احتیاط علاج سے بہتر کیوں ہے
پہلے جب بلدیاتی نظام تھا تو ہر محلے اور گلی میں بلدیہ کی جانب سے ایک کچرا کنڈی ہوا۔۔۔
پاکستان میں ہر موسم کے پھل اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ ہر موسم بیماریوں کی ایک کھیپ بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ سردیوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، خارش، نمونیا اور فلو عام ہے۔ گرمیاں اپنے ساتھ جلدی امراض کے علاوہ ہیضہ، بدہضمی، پیٹ، جگر، معدے اور آنتوں کی سوزش بھی ساتھ لاتی ہیں۔
سرطان، ہیپاٹائٹس اے۔بی اور سی کے علاوہ خون اور ہیموگلوبین کی کمی کے امراض بھی بکھرے پڑے ہیں۔ آنکھوں کی بیماریاں، یرقان، جوڑوں کا درد، گٹھیا اور شیاٹیکا کے علاوہ بھی نہ جانے کتنی لاتعداد بیماریاں گھروں میں، دفتروں میں، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیل رہی ہیں۔ جتنی شدت سے یہ امراض پھیل رہے ہیں۔ اس کے تین گنا زائد کے تناسب سے اسپتال کھل رہے ہیں، فزیو تھراپی والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
ٹھیک ٹھاک رقم بٹور کر جو سروس دے رہے ہیں۔ اس کا کیا معیار ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں، کسی نے بھی فزیوتھراپی کا بورڈ لگا کر دکان کھول لی۔ ایک بندہ تربیت یافتہ رکھ لیا باقی عملہ ادھر ادھر سے اکٹھا کرلیا اور کام چلا لیا۔ جو لوگ فزیو تھراپی کے طریقہ علاج سے واقف ہیں، وہ ان نام نہاد فزیو تھراپسٹ کی چوری پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن اکثریت آگہی اور معلومات نہ ہونے کی بنا پر صرف پیسے ضایع کرتے ہیں اور بددل ہوکر واپس جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیماریوں کی یلغار کے ساتھ اخبارات میں مختلف ڈاکٹرز، حکما اور اسپتالوں کی جانب سے ہر موسم میں بیماریوں سے نمٹنے کی احتیاطی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں۔
لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ سرکاری اور نجی اسپتال کھلنے کے باوجود مریضوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ کسی بھی اسپتال میں کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے چلے جائیں۔ مریضوں کا ایک ہجوم نظر آئے گا۔ ہر جگہ یہی لگے گا کہ سارا شہر اس بیماری میں مبتلا ہے۔
ساتھ ساتھ کچھ خدا ترس، صاحب دل اور صاحب حیثیت حضرات بلامعاوضہ علاج کے لیے غریبوں کے لیے اسپتال کھول رہے ہیں۔کچھ نام و نمود اور شہرت کی خاطر اس میدان میں کود پڑے ہیں کہ بدنامی کے داغ اگر قوم کے چندے سے دھل سکتے ہیں توکیا برا ہے۔ لیکن اسپتالوں، ڈاکٹروں اور حکیموں کی بہتات کے باوجود امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ ایک نظر ذرا ان اسپتالوں اورکلینکس کی طرف ڈالیے جہاں کے داخلی دروازے کے ساتھ ساتھ دونوں طرف گٹر کا پانی جمع ہے۔
چھابڑی والے، ٹھیلے والے، بن کباب ، برگر، چھولے دہی بڑے،گنے کے جوس اور گولا گنڈہ والوں کا قبضہ ہے۔ مریض منہ پہ کپڑا رکھے گٹر کے غلیظ تعفن زدہ تالاب سے گزر کر اسپتال میں داخل ہو رہے ہیں۔ کسی مہربان نے اس گندے پانی کے اوپر لکڑی کے تختے رکھوا دیے ہیں تاکہ مریض اندر جاسکیں اور باہر آسکیں۔ اسی طرح بعض اسپتالوں اور کلینکس کے اطراف گاڑیوں کی مرمت کا کام ہو رہا ہے۔ وہیں پکوان ہاؤس، ربڑی ہاؤس، تکہ، بوٹی، چرغہ اور بریانی بک رہی ہے۔
