روش تبدیل کریں

کراچی میں 11 مارچ سے جاری اعصابی جنگ 23اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد اصولی طور پر اپنے اختتام کو پہنچی۔


Muqtida Mansoor April 27, 2015
[email protected]

کراچی میں 11 مارچ سے جاری اعصابی جنگ 23اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد اصولی طور پر اپنے اختتام کو پہنچی۔ ایم کیو ایم نے کل ڈالے جانے والے ووٹوں کا 73 فیصد حاصل کر کے مخالفین کے منہ وقتی طور پر بند کر دیے۔آج کل ایک اشتہار ٹیلی ویژن پر چل رہا ہے، جس میں ایک بچہ دوسرے سے کہتا ہے کہ ''جگہ چھیننی نہیں بنانا پڑتی ہے''۔ یہ جملہ ان جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے، جو سیاسی، سماجی اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر انتخابات جیتنے کے خواب دیکھتی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران رونما ہونے والے واقعات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور بہت سے حقائق کو بے نقاب کیا ہے۔

گزشتہ دنوں تحریک انصاف جس حلقے کو فتح کرنے نکلی تھی، اس حلقے کے اسٹیبلشمنٹ مخالف رجحانات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ جنوری 1953ء کی طلبہ تحریک سے تادم تحریک کراچی کے عوام بالخصوص NA246 کے عوام نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے برخلاف جانے کو ترجیح دی ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف تحریک سے جنوری 1965ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات تک اس حلقے کے عوام نے اپنے جمہوری حقوق کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔

ایوب خان نے کراچی کے شہریوں کے مینڈیٹ کو خوش دلی سے قبول کرنے کے بجائے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنے فرزند کے ذریعے کراچی کے اسی حلقے پر چڑھائی کی تھی۔ لسانی فسادات میں بھی یہ حلقہ سب سے زیادہ متاثر رہ چکا ہے۔ اسی طرح PNA کی تحریک میں بھی یہی حلقہ سب سے زیادہ فعال رہا تھا۔ اس لیے اس حلقے میں کسی بھی ایسی جماعت کی کامیابی ہمیشہ مشکوک رہے گی، جس کے بارے میں یہ گمان ہو کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی عبرت ناک شکست اس شہر کے مزاج سے واقف لوگوں کو بہت پہلے سے نظر آ رہی تھی۔

اس ضمنی انتخاب نے اینکروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی غلط ثابت کیا ہے، جو ایک طرف تاریخ، سیاسیات اور سماجیات کی نزاکتوں سے نابلد ہیں، دوسری طرف ان کی آنکھوں پر شاونزم کی دبیز تہیں جمی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11 مارچ کو بالخصوص اور اس سے پہلے بالعموم عینک لگائے اینکروں اور تجزیہ نگاروں نے کراچی کے الیکشن کے حوالے سے من پسند تجزیے شروع کیے۔ اس کی وجہ سے بھی حلقہ 246 کے عوام نے مجبور کیا کہ وہ اپنی پسند کے امیدوار کو جتوائیں۔ آج کراچی پر تحریک انصاف کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے اینکرز اور تجزیہ نگار کہاں ہیں؟ فوراً ہی چولا بدل کر نئے انداز کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔ لیکن اب ان کا جاود سر چڑھ کر نہیں بول سکے گا۔ کیونکہ ان کے تجزیے جس طرح غلط ثابت ہوئے' انھیں کافی عرصہ تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

انگریزی کی اصطلاح اینکر جس کے لغوی معنی لنگر کے ہیں، جو پانی کے جہاز کو اپنی جگہ پر روکے رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ٹیلی ویژن مذاکروں کے میزبانوں کو اس بنیاد پر اینکر کہا جاتا ہے کہ وہ شرکا کو موضوع سے ہٹنے نہ دیں۔ مگر وطن عزیز میں یہ اینکر صاحبان خود کو منصف (Judge) اور فیصلہ ساز سمجھ بیٹھے ہیں۔ جنھوں نے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے بارے میں مختلف نوعیت کے فتوے صادر کرنے کے علاوہ ان کی کردار کشی بھی شروع کر رکھی ہے۔

11 مارچ کے بعد سے روزانہ شام 7 بجے سے رات 12 بجے تک یہ اینکر صاحبان جس انداز میں تجزئیے کرتے رہے وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ کتنے اینکروں اور تجزیہ نگاروں نے کبھی نبیل گبول سے یہ سوالات کرنے کی زحمت گوارا کی کہ جب پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد جس جماعت نے انھیں سہارا دیا، اسے کیوں چھوڑا؟ اور جب آپ کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ ٹھپوں کی مدد سے جیتے ہیں، تو اس وقت ایم کیو ایم سے الگ ہو جاتے۔ دو برس بعد مستعفی ہونے کی کیا وجوہات تھیں۔ مگر اینکروں کو یہ سوالات نہیں سوجھے، بلکہ وہ اس کوشش میں لگے رہے کہ کس طرح مزید ایسے سنسنی خیز انکشافات حاصل کیے جائیں، جن کے ذریعے ایم کیو ایم کا مزید ناطقہ بند کیا جا سکے جس نے اپنی کلیدی نشست انھیں دی تھی۔ کیا کسی اینکر نے کبھی پیپلز پارٹی کی قیادت سے یہ پوچھا کہ اس نے 45 برسوں کے دوران لاڑکانہ کی نشست کسی باہر کے شخص کو کیوں نہیں دی؟ کیا کسی نے میاں صاحبان سے سوال کیا کہ گوالمنڈی لاہور کی نشست کسی باہر سے آنے والے کو دے سکیں گے؟ مگر اینکروں کو ایسے سوالات پوچھنے کی توفیق نہیں ہو سکتی۔

کراچی کے حلقہ 246 کے عوام نے 23 اپریل کو سب اندازے اور تجزیے غلط ثابت کر دیے۔ اگر کنور نوید کے مدمقابل تمام امیدواروں کے ووٹوں کو جمع کر لیا جائے تو بھی یہ 25 فیصد سے زیادہ نہیں بنتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک طرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ہم رکاب ہے، جب کہ کراچی میں اسی تحریک انصاف کے مدمقابل کھڑی ہو گئی۔ وہ مسلم لیگ (ن) جس کا بظاہر تحریک انصاف سے گہرا سیاسی اختلاف نظر آتا ہے، مگر اسی تحریک انصاف کی حلیف جماعت اسلامی کی کراچی میں حمایت کرتی رہی۔ ان جماعتوں کے رویوں اور طرز عمل نے میرے 16 اپریل کے اظہاریہ کی تصدیق کر دی۔

23 اپریل کے ضمنی انتخاب میں حلقہ این اے 246 کے ووٹروں کی اکثریت نے اپنی دانش سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ معاندانہ پروپیگنڈا ان کی سوچ اور فکری رجحانات کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ یاد رکھا جائے کہ پاکستان ایک وفاق اور جمہوری ملک ہے' جمہوریت، جس کے دعوے کرتے حکمران اور سیاسی جماعتوں کی زبانیں نہیں تھکتیں، انھیں جاننا چاہیے کہ جمہوریت فکری کثرتیت سے عبارت ہے اور بلاامتیاز رنگ، نسل، عقیدہ، لسان اور صنف تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا حکمرانوں کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی روش تبدیل کریں اور عوام کے مینڈیٹ کو خوش دلی سے تسلیم کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں