کرکٹ ٹیم میں نوجوان ضروری تو بورڈ میں کیوں نہیں

’’نوجوان ٹیم ابھی ہار رہی ہے مگر جلد جیتنا بھی شروع کر دے گی‘‘


Saleem Khaliq April 26, 2015
کوچ وقار یونس بھی قومی کرکٹ کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ فوٹو : فائل

ایسا لگتا تھاکہ شاید یہ کوئی ڈراؤنا خواب ہو، ابھی آنکھ کھلے تو حقیقت معلوم ہو کہ کرکٹ میں ایسی کوئی تباہی نہیں مچی،مگر افسوس یہ ہو چکا، وہ چھوٹے بنگال ٹائیگرز جنھیں ہم نے کھیل کی الف ب بتائی، ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں اہم ''کردار'' ادا کیا۔

وہی اب بڑے ہو کر ہماری ہی کرکٹ کو چیر پھاڑ کر کھا گئے، دل ماننے کو تیار نہیں مگر یہ سچ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش نے ہمیں سیریز کے تینوں ون ڈے میچز میں ہرا دیا، واحد ٹوئنٹی 20میں بھی شکست ہی ہاتھ آئی، شائقین کرکٹ کے دل اس پر خون کے آنسو رو رہے ہیں مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، کسی نے استعفیٰ دیا نہ شکستوں کی ذمہ داری قبول کی۔

سب نے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ ''نوجوان ٹیم ابھی ہار رہی ہے مگر جلد جیتنا بھی شروع کر دے گی'' نجانے یہ جلد کب آئے گا، لیکن اگر یہ سلسلہ برقرار رہا توملک میں کرکٹ ختم ہو جائے گی، میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں، ابتدائی دونوں ون ڈے میچز میں شکست کے بعد تیسرے مقابلے والے دن نجانے مجھے کیا سوجھی، میں باہر نکل پڑا، ایک جگہ چند لڑکے بیٹھے نظر آئے ان سے پوچھا اسکور کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا ''پتا نہیں بھائی ویسے بھی آئی پی ایل کے میچز تو دیر سے شروع ہوتے ہیں''۔



میں نے ان سے کہا کہ میں پاکستان کے میچ کی بات کر رہا ہوں یہ سن کر وہ غصے سے کہنے لگے کہ ''ہم نے اب اپنی ٹیم کے میچز دیکھنے چھوڑ دیے ہیں''۔ تھوڑا آگے جا کر ایک اور صاحب سے اسکور پوچھا تو وہ کہنے لگے ''آج کس کا میچ ہے''، میں نے بتایا پاکستان کا بنگلہ دیش کے ساتھ، تو انھوں نے جواب دیا ''اچھا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا''۔ اچانک ایک کار آ کر رکی اس میں میرے کرکٹ کے انتہائی شوقین دوست عمران موجود تھے رسمی سلام دعا کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ''بھائی میچ میں کیا ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ''میں نے اب اپنا وقت ان فضول کاموں میں ضائع کرنا چھوڑ دیا ہے''۔

میں نے کہا کہ کمنٹری تو سن لو تو وہ کہنے لگے کہ ''ڈبا کمنٹری سننا بھی اب بند کر دی، جو بندہ کبھی حیدرآباد بھی نہیں گیا ہو گا وہ اسٹوڈیو میں بیٹھ کر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے ایسے قصے سنا رہا ہوتا تھاکہ کیا بتاؤں، تم تو جانتے ہی ہو گے کہ کراچی کے ہی کسی اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر میچ دیکھ کر کمنٹری ہوتی تھی۔

لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے آؤٹ یا چوکے چھکے کے وقت ریکارڈ شدہ آوازیں چلا دی جاتی تھیں، کئی سابق کرکٹرز بھی اس جعلسازی کا حصے بنتے ہیں، ویسے بھی اب اس ٹیم میں بچا ہی کیا ہے کہ اس کے میچز دیکھیں یا کمنٹری سنیں''۔

یہ باتیں سن کر میں تو پریشان ہو گیا، وہ ملک جہاں میچز کے دوران سڑکوں پرسناٹا چھا جاتا تھا لوگ سب کام کاج چھوڑ کر ٹی وی کے پاس بیٹھے رہتے تھے، اب وہاں اپنی ٹیم کس سے کھیل رہی ہے لوگوں کو یہ بھی نہیں پتا، نجانے پی سی بی کب ہوش کے ناخن لے گا؟ ون ڈے رینکنگ میں ہم آٹھویں نمبر پر آ گئے ٹی ٹوئنٹی میں چوتھی پوزیشن پر تنزلی ہو گئی۔

یہی حالات برقرار رہے تو ورلڈکپ کا کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا اور چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم حصہ بھی نہیں لے سکے گی، اس وقت تو بورڈ میں بیٹھے لوگ لاکھوں روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں، بڑی بڑی سفارشیں لگوا کر ملازمت حاصل کی جاتی ہے مگر بعد میں انھیں کون تنخواہیں دے گا۔

ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ ہو نہیں رہی، ذرائع آمدنی ویسے ہی محدود ہیں ایسے میں ٹیم کی کارکردگی سے بددل ہوکر اسپانسرز بھی بھاگنے لگے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو سکتا ہے، پی سی بی کا حال بھی پی آئی اے جیسا ہے ملازمین کی بے تحاشا تعداد اور کام صفر، ایک ادارہ تو تباہ ہو چکا، دوسرا بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا، جتنی بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازم کرکٹ بورڈ میں ہیں کہیں نہیں ہوں گے۔

بعض لوگ حاضری لگاکر، چائے پانی پی کر گھر واپس چلے جاتے ہیں جبکہ بعض تو اس کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے، میرا دعویٰ ہے کہ کسی بین الاقوامی کمپنی سے پی سی بی ملازمین کی اہلیت کے مطابق پوزیشن اور کام کی نوعیت کا سروے کرایا جائے تو گنتی کے چند افراد ہی اپنی پوسٹ کے اہل ہوں گے۔

ہر نیا چیئرمین تبدیلی کا نعرہ لگا کر آتا پھر سفارشیوں کو بھرتی کرتا اور نتیجہ خزانے پر مزید بوجھ کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے، گوکہ شہریار خان کئی بار دعوے کرچکے مگرشاہد اسلم جیسے کئی افراد دہری ذمہ داریاں اب بھی انجام دے رہے ہیں، گیم ڈیولپمنٹ کے نام پر کچھ نہ کرنے والے ہارون رشید کو چیف سلیکٹر بنا دیا گیا ۔

جنھوں نے جو ٹیمیں منتخب کیں ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، وہ جائیں گے تو شاید ذاکر خان یا انتخاب عالم یہ عہدہ سنبھال لیں، ہماری کرکٹ انہی گنے چنے چند افراد کے گرد گھوم رہی ہے، جو کبھی کراچی تو کبھی یو اے ای میں ''معاملات کا جائزہ'' لینے کے لیے جا کر بھاری رقم بطور ٹی اے ڈی اے حاصل کر لیتے ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام الگ ہے، اسی کے ساتھ بڑی رقوم کے چیک بطور تنخواہ بھی ملتے ہیں۔

ان افراد نے پاکستان کرکٹ کے لیے کیا کیا؟ یہ سب کے سامنے ہے، گذشتہ دنوں سابق کپتان عمران خان کا یہ بیان نظروں سے گذرا کہ ''پی سی بی میں اقربا پروری زوروں پر ہے'' اب وقت آ گیا کہ انھیں بھی یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ طویل عرصے سے ڈائریکٹر کی پوسٹ پر موجود ذاکر خان کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ان سے قربت کی وجہ سے اس پوزیشن پر ہیں۔ عمران خان اب ایک کھرے سیاستدان کے طور پر مشہور ہیں یقیناً انھوں نے ایسی کوئی سفارش نہیں کی ہو گی مگر انھیں کھل کر اس حوالے سے اظہار خیال بھی کرنا چاہیے۔