لوگ وہاں سے خرید بھی رہے ہیں۔ کھا بھی رہے ہیں اور بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس بھی جا رہے ہیں۔ لیکن نہ امراض کم ہو رہے ہیں نہ بیماریوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ ہر ڈاکٹر خواہ وہ آنکھوں کا ہو، یا کسی بھی مرض کا دھڑا دھڑ نسخے اور دوائیں لکھ لکھ کر دے رہا ہے۔ لیکن مریضوں کو کوئی افاقہ نہیں۔ وہ پھر تین دن بعد آدھمکتا ہے۔ ڈاکٹر پھر نسخے میں تبدیلی کرتا ہے۔ لیکن کمبخت مرض ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتا۔ اور اب تو ڈینگی بخار، گردن توڑ بخار اور نگلیریا نے بھی یلغار کردی ہے۔ برڈ فلو تو پہلے ہی جگہ بنا چکا ہے۔ آخر کیوں بیماریوں کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے؟
اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر وہ مقولہ بھلادیا ہے کہ ''احتیاط اور پرہیز علاج سے بہتر ہے۔'' بیماری کا علاج ضرور کروانا چاہیے لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ بیماری کو اپنے گھر اور اپنے جسم میں داخلے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ نہ بیمار ہوں گے نہ دواؤں کو معدے میں اتارنا ہوگا۔ یہ تو ہوگئی انفرادی بات، لیکن ایک اور بدنصیبی اس ملک کی یہ ہے کہ کوئی حکومت صحت اور صفائی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ دنیا کے ''مہذب'' ملکوں میں صحت اور صفائی پر بجٹ کا ایک کثیر حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اکثر جاننے والوں اور دوست احباب نے بڑے دکھ سے کئی بار یہ بات بتائی کہ جب وہ کسی علالت کی بنا پر اسپتال گئے تو وہاں صرف چند ہی مریض تھے۔
ڈاکٹرز فارغ بیٹھے تھے۔ اسپتال میں لوگوں کا ہجوم کہیں نظر نہ آیا۔ ایک پاکستانی کے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ اپنے وطن میں تو وہ شہر کی کثیر آبادی کو اسپتالوں کے چکر کاٹتا دیکھتا ہے۔ لیکن دیار غیر میں تو منظر ہی الگ تھا۔ تب انھوں نے معلومات کی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کی حکومتیں سب سے زیادہ توجہ پبلک ہیلتھ پر دیتی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو اسپتال تک جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ صحت کا تصور صفائی کے بغیر نامکمل ہے۔ جس مذہب میں صفائی کو ایمان کا حصہ بنادیا گیا ہو۔ وہ اپنے اطراف اور گھروں کے باہر خود کچرا پھینکتی ہے۔
یہاں یہ حال ہے کہ پارکوں میں، سڑکوں پہ۔ فٹ پاتھوں پہ، اسکولوں اور کالجوں کے باہر، شاپنگ سینٹروں میں، ہر جگہ پلاسٹک بیگز، کھانے پینے کی اشیا، کولڈ ڈرنک کے خالی ڈبے اور بوتلیں، وافر مقدار میں نظر آئیں گی۔ صفائی کو ہم صرف اپنے گھر تک محدود سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے کم بجٹ صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ کثیر سرمائے سے اسپتال بنا رہے ہیں اگر وہ اس کا 1/4 حصہ پبلک ہیلتھ پہ خرچ کریں، پارکوں اور سڑکوں کی صفائی روزانہ ہو تو نہ مچھر ہوں گے نہ ملیریا اور ڈینگی بخار پھیلے گا۔
احتیاط میں کچھ خرچ نہیں ہوتا، لیکن احتیاط بھی وہی کرتے ہیں جن میں شعور ہو۔ ضیا الحق نے جہاں امیرالمومنین بننے کے خبط میں امریکا سے ڈالرز لیے اور ہم پر ہیروئن، ہتھیار اور افغانی مسلط کیے۔ وہیں موصوف کی کرم نوازیوں کی بدولت کراچی جیسا میٹروپولیٹن سٹی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ افغانی بچے اور مرد صبح صبح اپنے تھیلے اور بوریاں لے کر نکل پڑتے ہیں۔ اور جہاں بھی انھیں کوڑے کا ڈھیر نظر آتا ہے، وہ لکڑی سے اسے ہر طرف پھیلا دیتے ہیں اور اس میں سے اپنے مطلب کی اشیا چن کر کوڑا بکھیر کر اگلی منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
