیکن تین چارہزار سال پہلے مر اور لبان سونے سے بھی زیادہ قیمتی تھیں۔دراصل انھیں جلانے سے خوشبودار دھواں نکلتا ہے۔

لہٰذا مصر، یونان، ہندوستان، ایران اور روم کی عظیم قدیم سلطنتوں میں انہیں موت، پیدائش، شادی اور دیگر مذہبی رواج سے وابستہ رسومات میں جلایا جانے لگا۔ بطرا، ایتھنز، روم، اسکندریہ،ٹیکسلا،متھرا، یروشلم، دمشق اور بابل کے بڑے معبدوں اور عبادت گاہوں میں مر اور لبان کی موجودگی لازم تھی۔

دو ہزار سال قبل مر سونے سے'' 36 گنا ''جبکہ لبان'' 12 گنا'' زیادہ مہنگی تھی۔ یہ دونوں خوشبویات یمن اور عمان کی خاص پیداوار تھیں۔ اسی لیے ان قدرتی تحفوں نے دونوں ممالک کو عالمی تجارت میں بہت اہم بنا دیا۔ یمن اور عمان سے اونٹوں کے قافلے مر اور لبان لیے بندرگاہوں تک پہنچتے۔ وہاں سے پھر یہ خوشبویات یونان سے لے کر ہندوستان تک روانہ کی جاتیں۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ قوم سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمانؑ کو مر و لبان بطور قیمتی تحائف بھجوائے تھے۔ اسی طرح بائیبل میں درج ہے کہ تین دانا (Magi) مشرق سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دیدار کرنے آئے، تو بلند مرتبہ نبی کے لیے مر، لبان اور سونے کا تحفہ لائے۔قدیم مصریوں نے مر و لبان کو ''دیوتاؤں کی خوشبو'' کہہ کر پکارا ۔ پہلی صدی عیسوی میں رومی مورخ، پلنی نے لکھا ''مر و لبان کی تجارت کنٹرول کرنے کے باعث یمن و عمان کے باشندے کرہ ارض پر امیر ترین ہوچکے ہیں۔'' گویا یہ دونوں ملک اس زمانے کی ''سپرپاور'' تھیں۔ یمن میں مر آج بھی بیش قیمت شے کی حیثیت رکھتی ہے، تاہم لبان عام دستیاب ہے۔

دو ہزار سال پہلے (110 قبل مسیح میں) ایک یمنی گروہ، حمیر نے یمن میں اپنی ریاست قائم کرلی۔ انہوں نے رفتہ رفتہ سبا، قتبان اور حضر موت کی ریاستوں پر قبضہ کیا اور ایک طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی۔حمیریوں کے ایک بادشاہ، تبا اول اسدالکامل حمیری (دور حکومت 390ء تا 420ء) سے متعلق مورخین عرب مثلاً ابن عساکر کی کتب میں ایک دلچسپ روایت ملتی ہے۔ ان مؤرخین کے مطابق تبا اول یہودیت اختیار کرنے والا پہلا بادشاہ تھا۔

مورخین عرب نے لکھا ہے کہ ایک بار وہ لاؤلشکر سمیت عرب کی سیاحت کرنے نکلا۔ گھومتا گھومتا مکہ مکرمہ پہنچا جہاں تب بنی جرہم کی حکومت تھی۔ اہل مکہ میں سے بہت کم لوگ تبا اول کا استقبال کرنے آئے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ اپنے وزیر سے کہنے لگا ''ہم جہاں بھی گئے، لوگ ہمارا کروفر دیکھنے آئے اور مرعوب ہوئے۔ لیکن اس بستی کے لوگوں کو تو ہماری پروا ہی نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

وزیر نے بتایا ''اے بادشاہ، اس بستی میں اللہ کا گھر واقع ہے۔ دور دور سے لوگ اس بیت اللہ میں آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک اللہ کا گھر بادشاہوں سے زیادہ اہم ہے۔''

