
یونی ورسٹی ایٹ بفولو کے پبلک ہیلتھ نرس اور اسسٹنٹ پروفیسر اڈریان جواریز کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ صحت کے شعبے میں خدمات فراہم کرنے والے ہی نسل پرستی کو فروغ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے تیسری جنس کے افراد اپنے آپ کوبنیادی ضروریات زندگی سے کوسوں دور کر لیتے ہیں۔ جواریز کا کہنا ہے کہ تصور کریں کہ اگر کسی شخص کو محض نسل پرستی اور تعصب کی بنا پر نوکری دینے سے انکار کردیا جائے تو اس کے پاس اخلاقی جرائم کی پاتال میں گرنے کے علاہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا۔
امریکی ادارہ برائے حقوق تیسری جنس کی شائع ایک رپورٹ کے مطابق بدنامی کے خوف کے علاوہ غربت بھی ایک عنصر جو تیسری جنس کے افراد کے صحت کے مسائل کا سبب ہے جب کہ امریکا کے قومی ادارہ برائے صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک تہائی تیسری جنس میں ایڈز کا مرض پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ سیاہ فام امریکی جو تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں ان میں ایڈز انفیکشن کا خطرہ زیادہ درجے پر پایا جاتا ہے جب کہ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں میں 56 فیصد مخنث ایڈز کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ 2011 میں تیسری جنس کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق 6000 افراد میں سے 90 فیصد بد سلوکی ، نسلی تعصب اور خوف و ہراس کا شکار پائے گئے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