پہلے جب بلدیاتی نظام تھا تو ہر محلے اور گلی میں بلدیہ کی جانب سے ایک کچرا کنڈی ہوا کرتی تھی جس میں آس پاس کے خاکروب گھروں سے جمع کیا ہوا کوڑا کرکٹ ڈالا کرتے تھے۔ اگلے دن بلدیہ کی گاڑی اسے اٹھا کر ٹرک میں خالی کرتی تھی۔ ٹرک کا ڈھکنا بند کرتی تھی اور کچرا کنڈی کو خالی کرکے واپس اس کی جگہ پہ رکھ دیتی تھی۔ لیکن اب ہر طرف افغانی کچرا پھیلاتے، چوریاں اور ڈکیتی کرتے نظر آتے ہیں۔ چند ایک حلال روزی بھی کما رہے ہیں، لیکن غلاظت بھی پھیلا رہے ہیں۔
پبلک ہیلتھ کی جانب توجہ دیے بغیر بیماریوں کا سدباب ممکن نہیں۔ آپ ماحول کو صاف ستھرا رکھیں گے، سرعام بکنے والی غذائیں نہیں کھائیں گے، غیر ضروری فارم کی چکن اپنی غذا میں شامل نہیں کریں گے، فروزن فوڈز کا استعمال ترک کردیں گے، بوتلوں اور ڈبوں میں بند مشروب اور جوس کے بغیر جینا سیکھ لیں گے، گھر کے پکے ہوئے کھانے کو ترجیح دیں گے تو ڈاکٹرز کے پاس جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ یہ یاد رہے کہ بیماریوں کی جڑ صرف کھلے عام بازاروں میں بکنے والی غذائیں اور فاسٹ فوڈز ہی نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے ہوٹلوں کا حال بھی یہی ہے۔
شان و شوکت، چمک دمک اور صاف ستھری میز پر جو کھانا، رائتہ اور سبزی پیش کی جاتی ہے اس میں زیادہ تر کئی کئی ہفتوں کی پرانی اور باسی ہوتی ہے جنھیں فریز کردیا جاتا ہے اور حسب ضرورت مائیکرو ویو اوون میں گرم کرکے آپ کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ کبھی ان ہوٹلوں اور بیکریوں کے کچن جاکر دیکھیے تو ہمیشہ کے لیے توبہ کرلیں وہاں جانے سے۔ کاکروچ، مکھیاں، غلاظت ، ننگے سر اور ننگے پاؤں کام کرنے والے ملازم۔ اس موضوع پر آئندہ بھی بات کی جائے گی کہ کیوں ''احتیاط علاج سے بہتر ہے۔''
سرطان، ہیپاٹائٹس اے۔بی اور سی کے علاوہ خون اور ہیموگلوبین کی کمی کے امراض بھی بکھرے پڑے ہیں۔ آنکھوں کی بیماریاں، یرقان، جوڑوں کا درد، گٹھیا اور شیاٹیکا کے علاوہ بھی نہ جانے کتنی لاتعداد بیماریاں گھروں میں، دفتروں میں، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیل رہی ہیں۔ جتنی شدت سے یہ امراض پھیل رہے ہیں۔ اس کے تین گنا زائد کے تناسب سے اسپتال کھل رہے ہیں، فزیو تھراپی والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
ٹھیک ٹھاک رقم بٹور کر جو سروس دے رہے ہیں۔ اس کا کیا معیار ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں، کسی نے بھی فزیوتھراپی کا بورڈ لگا کر دکان کھول لی۔ ایک بندہ تربیت یافتہ رکھ لیا باقی عملہ ادھر ادھر سے اکٹھا کرلیا اور کام چلا لیا۔ جو لوگ فزیو تھراپی کے طریقہ علاج سے واقف ہیں، وہ ان نام نہاد فزیو تھراپسٹ کی چوری پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن اکثریت آگہی اور معلومات نہ ہونے کی بنا پر صرف پیسے ضایع کرتے ہیں اور بددل ہوکر واپس جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیماریوں کی یلغار کے ساتھ اخبارات میں مختلف ڈاکٹرز، حکما اور اسپتالوں کی جانب سے ہر موسم میں بیماریوں سے نمٹنے کی احتیاطی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں۔
لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ سرکاری اور نجی اسپتال کھلنے کے باوجود مریضوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ کسی بھی اسپتال میں کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے چلے جائیں۔ مریضوں کا ایک ہجوم نظر آئے گا۔ ہر جگہ یہی لگے گا کہ سارا شہر اس بیماری میں مبتلا ہے۔
ساتھ ساتھ کچھ خدا ترس، صاحب دل اور صاحب حیثیت حضرات بلامعاوضہ علاج کے لیے غریبوں کے لیے اسپتال کھول رہے ہیں۔کچھ نام و نمود اور شہرت کی خاطر اس میدان میں کود پڑے ہیں کہ بدنامی کے داغ اگر قوم کے چندے سے دھل سکتے ہیں توکیا برا ہے۔ لیکن اسپتالوں، ڈاکٹروں اور حکیموں کی بہتات کے باوجود امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ ایک نظر ذرا ان اسپتالوں اورکلینکس کی طرف ڈالیے جہاں کے داخلی دروازے کے ساتھ ساتھ دونوں طرف گٹر کا پانی جمع ہے۔
چھابڑی والے، ٹھیلے والے، بن کباب ، برگر، چھولے دہی بڑے،گنے کے جوس اور گولا گنڈہ والوں کا قبضہ ہے۔ مریض منہ پہ کپڑا رکھے گٹر کے غلیظ تعفن زدہ تالاب سے گزر کر اسپتال میں داخل ہو رہے ہیں۔ کسی مہربان نے اس گندے پانی کے اوپر لکڑی کے تختے رکھوا دیے ہیں تاکہ مریض اندر جاسکیں اور باہر آسکیں۔ اسی طرح بعض اسپتالوں اور کلینکس کے اطراف گاڑیوں کی مرمت کا کام ہو رہا ہے۔ وہیں پکوان ہاؤس، ربڑی ہاؤس، تکہ، بوٹی، چرغہ اور بریانی بک رہی ہے۔
لوگ وہاں سے خرید بھی رہے ہیں۔ کھا بھی رہے ہیں اور بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس بھی جا رہے ہیں۔ لیکن نہ امراض کم ہو رہے ہیں نہ بیماریوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ ہر ڈاکٹر خواہ وہ آنکھوں کا ہو، یا کسی بھی مرض کا دھڑا دھڑ نسخے اور دوائیں لکھ لکھ کر دے رہا ہے۔ لیکن مریضوں کو کوئی افاقہ نہیں۔ وہ پھر تین دن بعد آدھمکتا ہے۔ ڈاکٹر پھر نسخے میں تبدیلی کرتا ہے۔ لیکن کمبخت مرض ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتا۔ اور اب تو ڈینگی بخار، گردن توڑ بخار اور نگلیریا نے بھی یلغار کردی ہے۔ برڈ فلو تو پہلے ہی جگہ بنا چکا ہے۔ آخر کیوں بیماریوں کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے؟
اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر وہ مقولہ بھلادیا ہے کہ ''احتیاط اور پرہیز علاج سے بہتر ہے۔'' بیماری کا علاج ضرور کروانا چاہیے لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ بیماری کو اپنے گھر اور اپنے جسم میں داخلے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ نہ بیمار ہوں گے نہ دواؤں کو معدے میں اتارنا ہوگا۔ یہ تو ہوگئی انفرادی بات، لیکن ایک اور بدنصیبی اس ملک کی یہ ہے کہ کوئی حکومت صحت اور صفائی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ دنیا کے ''مہذب'' ملکوں میں صحت اور صفائی پر بجٹ کا ایک کثیر حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اکثر جاننے والوں اور دوست احباب نے بڑے دکھ سے کئی بار یہ بات بتائی کہ جب وہ کسی علالت کی بنا پر اسپتال گئے تو وہاں صرف چند ہی مریض تھے۔
ڈاکٹرز فارغ بیٹھے تھے۔ اسپتال میں لوگوں کا ہجوم کہیں نظر نہ آیا۔ ایک پاکستانی کے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ اپنے وطن میں تو وہ شہر کی کثیر آبادی کو اسپتالوں کے چکر کاٹتا دیکھتا ہے۔ لیکن دیار غیر میں تو منظر ہی الگ تھا۔ تب انھوں نے معلومات کی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کی حکومتیں سب سے زیادہ توجہ پبلک ہیلتھ پر دیتی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو اسپتال تک جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ صحت کا تصور صفائی کے بغیر نامکمل ہے۔ جس مذہب میں صفائی کو ایمان کا حصہ بنادیا گیا ہو۔ وہ اپنے اطراف اور گھروں کے باہر خود کچرا پھینکتی ہے۔
