ظلم کی تاریکی چھٹنے والی ہے
امن و عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار مہاتما گاندھی نے 26 ستمبر1947ء کی شام اپنی ایک پراتھنا کی میٹنگ میں کہا تھا ۔۔۔
مسلمانوں کے خلاف جہاں یہود و نصاریٰ کی دشمنی ازلی ہے تو امت مسلمہ کے خلاف ہندو دشمنی بھی دائمی ہے۔ اگرکوئی شخص یہ فریب نفس رکھتا ہے کہ ہندو، مسلم قربتیں بھائی چارے میں تبدیل ہو جائیں گی تو ہمیں ہندوستان کے وزیردفاع کا وہ بیان دوبارہ پڑھ لینا چاہیے جو ستمبر65ء کی جنگ میں پاکستان سے شکست کھانے کے بعد دیا گیا تھا۔
بھارتی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ ''پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اسی دن مخاصمت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی جس دن پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئیڈیالوجی کا اختلاف ہے۔ اور یہ اختلاف اور دشمنی مہینے اور ہفتے بھر کی نہیں بلکہ سالہا سال تک رہے گی، بھارت کو اس لیے ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔''
کچھ پرانی بات نہیں ہے کہ اسے یاد نہ کیا جا سکے۔ لال بہادر شاستری نے این۔ سی۔ سی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان جو ہمیشہ اسلام کی اصطلاح میں سوچتا ہے اس دھوکے میں ہے کہ وہ کشمیرکو اس لیے ہڑپ کر لے گا کہ وہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔
یہ پاکستان کی خام خیالی ہے، ہندوستان میں پانچ کروڑ مسلمان بستے ہیں اگر پاکستان یہ سوچتا ہے کہ وہ مسلم اکثریت کے بل پرکشمیرکو لے سکتا ہے تو اسے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اس صورت میں ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کا کیا ہو گا۔''
آج جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہندو انتہا پسند حکومت کے خلاف کشمیری عوام کے دل کی آواز ہے کہ آج لاکھوں فوجی کشمیر پر قابض ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا پرچم لہرا دیا جاتا ہے۔کشمیری مسلمان اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی کہ آخر یہ مظلوم عوام بار بار بھارتی فوجیوں کے تشدد اور فائرنگ کے سامنے آ کر خود کو نشانہ کیوں بنواتے ہیں، اقوام متحدہ اپنے ہی قوانین و قراردادوں پر عمل کیوں نہیں کرواتی۔
پاکستان کے حصول کے لیے مسلمانان ہند نے بڑی قربانیاں دی ہیں 15 اگست1947ء کو نظریاتی بنیاد پر، دوقومی نظریے کے تحت دو ممالک دنیا کے نقشے پر نمودارہو چکے تھے، دو دن بعد مسلمانوں نے آزادی کی فضا میں پہلی عید منائی لیکن ہنوز نماز عید کی تکبیریں پوری بھی نہیں ہوئی تھیں کہ مشرقی پنجاب اور اس کی ریاستیں نابھہ، پٹیالہ، کپورتھلہ، فرید کوٹ سے مسلمانوں کے منظم اور وسیع پیمانے پر قتل عام کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔
اس قتل و غارت گری میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، عورتوں کو اغوا کر لیا گیا، بچوں کو سنگینوں کی نوک پر اچھالا گیا، عصمت دری کے واقعات ہونے لگے بعض شہروں میں مردوں کو ختم کر کے نوجوان عورتوں کے برہنہ جلوس نکالے گئے۔
چند ہی ہفتوں کے اندر اندر تقریباََ پانچ لاکھ مسلمان قتل کر دیے گئے، ایک اندازے کے مطابق اس خونی تماشے میں بھارت میں قریب دس لاکھ مسلمان قتل و غارت گری کے نذر ہوئے اور قریب ایک کروڑ مسلمان، انتہائی کسمپرسی کے عالم میں، کسی نہ کسی طرح جان بچا کر پاکستان پہنچ گئے، تارکینِ وطن کے ساتھ راستے میں کیا گزری ، اس پر سیکڑوں صفحات بھی کم پڑ جائیں لیکن نوجوان نسل کے لیے چند واقعات کا ذکر کرتا چلوں کہ نومبر1947ء میں ضلع انبالہ کے ایک کیمپ سے پانچ ہزار پناہ گزینوں کا قافلہ لائل پورکے قریب پہنچا، ان میں سے دو ہزار مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔
ان میں پیچش کا مرض عام تھا، اس کیمپ میں انھیں جو کھانا کو دیا جاتا تھا جب اس کا کیمیاوی تجزیہ کیا گیا تو اس میں نیلا تھوتھا ملا ہوا تھا، ایک گاڑیٰ 11 نومبر کو دہلی پہنچی تو اس میں سفر کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں نے بتایا کہ حکومت ِ ہند نے جو سپاہی ان کے حفاظت کے لیے متعین کیے تھے۔
انھوں نے کس طرح ان عصمت دری کی، ایک ٹرین میں قریب ڈیڑھ ہزار پناہ گزین دہلی سے آ رہے تھے کہ امرتسر کے قریب ان سب کو ختم کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن مسلمانوں کی تباہی کو بچانے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔
امن و عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار مہاتما گاندھی نے 26 ستمبر1947ء کی شام اپنی ایک پراتھنا کی میٹنگ میں کہا تھا کہ ''اگرچہ میں نے جنگ کی ہمیشہ مخالفت کی ہے لیکن اس سلسلے میں پاکستان سے انصاف حاصل کرنے کا کوئی اور طریق کارگر نہ ہوا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ ہندوستان، پاکستان کے خلاف جنگ کرے۔''
آج جو کچھ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ دراصل لال بہادر شاستری کی اُسی دھمکی کا عملی مظاہرہ ہے جو کشمیر کے حوالے سے دھمکی دی گئی تھی کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جس قدر تیزی لائی جائے گی۔ ہندوستان کے مسلمان اورکشمیر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے گا۔
آج کشمیر میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ کشمیری نوجوانوں کو پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جا رہی ہے بلکہ بھارت کی شہ پر اس کا دم چھلا بن جانے والی بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مسلسل تختہ دار پر لٹکا کر بھارت نوازی کا حق ادا کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش یہ نہیں سوچتا کہ اس کا وجود کسی لسانی اکائی کی بنیاد پر نہیں بنا تھا بلکہ متحدہ پاکستان کا مقصد دو قومی نظریہ تھا، اگر بنگلہ دیش پاکستان کی اساس کو نہیں مانتا تو کیا اس نے اسلام کا نام استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے کہ وہ آج تک بنگلہ دیش بننے کے مخالفین، متحدہ پاکستان کے حمایتوں کو پھانسی کی مسلسل سزا دے رہا ہے، بنگلہ دیش کا وجود پاکستان کے دو قومی نظریے کے مرہنون منت تھا اور ہے، وقت ثابت کرے گا کہ لسانیت اور قوم پرستی پر جذبہ امت مسلمہ غالب آ کر رہے گا۔
آج کشمیر میں کشمیری اس لیے اپنی جان کی بازی نہیں لگا رہے کہ وہ کشمیری نسل کا احیا چاہتے ہیں بلکہ ان کے جسموں پر کفن کی جگہ پاکستان کا جھنڈا لپٹا ہوتا ہے،ان کے سینوں پر جب گولی مار ی جاتی ہے تو پہلے پاکستان کا پرچم زخمی ہوتا ہے پھر کشمیری جسم چھلنی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کب تک بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کو برداشت کرتے رہیں گے ایک وقت یقینی جلد آئے گا کہ ہندوستان میں ایک نئے پاکستان کا جنم ہوگا۔ ہر بڑھتے ظلم کو حساب دینا ہوتا ہے۔
پاکستان میں رہنے والے وہ لوگ جنھوں نے ظلم کے دریا عبورکر کے اس پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا آج چند عناصر کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ضرور ہیں لیکن انھیں اس بات کا یقین ہے کہ ظلم کی اندھیری رات کے بعد ایک خوبصورت صبح کا آغاز بھی ہوتا ہے، ہندوستان کے مسلمان بھی اسی صبح کے لیے گھپ اندھیرے میں کشمیری مسلمانوں اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلموں کو ایک وقت تک ہی برداشت کر سکتے ہیں ہمیشہ نہیں۔ ظلم کی تاریکی بہت جلد چھٹنے والی ہے۔ انشا اللہ...