ایک خاتون سماجی کارکن کا درد ناک قتل

سبین نے دی سیکنڈ فلور کے نام سے ڈیفنس فیز ٹو میں ایک گوشہ گفتگو قائم کیا تھا۔

سبین نے دی سیکنڈ فلور کے نام سے ڈیفنس فیز ٹو میں ایک گوشہ گفتگو قائم کیا تھا۔ فوٹو:فائل

کراچی سے تعلق رکھنے والی دانشور اور این جی او کی ڈائریکٹر سبین محمود قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئیں ، ابتدائی اطلاعات کے مطابق انھوں نے ''دی سیکنڈ فلور''T2F کے نام سے ڈیفنس فیز ٹو میں ایک گوشہ گفتگو قائم کیا تھا جہاں ایک سمینار کے انعقاد کے بعد گھر جاتے ہوئے انہیں نامعلوم مسلح ملزمان نے کار کا تعاقب کر کے چہرہ ، گردن ، سینہ اور بازو پر گولیاں ماریں، فائرنگ سے ان کی والدہ بھی شدید زخمی ہوئیں ، سبین کار خود چلا رہی تھیں جب کہ پچھلی نشست پربیٹھا ہوا ڈرائیور معجزانہ طور پر بچ گیا۔

وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے قتل کی فوری رپورٹ طلب کی ہے ، سندھ حکومت نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے اس واقعہ کی سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے سخت مذمت کی اور ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


قانون نافذ کرنے والے حکام کے مطابق قتل کی یہ بہیمانہ واردات ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ ہے جو ٹارگٹ کلرز کے کراچی میں پھر سے فعال اور سرگرم ہونے کا اعلان ہے۔ اس سے قبل کراچی میں قتل و غارت گری کی لہر رکی ہوئی تھی اس لیے انسانی حقوق کی ایک ایکٹیوسٹ کو گن ڈاؤن کرنے والے جو بھی ہوں انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ ڈکیتی رہزنی نہیں دانستہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے، سبین نے سمینار سے پہلے اپنے فیس بک پر میسج بھی دیا تھا۔

وہ دی سیکنڈ فلور سے اپنی والدہ کے ساتھ سمینار کے انعقاد میں شریک تھیں ، جیسے ہی جمعہ کو رات نو بجے کے قریب دی سیکنڈ فلور سے نکلیں تو نامعلوم افراد نے کار پر فائرنگ کر دی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام قتل کے اصل محرکات اور سبین کو منظر سے ہٹانے کے نکتہ پر تحقیقات کریں ، اسی نوعیت کا درد انگیز قتل 2013 ء میں اورنگی ٹاؤن کی معروف سماجی کارکن پروین رحمن کا بھی ہوا تھا،جنھوں نے ساری زندگی غریب اور خانماں برباد لوگوں کے لیے وقف کی تھی۔

سبین نے دی سیکنڈ فلور کے نام سے ڈیفنس فیز ٹو میں ایک گوشہ گفتگو قائم کیا تھا۔ دیکھا جائے کہ بے چہرہ قاتل سائے کی طرح کیوں ان کے ساتھ لگے رہے، ان کی والدہ کی طرف سے درج ایف آئی آر اہمیت کی حامل ہے ۔ سبین محمود فنون لطیفہ ،انسانی حقوق، سماجی مسائل اور دیگر موضوعات پر ڈائیلاگ کا وسیلہ تھیں، ان فلاحی کاموں میں خدمات بھی گراں قدر تھیں ۔
Load Next Story