یہاں یہ حال ہے کہ پارکوں میں، سڑکوں پہ۔ فٹ پاتھوں پہ، اسکولوں اور کالجوں کے باہر، شاپنگ سینٹروں میں، ہر جگہ پلاسٹک بیگز، کھانے پینے کی اشیا، کولڈ ڈرنک کے خالی ڈبے اور بوتلیں، وافر مقدار میں نظر آئیں گی۔ صفائی کو ہم صرف اپنے گھر تک محدود سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے کم بجٹ صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ کثیر سرمائے سے اسپتال بنا رہے ہیں اگر وہ اس کا 1/4 حصہ پبلک ہیلتھ پہ خرچ کریں، پارکوں اور سڑکوں کی صفائی روزانہ ہو تو نہ مچھر ہوں گے نہ ملیریا اور ڈینگی بخار پھیلے گا۔
احتیاط میں کچھ خرچ نہیں ہوتا، لیکن احتیاط بھی وہی کرتے ہیں جن میں شعور ہو۔ ضیا الحق نے جہاں امیرالمومنین بننے کے خبط میں امریکا سے ڈالرز لیے اور ہم پر ہیروئن، ہتھیار اور افغانی مسلط کیے۔ وہیں موصوف کی کرم نوازیوں کی بدولت کراچی جیسا میٹروپولیٹن سٹی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ افغانی بچے اور مرد صبح صبح اپنے تھیلے اور بوریاں لے کر نکل پڑتے ہیں۔ اور جہاں بھی انھیں کوڑے کا ڈھیر نظر آتا ہے، وہ لکڑی سے اسے ہر طرف پھیلا دیتے ہیں اور اس میں سے اپنے مطلب کی اشیا چن کر کوڑا بکھیر کر اگلی منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
پہلے جب بلدیاتی نظام تھا تو ہر محلے اور گلی میں بلدیہ کی جانب سے ایک کچرا کنڈی ہوا کرتی تھی جس میں آس پاس کے خاکروب گھروں سے جمع کیا ہوا کوڑا کرکٹ ڈالا کرتے تھے۔ اگلے دن بلدیہ کی گاڑی اسے اٹھا کر ٹرک میں خالی کرتی تھی۔ ٹرک کا ڈھکنا بند کرتی تھی اور کچرا کنڈی کو خالی کرکے واپس اس کی جگہ پہ رکھ دیتی تھی۔ لیکن اب ہر طرف افغانی کچرا پھیلاتے، چوریاں اور ڈکیتی کرتے نظر آتے ہیں۔ چند ایک حلال روزی بھی کما رہے ہیں، لیکن غلاظت بھی پھیلا رہے ہیں۔
پبلک ہیلتھ کی جانب توجہ دیے بغیر بیماریوں کا سدباب ممکن نہیں۔ آپ ماحول کو صاف ستھرا رکھیں گے، سرعام بکنے والی غذائیں نہیں کھائیں گے، غیر ضروری فارم کی چکن اپنی غذا میں شامل نہیں کریں گے، فروزن فوڈز کا استعمال ترک کردیں گے، بوتلوں اور ڈبوں میں بند مشروب اور جوس کے بغیر جینا سیکھ لیں گے، گھر کے پکے ہوئے کھانے کو ترجیح دیں گے تو ڈاکٹرز کے پاس جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ یہ یاد رہے کہ بیماریوں کی جڑ صرف کھلے عام بازاروں میں بکنے والی غذائیں اور فاسٹ فوڈز ہی نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے ہوٹلوں کا حال بھی یہی ہے۔
شان و شوکت، چمک دمک اور صاف ستھری میز پر جو کھانا، رائتہ اور سبزی پیش کی جاتی ہے اس میں زیادہ تر کئی کئی ہفتوں کی پرانی اور باسی ہوتی ہے جنھیں فریز کردیا جاتا ہے اور حسب ضرورت مائیکرو ویو اوون میں گرم کرکے آپ کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ کبھی ان ہوٹلوں اور بیکریوں کے کچن جاکر دیکھیے تو ہمیشہ کے لیے توبہ کرلیں وہاں جانے سے۔ کاکروچ، مکھیاں، غلاظت ، ننگے سر اور ننگے پاؤں کام کرنے والے ملازم۔ اس موضوع پر آئندہ بھی بات کی جائے گی کہ کیوں ''احتیاط علاج سے بہتر ہے۔''