ہاجرہ مسرور کی یاد میں
ہاجرہ مسرور جیسے لوگ خاندانوں تک محدود نہیں ہوتے یہ تو ہر قسم کی دنیاوی سرحدیں پار کر جانے والے لوگ ہوتے ہیں
یہ 1992ء کی بات ہے، میرے افسانوں کا مجموعہ کتابی شکل میں شایع ہو چکا تھا۔
مجموعے کا نام تھا ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' ستمبر کا مہینہ تھا، میں لاہور گیا، بھائی حبیب جالبؔ سروسز اسپتال میں داخل تھے، ان کی طبیعت بظاہر بحال تھی، ہلکا پھلکا چلتے پھرتے بھی تھے مگر صحت دن بہ دن خراب ہو رہی تھی، میں نے اپنے افسانوں کی کتاب، بستر پر لیٹے ہوئے بھائی صاحب کو دی (اِس وقت جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، ان کا چہرہ میرے سامنے ہے) کتاب دیکھ کر وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ وہ پیار بھری نظروں سے کبھی کتاب کو، کبھی مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھائی جالبؔ کو بتایا کہ ''اگلے ماہ، کتاب کی تقریب رونمائی ہے۔'' یہ سن کر وہ بولے ''میں تقریب میں آئوں گا۔''
بھائی کی بات سن کر میں نے ان سے کہا، ''بھائی آپ کراچی نہیں آئینگے'' وہ پھر بولے، ''نہیں نہیں، میں ٹھیک ہوں اور میں ضرور آئوں گا۔'' میں نے کہا، ''بھائی! آپ کے ٹھیک ہونے کی بات نہیں، دراصل میں خود چاہتا ہوں کہ میری کتاب کی رونمائی میں آپ موجود نہ ہوں، لہٰذا 13 اکتوبر 1992ء کے دن کراچی میں آپ کا داخلہ بند ہے، اس روز اگر آپ کی شہر میں کوئی مصروفیت بھی ہے، تو اسے منسوخ سمجھیں'' میری بات سن کر بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ میرے فیصلے پر خوش تھے، وہ سمجھ رہے تھے کہ میرا چھوٹا بھائی سعید پرویز پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا۔
13 اکتوبر 1992ء بروز منگل ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی تقریب آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی، اور جس جگہ حبیب جالبؔ کو بیٹھنا تھا، وہاں ہاجرہ مسرور بیٹھی تھیں، وہ تقریب کی صدر تھیں۔ جب میں نے ان سے درخواست کی تھی، تو انھوں نے بھی یہ کہا ''جالبؔ صاحب کی صدارت ہونا چاہیے اور یہ کہ میں بھی آ جائوں گی، مگر میں نے ان سے بھی وہی بات کی، جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اپنی کتاب کی تقریب میں اپنے بھائی کی شمولیت کو میں مناسب نہیں سمجھ رہا تھا۔
ہاجرہ مسرور سے ملاقات ان کے گھر پر ہوئی تھی۔ وہ کلفٹن کے علاقے میں رہ رہی تھیں، چائے پر گفتگو ہوئی، ذکر حبیب جالبؔ ہی کا تھا، وہ کہہ رہی تھیں ''جالبؔ صاحب کی استقامت بہت بڑا واقعہ ہے، وہ جالبؔ صاحب کے دوستوں کا ذکر بھی کر رہی تھیں۔ خیر ہاجرہ مسرور صاحبہ کو تقریب میں لانے کی ذمے داری ڈاکٹر مشرف احمد نے قبول کی تھی اور وہی انھیں لے کر آئے تھے، ڈاکٹر مشرف احمد مرحوم کئی سال تک ایکسپریس میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ وہ نیشنل کالج کراچی میں پڑھاتے تھے، مرحوم کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، ہاں البتہ ان کا دوست ہونا بھی کسی اعزاز سے کم بات نہیں تھی۔ اپنی بات کے پکے آدمی تھے، بیٹے کی جواں مرگی نے دنوں میں ان کو ختم کر دیا۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ کی صدارت میں ہونے والی تقریب کے مہمانِ خصوصی سندھی زبان کے صاحبِ طرز افسانہ نگار جمال ابڑو تھے۔ عین تقریب والے دن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ نہ آ سکے تو ان کی جگہ خلیق ابراہیم خلیق اسٹیج پر بیٹھے، ان روز میری کتاب پر احمد ہمدانی، سحر انصاری، سعیدہ گزدر اور ڈاکٹر مشرف احمد نے مضامین پڑھے اور گفتگو کی۔ میری کتاب میں زاہدہ حنا صاحبہ کا مضمون شامل تھا۔ اور کتاب کا سرورق جمیل نقش صاحب نے بنایا تھا۔ تقریب کی نظامت مجاہد بریلوی صاحب نے کی تھی۔
اس وقت میرے سامنے میرا افسانوی مجموعہ ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' اور میری ایک اور کتاب ''گھر کی گواہی'' پڑی ہیں۔ ''گھر کی گواہی'' میں تقریب کی تین تصاویر شامل ہیں۔ ایک تصویر میں گروپ کی صورت ایم بی انجم (سابق کمشنر انکم ٹیکس اور میرے دوست) مجاہد بریلوی، ہاجرہ مسرور صاحبہ، میں، خلیق ابراہیم خلیق اور شفیق عباسی مرحوم کھڑے ہیں۔ شفیق عباسی مرحوم ایڈووکیٹ تھے اور ان کے بڑے بھائی سعود احمد عباسی سابق پرنسپل ایس ایم لا کالج آج بھی حیات ہیں۔
یہ سب لوگ بھی یادوں کے ساتھ ساتھ چلے آئے، تازہ دکھ تو ہاجرہ مسرور صاحبہ کے جانے کا ہے اور یہ سب بھی یاد آ گئے۔ بہت پیارے انسان، بڑے دانشور، کئی اہم کتابوں کے مصنف خلیق ابراہیم خلیق بھی جا چکے۔ احمد ہمدانی بھی چلے گئے۔ ڈاکٹر مشرف احمد بھی بہت جلدی میں تھے۔ سعیدہ گزدر صاحبہ کئی سال ہوئے، بستر پر پڑی ہیں۔ سعیدہ بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، پاکستان میں بائیں بازو کی طلباء تنظیم کے سرخیلوں میں شامل ڈاکٹر مسرور، سعیدہ گزدر کے بڑے بھائی تھے اور سعیدہ کے شوہر مرحوم مشتاق گزدر بھی عوام دوست انسان تھے۔ آرٹ فلمیں ان کا بڑا حوالہ ہے۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ بہت بڑی افسانہ نگار تھیں۔ ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔ میں بھی زمانے کے ساتھ ہوں۔ ہاجرہ مسرور صاحبہ کے خاندان کے بہت سے افراد سے میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب، ظہیر بابر۔ ظہیر بابر روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے، 1964ء میں میٹرک کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے بھائی جالبؔ صاحب مجھے ظہیر بابر صاحب کے پاس لے گئے تھے، (اخباروں میں بورڈ کی طرف سے نتیجہ دو تین روز پہلے آ جاتا تھا) اور ظہیر بابر صاحب نے ہی میرا رول نمبر دیکھ کر یہ اچھی خبر سنائی تھی کہ میں میٹرک پاس ہو گیا ہوں۔ خالد احمد سے راہ و رسم آج بھی جاری ہے، کراچی میں ہمارے حسن عابدی ان کی سرپرستی بھی مجھے حاصل رہی ہے۔
ہاجرہ مسرور جیسے لوگ خاندانوں تک محدود رہنے والے لوگ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ تو ہر قسم کی دنیاوی سرحدیں پار کر جانے والے لوگ ہوتے ہیں، لہٰذا میں پرسا دیتا ہوں زمانے کو، تمام انسانوں کو کہ جن کے لیے ہاجرہ مسرور کا قلم چلتا رہا، خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
