مُنا بھائی کا جادو
وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے۔۔۔
یہ عجیب لوگ ہیں زمین پر ان کے پاؤں ٹکتے نہیں اور باتیں یہ آسمانوں کی کرتے ہیں۔ دریا میں اتر کر کبھی دیکھا نہیں لیکن قصے سونامی کے سناتے ہیں۔ ایک دن بھوک سے معدہ چلایا نہیں لیکن غریبوں کا درد بتاتے ہیں۔ اپنے شیشے کو کبھی چھو کر نہیں دیکھا لیکن دوسروں کے دروازے پر پتھر لے کر کھڑے رہتے ہیں۔
انھیں کیا معلوم کہ رات کا دکھ کیا ہوتا ہے لیکن سورج کو اپنی ہتھیلی پر سجانے کا شوق ہے۔ اپنے پیروں پر کبھی کھڑے ہو نہیں سکے لیکن دوسروں کی لاٹھیوں پر اپنا سارا وزن ڈال کر جیت کے ڈھول بجانا چاہتے ہیں۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اندھی ہو چکی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ٹی وی کی اسکرین پر وہ جگمگا گئے تو دنیا بھر کے لاچار انھیں مسیحا سمجھیں گے۔
وہ یہ سب سمجھ ہی نہیں پاتے کہ لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں انھیں فتح نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دور گزر گئے کہ جب بادشاہ سلامت کے آنے سے پہلے ان کے فوجی ہاتھوں میں تلوار لیے سب کے سر، ظل سبحانی کے آگے جھکا دیا کرتے تھے۔ لوگ ساری زندگی چکی چلاتے رہتے ہیں لیکن انھیں آخری وقت تک یہ سمجھ نہیں آتا کہ چکی کیسے گندم کو آٹے میں تبدیل کرتی ہے۔ لوگ کھیل کھیلتے ہیں مگر کبھی کھلاڑی نہیں بن سکتے۔ وہ یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ دنیا کی چمک دھمک سے ہمارے بچوں کی دال روٹی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایک حلقے کی سیاست اور ڈرائینگ روم کی سیاست میں فرق ہوتا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ ہم سب عقل کے اندھے ہیں آپ ہمیں سمجھا دیجیے کہ پشاور کا حلقہ NA1 جہاں سے آپ کو ایک بہت بڑی کامیابی ملی اور جہاں آپ نے صوبائی حکومت تشکیل دی لیکن چندماہ میں بعد ہی لوگوں نے آپ کی جماعت کو ٹھکانے کیوں لگا دیا اور کیوں وہاں سے عوامی نیشنل پارٹی جیت گئی؟ کوئی تو وجہ ہو گئی کہ تحریک انصاف وہاں سے ہار گئی؟ یا پھر دھاندھلی کی گئی ہو گئی؟ تو آپ کی صوبائی حکومت ہوتے ہوئے وہاں سے ناکامی کی وجہ کیا ہے۔ گریبان میں ایک بار جھانک کر ضرور خود سے پوچھیں کہ اس کی وجہ آپ خود تو نہیں ہیں؟
آیئے پھر اُس جگہ جو آپ کا آبائی علاقہ ہے جہاں کے لوگوں نے آپ پر ہمیشہ اعتبار کیا۔ یوں تو آپ کبھی خود کو آدھا پٹھان اور آدھا مہاجر کہتے ہیں۔ لیکن یہ وہ ہی لوگ تھے جنھوں نے آپ کو 2002ء میں بھی جیت سے ہمکنار کرایا تھا اور پھر 2013ء میں ان ہی لوگوں نے آپ کو اپنے کاندھے پر بیٹھا کر ایک بار پھر کامیاب کرایا۔
مگر ایسا کیا جادو ہو گیا کہ کچھ ہی عرصے بعد جس امیدوار کو آپ نے یہاں پر ایک بہت بڑی'' لیڈ'' سے ہرایا تھا اُسی شخص نے آپ کے امیدوار کو بتا دیا کہ جیت کس چڑیا کا نام ہے؟ کیا ہوا ایسا کہ آپ کے گھر والوں نے بھی آپ پر اپنا اعتبار قائم نہیں رکھا؟ کیا اس میں بھی دھاندھلی ہوئی ہے؟ یا پھر آپ تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن آپ کے امیدواروں پر لوگوں کو اعتبار نہیں؟
ایک ماحول بنایا گیا کہ کراچی آپ فتح کر لیں گے۔ میڈیا دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے فتح آپ کا مقدر ہے۔ مگر زمین پر آپ کی موجودگی صرف میڈیا کے ساتھ ہی تھی۔ آپ اُس علاقے کو فتح کرنے کے لیے آئے تھے جس کی تاریخ ہی ہمیشہ طاقت کے خلاف لکھی ہوئی ہے۔
یہ وہ ہی علاقہ ہے جس نے ایوب کے سامنے فاطمہ جناح کا ساتھ دے کر اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور آپ کی نیت بالکل صاف ہو گی لیکن یہاں یہ تاثر سامنے آ چکا تھا کہ آپ یہاں ریاست کی مدد سے آ رہے ہیں۔ میڈیا نے یہ بات شدت کے ساتھ ظاہر کی۔ اور آپ کے لوگ سرعام کہنے لگے کہ نادیدہ قوتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ کا مقابلہ متحدہ سے نہیں تھا بلکہ اس حلقے کی ایک خاص سوچ سے تھا۔ جو سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن یہ حق کسی کو نہیں دیتی کہ کوئی باہر سے آ کر انھیں فتح کرے۔