کرکٹ ٹیم کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ نیا خون لایا جائے تو پھر پی سی بی میں ایسا کیوں نہیں ہوتا، یہاں 81برس کے چیئرمین اور 62 سال کے چیف سلیکٹر کو کیوں لایا جاتا ہے؟ اس میں بھی میرٹ پر نوجوانوں کو ملازمتیں دینی چاہئیں، اسی طرح کوالیفائیڈ ڈائریکٹرز کا تقرر کیا جائے، افسوس اس وقت کے بعض ڈائریکٹرز تو انگریزی میں ایک خط تک نہیں لکھ سکتے، ماضی میں ایک بڑی پوسٹ پر موجود سابق کرکٹر نے تو صرف خط و کتابت کے لیے 2 افراد کو ملازم رکھا ہوا تھا۔ جب تک بورڈ میں بہتری نہیں ہوتی کرکٹ کا ایسے ہی بیڑا غرق ہوتا رہے گا۔

ڈر تو اس بات کا ہے کہ مستقبل میں قومی ٹیم کو کسی ٹورنامنٹ کے لیے بھجوانے کے لیے ملک ریاض جیسی شخصیات کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، کیونکہ جتنی بڑی تعداد میں بورڈ کے ملازمین ہیں آمدنی اتنی ہو نہیں رہی، یو اے ای میں کھیلنا بھی گھاٹے کا سودا ہے۔

انگلینڈ نے ہمیں نیوٹرل وینیو کی اجازت دی تو ہمارے پلیئرز نے اسپاٹ فکسنگ کا داغ لگا کر اسے نقصان پہنچا دیا، اب تو ایسی کسی پیشکش کا سوچ کر بھی ای سی بی دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے گا،اس حوالے سے بھی کوئی حکمت عملی بنانا ہوگی، وہاں تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے اگر انگلینڈ کو منا لیا تو بھارت جیسی سیریز کا وہاں انعقاد کر کے آمدنی ہو سکتی ہے۔ افسوس کہ ایسی باتوں کا سوچنے کے بجائے ہمارے چیئرمینز عامر کو واپس لانے پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے ہیں نجانے انھیں کب سمجھ آئے گی۔

، ورلڈکپ میں انھوں نے سرفراز احمد کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے، میں نے ہی ایاز خان صاحب کے ٹی وی پروگرام میں اس حوالے سے حقائق بیان کیے کہ کسی وجہ سے کوچ وکٹ کیپر سے ناراض ہیں۔

اس پر سوشل میڈیا میں شور مچ گیا، تردیدوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا، پھر سرفراز آئے اور چھا گئے، ایسے میں معروف صحافی یحییٰ حسینی نے ایک پریس کانفرنس میں وقار یونس سے اس بارے میں سوال پوچھ لیا تو وہ آگ بگولا ہو گئے، یوں حقیقت پر مہر ثبت ہو گئی، اب بھی کوچ کے دل کا بغض نہیں نکلا، بنگلہ دیش سے ابتدائی 2میچز میں سرفراز بڑی اننگز نہ کھیل پائے تو تیسرے میں آرام کے نام پر باہر بٹھا دیا،کون سی ہمارے ٹیم دونوں مقابلے جیت چکی تھی کہ کسی کو ریسٹ دینے کا سوچا جاتا، مسلسل ناکامیوں کے باوجود حفیظ ٹیم میں موجود رہے مگر سرفراز کو نکال دیا یہ کیا بات ہوئی؟ افسوس کوچ ذاتی انا کے چکر میں ٹیم کو زوال کی گہرائیوں میں پہنچا رہے ہیں۔

ان سے کوئی پوچھنے والا بھی موجود نہیں، بورڈ چیئرمیں بجائے بازپرس کے الٹا ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں، اسی لیے بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ حکام قومی کرکٹ کی بہتری چاہتے ہیں یا تباہی۔ جان بوجھ کر نئے پلیئرز کو ٹیم میں سیٹ نہیں ہونے دیا جاتا، کبھی کوئی کس نمبر پربیٹنگ کرتا ہے تو کبھی کسی اور پر کھیلتا دکھائی دیتا ہے۔

مصباح چار سال قومی ٹیم کی قیادت کرتے رہے اس دوران انھوں نے کتنے بیٹسمینوںکو ٹیم میں سیٹ کیا؟ اظہر علی چونکہ ان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتے تھے تو انھیں اب کپتان بھی بنوا دیا، 2 سال ٹیم سے باہر پلیئر اچانک کیسے اتنی اہم ذمہ داری حاصل کر لیتا ہے، ہر کوئی یہ سوچ کر ہی سر پیٹ لے۔



