یہ لندنی پاکستانی

پھر لوگ اس سے لندن کی باتیں پوچھتے اور وہ انٹ شنٹ جو بھی ذہن میں آتا۔۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

HARIPUR:
حضرت شاہ صاحب مرحوم و مغفور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا خطاب جب عروج پر پہنچتا تو کبھی وہ جوش میں آ کر ایک شعر پڑھا کرتے جس کا ایک مصرعہ مجھے یاد ہے کہ

وسعت دل تو بہت ہے وسعت صحرا کم ہے

شاہ صاحب کی مدہوش کن تقریر کا جب نقطۂ عروج ہوتا تو شاہ صاحب کو ایسے شعر یاد آتے تھے جو ان کے بے خود حاضرین کو تڑپا جاتے تھے اور ان کی تقریر کو جادو بنا دیتے تھے۔ جیسے یہ مصرع جو لیلیٰ کے عاشق مجنوں نے صحرا کی تنگی پر برہم ہو کر کہا تھا۔ قبلہ شاہ صاحب بوجوہ وہ کہہ نہیں سکتے تھے جو ان کے دل میں ہوتا تھا۔

غلامی کا زمانہ تھا اور شاہ صاحب جیسے معزز مقرر کا لفظ بہ لفظ احتساب کے دائرے میں آتا تھا، ہماری جیسی آزادانہ عیاشیاں ہمارے ان بزرگوں کی قسمت میں کہاں تھیں چنانچہ بہت کچھ دل میں ہی روک کر وہ کسی شعر کا سہارا لیتے اور یہ کہہ کر رہ جاتے کہ وسعت دل تو بہت ہے وسعت صحرا کم ہے۔ ایسے ذو معنی اشعار اور اشارے کسی محتسب کی زد میں نہیں آتے تھے مگر مقرر اپنی بات زیادہ موثر انداز میں سامعین تک پہنچا دیتے تھے۔

شاہ صاحب کا یہ پسندیدہ شعر مجھے یہ خبر سن کر یاد آیا کہ ہمارے وزیراعظم ابھی اپنے سابقہ عالمی دورے سے واپسی پر ٹک کر نہیں بیٹھے تھے کہ ایک اور لمبے دورے پر نکل گئے ہیں اور دورہ ہمارے خوابوں اور یادوں کے شہر لندن کا ہے جہاں ہمارے جیسے لوگ بھی کئی ہفتے ٹک جاتے تھے لیکن میاں صاحبان تو اس شہر کے جزوی مالک بھی ہیں۔ میاں صاحب کا قیمتی گھر بھی وہاں موجود ہے اور آباد ہے اور ان کا ایک صاحبزادہ وہاں مقیم ہے کسی کاروبار کے سلسلے میں اور میاں صاحب جب وہاں ہوں گے تو گویا آدھا پاکستان بھی وہاں ہو گا۔

انگریزوں کا دارالحکومت لندن ان خوش نصیب تاریخی شہروں میں سے ہے جن سے برطانوی مزاج کے کروڑوں غلاموں کی یادیں وابستہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی ہندوستانی کسی طرح لندن کا چکر لگا لیتا تھا تو وہ اپنے نام کے ساتھ ''لندن ریٹرن'' کا تمغہ لگا لیتا تھا اور لوگ اسے دیکھ کر تعجب کرتے تھے کہ یہ کیسا خوش نصیب ہے جو بچشم خود اور بجسم خود لندن سے ہو آیا ہے۔

پھر لوگ اس سے لندن کی باتیں پوچھتے اور وہ انٹ شنٹ جو بھی ذہن میں آتا، بتاتا جاتا اور اگر ان لندن ریٹرن لوگوں میں کوئی بڑا آدمی ہوتا تو وہ جو کچھ بھی کہتا جاتا اسے کسی انگریز کا کہا جانا جاتا۔ ہمارے بڑے لوگ لندن میں بھی بڑے ہوا کرتے تھے اور بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ وہاں وقت گزارتے تھے۔ ایسے ہی بڑے لوگوں کے بارے میں ایک فارسی شاعر نے یہ ہدیہ عقیدت پیش کیا تھا