مجموعے کا نام تھا ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' ستمبر کا مہینہ تھا، میں لاہور گیا، بھائی حبیب جالبؔ سروسز اسپتال میں داخل تھے، ان کی طبیعت بظاہر بحال تھی، ہلکا پھلکا چلتے پھرتے بھی تھے مگر صحت دن بہ دن خراب ہو رہی تھی، میں نے اپنے افسانوں کی کتاب، بستر پر لیٹے ہوئے بھائی صاحب کو دی (اِس وقت جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، ان کا چہرہ میرے سامنے ہے) کتاب دیکھ کر وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ وہ پیار بھری نظروں سے کبھی کتاب کو، کبھی مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھائی جالبؔ کو بتایا کہ ''اگلے ماہ، کتاب کی تقریب رونمائی ہے۔'' یہ سن کر وہ بولے ''میں تقریب میں آئوں گا۔''
بھائی کی بات سن کر میں نے ان سے کہا، ''بھائی آپ کراچی نہیں آئینگے'' وہ پھر بولے، ''نہیں نہیں، میں ٹھیک ہوں اور میں ضرور آئوں گا۔'' میں نے کہا، ''بھائی! آپ کے ٹھیک ہونے کی بات نہیں، دراصل میں خود چاہتا ہوں کہ میری کتاب کی رونمائی میں آپ موجود نہ ہوں، لہٰذا 13 اکتوبر 1992ء کے دن کراچی میں آپ کا داخلہ بند ہے، اس روز اگر آپ کی شہر میں کوئی مصروفیت بھی ہے، تو اسے منسوخ سمجھیں'' میری بات سن کر بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ میرے فیصلے پر خوش تھے، وہ سمجھ رہے تھے کہ میرا چھوٹا بھائی سعید پرویز پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا۔
13 اکتوبر 1992ء بروز منگل ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی تقریب آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی، اور جس جگہ حبیب جالبؔ کو بیٹھنا تھا، وہاں ہاجرہ مسرور بیٹھی تھیں، وہ تقریب کی صدر تھیں۔ جب میں نے ان سے درخواست کی تھی، تو انھوں نے بھی یہ کہا ''جالبؔ صاحب کی صدارت ہونا چاہیے اور یہ کہ میں بھی آ جائوں گی، مگر میں نے ان سے بھی وہی بات کی، جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اپنی کتاب کی تقریب میں اپنے بھائی کی شمولیت کو میں مناسب نہیں سمجھ رہا تھا۔
ہاجرہ مسرور سے ملاقات ان کے گھر پر ہوئی تھی۔ وہ کلفٹن کے علاقے میں رہ رہی تھیں، چائے پر گفتگو ہوئی، ذکر حبیب جالبؔ ہی کا تھا، وہ کہہ رہی تھیں ''جالبؔ صاحب کی استقامت بہت بڑا واقعہ ہے، وہ جالبؔ صاحب کے دوستوں کا ذکر بھی کر رہی تھیں۔ خیر ہاجرہ مسرور صاحبہ کو تقریب میں لانے کی ذمے داری ڈاکٹر مشرف احمد نے قبول کی تھی اور وہی انھیں لے کر آئے تھے، ڈاکٹر مشرف احمد مرحوم کئی سال تک ایکسپریس میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ وہ نیشنل کالج کراچی میں پڑھاتے تھے، مرحوم کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، ہاں البتہ ان کا دوست ہونا بھی کسی اعزاز سے کم بات نہیں تھی۔ اپنی بات کے پکے آدمی تھے، بیٹے کی جواں مرگی نے دنوں میں ان کو ختم کر دیا۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ کی صدارت میں ہونے والی تقریب کے مہمانِ خصوصی سندھی زبان کے صاحبِ طرز افسانہ نگار جمال ابڑو تھے۔ عین تقریب والے دن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ نہ آ سکے تو ان کی جگہ خلیق ابراہیم خلیق اسٹیج پر بیٹھے، ان روز میری کتاب پر احمد ہمدانی، سحر انصاری، سعیدہ گزدر اور ڈاکٹر مشرف احمد نے مضامین پڑھے اور گفتگو کی۔ میری کتاب میں زاہدہ حنا صاحبہ کا مضمون شامل تھا۔ اور کتاب کا سرورق جمیل نقش صاحب نے بنایا تھا۔ تقریب کی نظامت مجاہد بریلوی صاحب نے کی تھی۔
اس وقت میرے سامنے میرا افسانوی مجموعہ ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' اور میری ایک اور کتاب ''گھر کی گواہی'' پڑی ہیں۔ ''گھر کی گواہی'' میں تقریب کی تین تصاویر شامل ہیں۔ ایک تصویر میں گروپ کی صورت ایم بی انجم (سابق کمشنر انکم ٹیکس اور میرے دوست) مجاہد بریلوی، ہاجرہ مسرور صاحبہ، میں، خلیق ابراہیم خلیق اور شفیق عباسی مرحوم کھڑے ہیں۔ شفیق عباسی مرحوم ایڈووکیٹ تھے اور ان کے بڑے بھائی سعود احمد عباسی سابق پرنسپل ایس ایم لا کالج آج بھی حیات ہیں۔
یہ سب لوگ بھی یادوں کے ساتھ ساتھ چلے آئے، تازہ دکھ تو ہاجرہ مسرور صاحبہ کے جانے کا ہے اور یہ سب بھی یاد آ گئے۔ بہت پیارے انسان، بڑے دانشور، کئی اہم کتابوں کے مصنف خلیق ابراہیم خلیق بھی جا چکے۔ احمد ہمدانی بھی چلے گئے۔ ڈاکٹر مشرف احمد بھی بہت جلدی میں تھے۔ سعیدہ گزدر صاحبہ کئی سال ہوئے، بستر پر پڑی ہیں۔ سعیدہ بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، پاکستان میں بائیں بازو کی طلباء تنظیم کے سرخیلوں میں شامل ڈاکٹر مسرور، سعیدہ گزدر کے بڑے بھائی تھے اور سعیدہ کے شوہر مرحوم مشتاق گزدر بھی عوام دوست انسان تھے۔ آرٹ فلمیں ان کا بڑا حوالہ ہے۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ بہت بڑی افسانہ نگار تھیں۔ ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔ میں بھی زمانے کے ساتھ ہوں۔ ہاجرہ مسرور صاحبہ کے خاندان کے بہت سے افراد سے میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب، ظہیر بابر۔ ظہیر بابر روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے، 1964ء میں میٹرک کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے بھائی جالبؔ صاحب مجھے ظہیر بابر صاحب کے پاس لے گئے تھے، (اخباروں میں بورڈ کی طرف سے نتیجہ دو تین روز پہلے آ جاتا تھا) اور ظہیر بابر صاحب نے ہی میرا رول نمبر دیکھ کر یہ اچھی خبر سنائی تھی کہ میں میٹرک پاس ہو گیا ہوں۔ خالد احمد سے راہ و رسم آج بھی جاری ہے، کراچی میں ہمارے حسن عابدی ان کی سرپرستی بھی مجھے حاصل رہی ہے۔
ہاجرہ مسرور جیسے لوگ خاندانوں تک محدود رہنے والے لوگ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ تو ہر قسم کی دنیاوی سرحدیں پار کر جانے والے لوگ ہوتے ہیں، لہٰذا میں پرسا دیتا ہوں زمانے کو، تمام انسانوں کو کہ جن کے لیے ہاجرہ مسرور کا قلم چلتا رہا، خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)