اگر وہ اتنے اچھے تھے تو پہلے ہی کیوں اپنا نائب نہ بنایا اور کیوں نہیں متواتر کھلاتے رہے؟ مصباح سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد چونکہ حکام کی چمچہ گیری نہیں کرتے لہٰذا انھیں باہر کر دیا جبکہ بچے ٹیم میں لے لیے تاکہ وہ بیچارے ''جی وکی بھائی، ضرور وکی بھائی'' کرتے رہیں، یہ تمام حقائق کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والا ایک بچہ بھی سمجھ رہا ہے مگر اعلیٰ حکام دانستہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، اب زمبابوے کی ٹیم آنے والی ہے، شاید اس سے بھی ہارنے کا انتظار ہوگا۔

حکومت کی ترجیحات میں تو کرکٹ کا شاید آخری نمبر ہی ہو لیکن بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم نواز شریف کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کھیل نے لاکھوں پاکستانیوں کو یکجا کر رکھا تھا،اب اگر اس سے لوگ دور ہوئے تو قومی یکجہتی میں کمی کے ساتھ نوجوان منفی سرگرمیوں کی جانب بھی راغب ہوں گے، اگر ٹیم اچھا پرفارم کرے گی تب ہی تو عوام میں کرکٹ کا شوق بڑھے گا، یہی حالات رہے تو ایک دن ہاکی کی طرح ہم کرکٹ میں بھی بچوں کو بتایا کریں گے کہ ''پتا ہے بیٹے 1992میں ہم نے ورلڈکپ جیتا تھا'' اور بچے کہیں گے اچھا اب تو ٹیم بالکل ہی زیرو ہو چکی ہے۔

ہمیں عمران خان اور جاوید میانداد جیسے ہیروز بنانے ہوں گے جنھیں دیکھ کر لوگ کرکٹ کھیلنا شروع کریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ میرٹ پر سلیکشن ہو اور کھلاڑیوں کو بھرپور مواقع ملیں، اگر عمران خان جیسے سابق عظیم کرکٹرز یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے تو یہ سچ ہی ہو گا، ایسے سلیکٹرز بنائیں جو ایمانداری سے پلیئرز کا انتخاب کریں، اسی صورت ہم اچھی ٹیم بنا پائیں گے۔

اب بھی شہریارخان، ہارون رشید اور وقار یونس جیسے لوگوں کا تو کچھ نہ ہو گا مگر ہارنے پر بیچارے اظہر علی اور دیگر نوجوان کھلاڑیوں پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے رہیں گے، یہ درست نہیں اظہرخود کپتان نہیں بنے وہ بیچارے تو کرکٹ سیاست کی شطرنج کا ایک مہرہ ہیں، محمد حفیظ، سعید اجمل، عمر گل، فواد عالم، شاہدآفریدی و دیگر سینئرز کو بھی ذمہ داری لینا ہوگی، اس بار تو انھوں نے مایوس ہی کیا۔

اسی طرح وقار یونس جیسے عظیم سابق پیسر کی موجودگی میں ہمارے بولرز کا بنگلہ دیش نے جو حال کیا وہ سب ہی نے دیکھا، اب بورڈ کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ وقار اور اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمدکو ماہانہ 21 لاکھ روپے دے رہا ہے تو اس سے کوئی فائدہ بھی ہوا؟ اب وقت آ گیاکہ نئے کوچز سامنے لائے جائیں، جاوید میانداد اور محسن حسن خان میں سے کسی کو ذمہ داری سونپ دیں، شاید کچھ بہتری آ جائے۔

اسی طرح سلیکشن کمیٹی میں راشد لطیف یا عبدالقادر جیسے ایماندار افراد کو لایا جائے تو مناسب ہو گا،چند ہی لوگ ہر کام نہیں کر سکتے اعلیٰ حکام کو یہ سوچنا ہو گا، ابھی اگر درست اقدامات نہ اٹھائے تو قوم انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ان کا نام ملکی کرکٹ کو تباہ کرنے والوں میں سرفہرست ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں