پاکستان میں زلزلوں کے منڈلاتے خطرات
پاکستان میں کئی سرگرم ارضیاتی فالٹس ہیں جہاں زلزلے بن رہے ہیں جس کےباعث کوئٹہ اورمکان میں زلزلوں کا امکان ہے،جی ایس پی
نیپال اور بھارت میں زلزلے سے اب تک ایک ہزار سے زائد کے لگ بھگ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 2 ماہ قبل ہی ان زلزلوں کی پیش گوئی کی گئی تھی جو کسی ارضیاتی رخنے (جیالوجیکل فالٹ) میں دباؤ اور سرگرمی کی وجہ سے کی جاتی ہے تاہم پاکستان میں زلزلے کی پیش گوئی کرنے والے محکمہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں بھی کئی مقامات پر زلزلے کا خدشہ ہے۔
محکمہ موسمیات اور جیالوجیکل سروے آف پاکستان ( جی ایس پی) کے مطابق پاکستان میں کئی سرگرم ارضیاتی فالٹس ہیں جہاں زلزلے بن رہے ہیں اور ان میں سے دونوں بلوچستان کے علاقے مکران اور کوئٹہ شہر ہیں جہاں زلزلوں کا امکان ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ارضیات کے ماہر دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں 1935 میں زلزلہ آیا تھا جس کےباعث اب وہاں زلزلے کے خدشات موجود ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زمین ابلے ہوئے انڈے کی طرح کئی مقامات سے چٹخی ہوئی ہے ان چٹخی دراڑوں کو فالٹس جب کہ زمین کی بڑے ٹکڑوں کو پلیٹ کہتے ہیں۔ ماہر ارضیات کے مطابق زمین پر اس وقت 9 بڑی اور 12 چھوٹی پلیٹیں ہیں جو مسلسل حرکت کررہی ہیں اور ان ہی پلیٹوں اور فالٹس میں حرکت کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔
پاکستان کے علاقے مکران میں نومبر 1945 میں ہولناک سونامی آیا جس سے کئی میٹر اونچی لہریں پیدا ہوئی تھیں جو ساحل پر موجود مچھیروں کی بستی بہالے گئی تھیں اور اس کے نتیجے میں 4 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ سونامی کی وجہ سمندری تہہ میں زلزلے کا مرکز تھا جہاں 3 جیالوجیکل پلیٹیں مل رہی ہیں اور آج بھی ان میں سرگرمی جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں لسبیلہ کے قریب یوریشیا، عریبین اور انڈین پلیٹیں آپس میں رگڑ کھارہی ہیں جنہیں مکران سبڈکشن زون ( ایم ایس زیڈ) کہا جاتا ہے جہاں عریبین پلیٹ یورپین پلیٹ کے نیچے دھنس رہی ہے جب کہ اس حوالے سے خوفناک بات یہ ہے کہ ایرانی ماہرین اگلے 50 برس میں یہاں خطرناک زلزلے اور سونامی کا امکان ظاہر کیا ہے۔
پاکستان میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فالٹ لائن ہے جسے چمن فالٹ سسٹم کہا جاتا ہے، 900 کلومیٹر طویل یہ فالٹ سسٹم وہی ہے جو 31 مئی 1935 کی دوپہر کو کوئٹہ میں ہولناک زلزلے کی وجہ بنا جس میں 30 سے 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ چمن فالٹ ہی کی ایک شاخ اونچ فالٹ کی وجہ سے 2013 میں بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلہ آیا تھا۔
ماہر ارضیات دین محمد کاکڑ اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان کی مقامی یونیورسٹیوں اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے پورے چمن فالٹ پر جگہ جگہ 2 درجن سینسر لگائے ہیں جو اس فالٹ کی حرکت اور اس میں بننے والے دباؤ کو نوٹ کررہے ہیں۔ دین محمد کاکڑ کے مطابق اب چمن فالٹ میں سالانہ 8 سے 10 ملی میٹرکی حرکت پیدا ہورہی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے اور گزشتہ 75 برس سے کوئٹہ خاموش ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے نیچے ایسا دباؤ بن رہا ہے جسے خطرناک زلزلہ یا خاموش بم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
جی ایس پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف نذیر رانا کے مطابق مکران کے ساحلوں پر 7.5 اسکیل کا زلزلہ آنے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ کوئٹہ کی طرح مکران سبڈکشن زون تاریخ میں کئی مرتبہ سونامی کا شکار رہ چکا ہے۔