یہ سن کر تبا اول غصّے میں آگیا۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ (نعوذ باللہ) بیت اللہ کو شہید کردے گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہناتا، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پُراسرار بیماری میں مبتلا ہوگیا۔طبیب اس کا علاج نہیں کرسکے اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر ایک دانش مند مشیر کے مشورے پر تبا اول حمیری نے خانہ کعبہ تباہ کرنے کا مذموم ارادہ ترک کردیا۔ جلد ہی اسے بیماری سے نجات مل گئی۔

یمن کے بادشاہ نے پھر ازراہِ تشکر ریشم سے بنی ایک قیمتی یمنی چادر خانہ کعبہ پر چڑھائی، نیز اہل مکہ کو سونے سے بنے تحائف دیئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خانہ کعبہ پر چادر چڑھائی گئی۔ اسے اب ''غلاف ''یا ''کسوہ'' کہا جاتا ہے۔ مورخین اسلام نے بیان کیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے بھی یمن کی بنی ایک سفید چادر خانہ کعبہ پر دست مبارک سے چڑھائی تھی۔

حمیریوں کا آخری بادشاہ ذونواس تھا۔ جب 517ء میں اس نے سیکڑوں عیسائیوں کو قتل کرایا، تو ایتھوپیا کے عیسائی بادشاہ نے یمن پر حملہ کردیا۔ حملے میں ذونواس مارا گیا۔ بعدازاں آکسوم سلطنت (ایتھوپیا) کے گورنر یمن پر حکومت کرنے لگے۔ ان میں سب سے مشہور ''ابرہہ'' گزرا ہے جو (نعوذ بااللہ) خانہ کعبہ کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔

570ء میں ایران کے ساسانی بادشاہوں نے یمن پر قبضہ کرلیا۔ اب یمن پر ساسانیوں کے مقرر کردہ گورنر حکومت کرنے لگے۔ ان میں سے ایک گورنر، بازان کے متعلق تاریخ اسلام میں دلچسپ روایت ملتی ہے۔628ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہؓ بن حذیفہ کے ہاتھ ایک خط مبارک ساسانی بادشاہ، خسرو دوم کو بھجوایا۔ اس میں خسرو دوم کو اسلام لانے کی دعوت دی گئی تھی۔

خط پڑھ کر خسرو دوم بھنا اٹھا۔ تب ایران سپرپاور تھا اور طاقت نے خسرو دوم کو متکبر و مغرور بنا رکھا تھا۔ اس نے گورنر یمن، باذان کو سندیسہ بھجوایا :''فوراً کچھ لوگ مدینہ منورہ بھجواؤ تاکہ وہ (نعوذ باللہ) حضور اکرمﷺؐ کو گرفتار کرکے میری خدمت میں پیش کریں۔''

جب باذان کے لشکری مدینہ منورہ پہنچے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ''اے نادانو! تم میری فکر چھوڑ کر اپنے گھر کی خبر لو۔ خسرو کو اس کے بیٹے (قباد دوم) نے ہلاک کر ڈالا ہے۔''

یمنی لشکری حیرت و تعجب کے مارے وطن واپس پہنچے اور باذان کو سارا ماجرا سنایا۔ کتب تاریخ میں درج ہے کہ بعدازاں خسرو دوم کے قتل کی خبر درست ثابت ہوئی تو باذان مسلمان ہوگیا۔ اس کے ساتھیوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ یوں یمن کے مقام، صنعاء میں ایمان کی روشنی نمودار ہوگئی۔تاہم یمن میں باقاعدہ طور پر تبلیغ اسلام کرنا ضروری تھا تاکہ سبھی یمنی قبائل نور ایمان سے سرفراز ہوجائیں۔ اسی لیے 10 ہجری (630ء) میں نبی کریمؐ نے حضرت علیؓ کو یمن بھجوایا تاکہ آپ وہاں اشاعت اسلام فرماسکیں۔ حضرت علیؓ ایک سال تک یمن میں مقیم رہے۔ آپ کی کوششوں سے پورا یمن اسلام کی روشنی سے منور ہوگیا۔