اسی لیے تو جب بھٹو کے زمانے میں قوانین آئے تو یہاں سب سے پہلے تحریک چلنا شروع ہوئی۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کشمیر میں جا کر کشمیر کے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہاں جا کر اگر آپ کو کراچی کی بات کرنی ہے تو پھر دل ایسے نہیں جیتے جاتے۔
آپ کو کراچی میں آ کر اُس حلقے کو سمجھنا چاہیے تھا کہ جس سے ایک تاریخ وابستہ ہے۔ یہ عام حلقہ نہیں تھا۔ سب یہ بات جانتے ہیں کہ جماعت اور متحدہ اپنے علاقوں میں ووٹرز پر کام کر رہی تھی اور تحریک انصاف کے امیدوار میڈیا سے اپنا کام چلا رہے تھے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر لوگوں کے دل جیتنے کا نام ہی عوامی سیاست ہوتا ہے۔
دوسری طرف اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ متحدہ اپنے ووٹرز کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گئی کہ نادیدہ قوتیں ایک بار پھر اُن کے خلاف ہیں۔ وہ اپنے حمایتیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ میڈیا میں اُس کے خلاف چلائی جانیوالی مہم اور تحریک انصاف بھی اُسی کی ایک کڑی ہے۔ اس میں رینجرز کے کئی اقدامات کو بھی انھوں نے اپنے حق میں استعمال کیا۔
کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ فرسودہ سیاست ہے مگر وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اصل میں یہ ہی سیاست ہوتی ہے جس میں کوئی گروہ اپنے لوگوں کو یہ بتانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اُن کی حمایت اور ووٹ کا وہ ہی حقدار ہے کیونکہ وہ ہی اُن کی بہتر ترجمانی کر سکتا ہے۔ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر تبصرے کرنیوالے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ چھوٹے صوبے، لسانی اکائیاں کس طرح اپنے حقوق کے لیے اٹھتی ہیں۔
وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے۔ پر وہ ہر وقت شاہینوں کے ذریعے اُس سیاسی چڑیا کا شکار کرنے کی کوشش کرتی ہے جس میں ہمیشہ وہ ناکام رہی۔ اصل مقابلے کس کے درمیان تھے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کا اصل مقابلہ جماعت اسلامی کے ساتھ تھا۔
اور وہ اس بات کے لیے تھا کہ اگر متحدہ کمزور ہوتی ہے تو اُس کی جگہ کون لے گا جیسے کہ 2001ء کے بلدیاتی الیکشن میں متحدہ کے نہ ہونے سے جماعت اسلامی کا ناظم منتخب ہوا۔ اسی طرح اب جماعت وہ جگہ لے گی یا پھر تحریک انصاف؟ اس نظر سے دیکھے تو آپ کو اگلے چند ماہ بعد کی سیاست سمجھ میں آ جائے گی۔
دوسری طرف متحدہ کا مقابلہ بہت ساری نادیدہ قوتوں سے تھا۔ کیا متحدہ نے اس جیت کے بعد انھیں کوئی پیغام دیا ہے۔ کیا متحدہ یہ سمجھ رہی ہے کہ اس جیت کے ساتھ ہی اُن کی میڈیا سے شکایات ختم ہو جائیں گی؟ کیا وہ سمجھ رہی ہے کہ اب اس طرح کی پریس ریلیز نہیں آئے گی جس میں لکھا ہو گا کہ ایک سیاسی جماعت کے دہشت گرد پکڑے گئے؟ تو میری ناقص آنکھیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ متحدہ کے لیے آزمائش کے ابھی اور بھی مرحلے ہیں۔
ایسے میں اُسے پیپلز پارٹی کی ضرورت ہو گی اور پیپلز پارٹی بھی اُسی عتاب میں ہے جس سے متحدہ بظاہر گزر رہی ہے۔ جس کا ایک بہت بڑا ثبوت وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا یہ بیان ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ ڈبل سواری پر پابندی کس نے لگائی ہے۔پیپلز پارٹی جس کے ایک اہم جلسے کو میڈیا نے نظر انداز کیا ہوا ہے کراچی کی سیاست اور ملک کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کرے گا۔
پیپلز پارٹی کا یہ جلسہ کئی نادیدہ قوتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی کچھ دن کے لیے اپنا نیا دشمن دے گا۔ مگر میری بات تو یہ ہی ہے کہ جیتے گا وہ ہی جو آسمانوں سے نیچے اتر کر زمین پر آئے گا۔ سُنا ہے کہ لوگوں کو جادو کی جھپی بہت پسند ہے۔ کیونکہ منا بھائی ڈاکٹر نہیں تھا پر جادو کی جھپی سے سب ٹھیک کر دیتا تھا۔ دو جماعتوں میں جادو کی جھپی جلد لگنے والی ہے۔ آپ فلم پوری دیکھیں میں تب تک اگلی فلم کا اسکرپٹ ڈھونڈھ کر لاتا ہوں۔