منعم مرابکوہ و بیاباں برابر است

ہر جا کروفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت

کہ میرا مہربان اور سخی کسی بھی جگہ جائے وہ جگہ کوئی پہاڑ ہو یا بیاباں وہ وہاں خیمہ لگا لیتا ہے اور اس میں دربار سجا لیتا ہے۔ تو ہمارے غلام ہندوستانی جو برطانیہ کی سرپرستی میں رؤسا بن جاتے تھے جب کبھی لندن جاتے تو وہاں بھی وہ بڑی آن بان کے ساتھ وقت گزارتے۔ ہمارے آج کے رؤسا نے تو لندن وغیرہ میں اپنے محل بنا لیے ہیں جن میں وہ اپنا دربار سجا لیتے ہیں اور اپنی اس ولایتی شان کے ساتھ مست رہتے ہیں۔ ہمارے مہربان میاں صاحب چار روزہ دورے پر لندن گئے ہیں چونکہ شاعر نہیں ہیں اس لیے ایک فارسی شاعر کا شعر ادھار لے لیا ہے جو اس صورت حال کو بیان کرتا ہے۔

ہمارے کتنے ہی بڑے لوگ ہیں جو سیاسی لیڈر بھی ہیں لندن کے ساتھ ایک مستقل اور جذباتی تعلق رکھتے ہیں۔ ایک تو یہی میاں صاحب ہیں جن کا وہاں ایک گھر بھی ہے جو ان کے شایان شان ہے ایک بڑے ہی مہنگے علاقے میں اور یہاں ان کے صاحبزادے بھی قیام رکھتے ہیں۔ گویا لاہور اور لندن یہ دونوں شہر میاں صاحبان کے شہر بن گئے ہیں۔ لاہور میں انھوں نے اپنی پسند کا ایک بڑا سا گھر بھی بنا لیا ہے جہاں وہ دربار کرتے ہیں لیکن لندن میں ایسا ممکن نہ تھا وہاں انھوں نے گھر خرید لیا ہے جس پر لندن کے رؤسا بھی رشک کرتے ہیں۔

خوشی یہ ہے کہ میاں صاحبان سرکارِ برطانیہ کی پیداوار نہیں ہیں کوئی جاگیردار یا تمغہ بردار نہیں ہیں وہ خود ہی اپنی محنت سے بنے ہیں کسی سامراج کی عنایت خسروانہ سے نہیں۔ ہمارے بالکل نئے سیاسی لیڈر جناب عمران ہیں جو نصف پاکستانی اور نصف لندنی ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے اور خوشگوار ماضی کی یادیں بھی لندن میں آباد ہیں۔

اصل گھر وہ ہوتا ہے جہاں اولاد مقیم ہو اور پھر وہ خاتون بھی جو کبھی عمران خان کی بیوی اور بچوں کی ماں تھی یعنی ریحام تھی۔اگرچہ خان صاحب کا سیاسی پتہ پاکستان ہے لیکن جذباتی پتہ لندن کا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ لاہور اور لندن میں بیک وقت قیام کرتے ہیں مگر سیاست صرف پاکستان میں۔

ایسے سیاست دانوں کی تو ایک طویل فہرست ہے جو لندن میں سیاسی اور جذباتی قیام نہیں کرتے مگر ان کے گھر لندن میں موجود ہیں اور جب وہاں جاتے ہیں تو کرائے کے گھروں میں نہیں اپنے گھروں میں قیام کرتے ہیں اور اس شاندار اور بارعب پردیس میں ان کا یہ گھر ہوتا ہے مگر سیاست پاکستان میں کیونکہ لندن میں ان کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اب زمانہ بدل گیا ہے نہ وہ انگریز رہے ہیں نہ ان کے وہ غلام جو لندن ریٹرن ہونے پر فخر کرتے تھے۔

اگرچہ ہم بھی انگریزوں کی طرح آزاد ہیں لیکن کیا کریں غلامی ذہن سے نہیں نکلتی اور اپنا دوسرا گھر کہیں اور نہیں برطانیہ میں بناتے ہیں اور کسی فریب خوردگی میں وقت گزارتے ہیں۔ اس میں عام لوگ اور سیاست دان سب برابر ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہم ان اینگلو انڈین کی سیاسی غلامی پر فخر کرتے ہیں اور انھیں ووٹ دیتے ہیں۔ اب اینگلو انڈین کی جگہ پاکستانی لگا لیجیے لیکن خدا کے لیے غلاموں کی غلامی سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ ہم عوام ان سے بڑے ہیں۔
Load Next Story