دوسری جانب برطانوی ماہرگیما ایل اسمتھ نے مکران علاقے کی تھرمل ماڈلنگ کی ہے اور ان کے مطابق اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے 100 سے 200 برس کے درمیان مکران میں 8.7 اور 9.2 شدت کا زلزلہ آسکتا ہے۔
محکمہ موسمیات اور جیالوجیکل سروے آف پاکستان ( جی ایس پی) کے مطابق پاکستان میں کئی سرگرم ارضیاتی فالٹس ہیں جہاں زلزلے بن رہے ہیں اور ان میں سے دونوں بلوچستان کے علاقے مکران اور کوئٹہ شہر ہیں جہاں زلزلوں کا امکان ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ارضیات کے ماہر دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں 1935 میں زلزلہ آیا تھا جس کےباعث اب وہاں زلزلے کے خدشات موجود ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زمین ابلے ہوئے انڈے کی طرح کئی مقامات سے چٹخی ہوئی ہے ان چٹخی دراڑوں کو فالٹس جب کہ زمین کی بڑے ٹکڑوں کو پلیٹ کہتے ہیں۔ ماہر ارضیات کے مطابق زمین پر اس وقت 9 بڑی اور 12 چھوٹی پلیٹیں ہیں جو مسلسل حرکت کررہی ہیں اور ان ہی پلیٹوں اور فالٹس میں حرکت کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔
پاکستان کے علاقے مکران میں نومبر 1945 میں ہولناک سونامی آیا جس سے کئی میٹر اونچی لہریں پیدا ہوئی تھیں جو ساحل پر موجود مچھیروں کی بستی بہالے گئی تھیں اور اس کے نتیجے میں 4 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ سونامی کی وجہ سمندری تہہ میں زلزلے کا مرکز تھا جہاں 3 جیالوجیکل پلیٹیں مل رہی ہیں اور آج بھی ان میں سرگرمی جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں لسبیلہ کے قریب یوریشیا، عریبین اور انڈین پلیٹیں آپس میں رگڑ کھارہی ہیں جنہیں مکران سبڈکشن زون ( ایم ایس زیڈ) کہا جاتا ہے جہاں عریبین پلیٹ یورپین پلیٹ کے نیچے دھنس رہی ہے جب کہ اس حوالے سے خوفناک بات یہ ہے کہ ایرانی ماہرین اگلے 50 برس میں یہاں خطرناک زلزلے اور سونامی کا امکان ظاہر کیا ہے۔
پاکستان میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فالٹ لائن ہے جسے چمن فالٹ سسٹم کہا جاتا ہے، 900 کلومیٹر طویل یہ فالٹ سسٹم وہی ہے جو 31 مئی 1935 کی دوپہر کو کوئٹہ میں ہولناک زلزلے کی وجہ بنا جس میں 30 سے 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ چمن فالٹ ہی کی ایک شاخ اونچ فالٹ کی وجہ سے 2013 میں بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلہ آیا تھا۔
ماہر ارضیات دین محمد کاکڑ اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان کی مقامی یونیورسٹیوں اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے پورے چمن فالٹ پر جگہ جگہ 2 درجن سینسر لگائے ہیں جو اس فالٹ کی حرکت اور اس میں بننے والے دباؤ کو نوٹ کررہے ہیں۔ دین محمد کاکڑ کے مطابق اب چمن فالٹ میں سالانہ 8 سے 10 ملی میٹرکی حرکت پیدا ہورہی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے اور گزشتہ 75 برس سے کوئٹہ خاموش ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے نیچے ایسا دباؤ بن رہا ہے جسے خطرناک زلزلہ یا خاموش بم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
جی ایس پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف نذیر رانا کے مطابق مکران کے ساحلوں پر 7.5 اسکیل کا زلزلہ آنے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ کوئٹہ کی طرح مکران سبڈکشن زون تاریخ میں کئی مرتبہ سونامی کا شکار رہ چکا ہے۔
دوسری جانب برطانوی ماہرگیما ایل اسمتھ نے مکران علاقے کی تھرمل ماڈلنگ کی ہے اور ان کے مطابق اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے 100 سے 200 برس کے درمیان مکران میں 8.7 اور 9.2 شدت کا زلزلہ آسکتا ہے۔