خلفائے راشدین کے دور میں والی یا گورنر یمن پر حکمرانی کرتے رہے۔ تاہم ان کی حکومت صنعاء اور مضافاتی علاقوں تک محدود تھی۔ بیشتر علاقوں میں قبائلی سردار نیم خود مختار تھے۔ ان قبائل کی نیم خود مختاری آج بھی چلی آرہی ہے۔897ء میں شیعہ فرقے، زیدیہ کے ایک امام ،یحییٰ ہادی الی الحق نے شمالی شمن کے بالائی علاقوں میں حکومت قائم کرلی۔ آنے والی صدیوں میں ان کی اولاد بالائی شمالی یمن پر برسراقتدار رہی۔

اسماعیلی، سنی اور زیدی شیعوں کی حکومتوں کے زمانے میں موجودہ سعودی عرب کے علاقے اثیر، نجران، جیزان اور تہامہ جبکہ عمان کا علاقہ ظفار بھی یمن میں شامل رہا۔ عرب و عمانی علاقے رکھنے والے یمن کو تاریخ میں ''یمن الکبریٰ'' کہا گیا۔1500ء کے بعد یمن میں ترک عثمانی آپہنچے، لیکن وہ کبھی سبھی یمنی قبائل کو مطیع نہیں کرسکے۔ 1839ء میں نئی سپرپاور، برطانیہ نے عدن اور جنوبی یمن کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانی ترکوں کو شکست ہوئی، تو جنوبی یمن کا علاقہ انگریزوں کے زیر انتداب آگیا ۔جبکہ شمالی یمن میں زیدی امام یحییٰ محمد نے اپنی متوکلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔

امام یحییٰ محمد ''یمن الکبریٰ'' پہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے ملحقہ عرب علاقوں پر حملہ کردیا۔ تاہم جنوبی یمن میں انگریزوں اور عرب علاقوں میں آل سعود کی افواج نے اسے شکست دی۔ یوں اسے شمالی یمن کی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۔ اسی حملے کے ذریعے ہی یمنی زیدیوں اور سعودی عرب کے مابین دشمنی کا آغاز ہوا جو اب تک چلی آرہی ہے۔

1962ء میں فوج نے شمالی یمن پر قبضہ کرلیا۔ اُدھر جنوبی یمن میں انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوگئی، چناں چہ وہ 1967ء میں رخصت ہوئے۔یوں آزاد جنوبی یمن کا قیام عمل میں آیا۔ 1990ء میں دونوں ممالک کے ادغام سے جمہوریہ یمن کی نیو پڑی۔جزیرہ نما عرب نما میں یمن پہلا ملک ہے، جہاں 1993ء میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان میں مختلف سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا ۔تاہم یہ جمہوری مملکت متفرق وجوہ کی بنا پر وقفے وقفے سے خانہ جنگی کا شکار ہوتی رہتی ہے۔

احادیثِ نبوی ﷺ اور یمنی
کتب احادیث میں یمن سے متعلق حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ حضرت عقبہؓ بن عامر سے روایت کردہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''یمن کے لوگ صحیح ایمان رکھتے اور اسے جلد اپناتے ہیں۔ لیکن صحرائی بدو ضدی اور بے رحم ہوتے ہیں۔ (البخاری، کتاب پیدائش، حدیث نمبر 3079)۔اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: ''صحرائی بدو مغرور اور متکبر ہوتے ہیں۔ جبکہ یمنی باشندے سکون و دانش مندی کی دولت رکھتے ہیں۔'' (البخاری، کتاب فضائل رسولؐ و صحابہ، حدیث نمبر3261)
حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت کردہ ایک اور حدیث میں یمنیوں کو شریف اور نرم دل کہا گیا ہے۔ (البخاری، کتاب مغاذی، حدیث نمبر4070)۔عرب مورخین لکھتے ہیں کہ یمنی پہلے انسان ہیں جنہوں نے ملاقات کے وقت ہاتھ ملانے کی رسم کا آغاز کیا۔ یہ روایت بھی یمنیوں کی خوش طبعی، دوستی اور خوش اخلاقی اجاگر کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں