گاڈفادر
پاکستان کی سیاست اورمعیشت کوصحیح طورپرجانچنا اور سمجھناہے توآپکو "گاڈفادر" ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔
پاکستان کی سیاست اورمعیشت کوصحیح طورپرجانچنا اور سمجھناہے توآپکو "گاڈفادر" ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔ ایسے لگتاہے کہ یہ کتاب چالیس سال پہلے ماریوپوزو نے نیویارک کے متعلق نہیں بلکہ آج کے پاکستان کے متعلق تصنیف کی تھی۔کسی وجہ سے آپ یہ ناول نہیں پڑھ سکتے تو آپ "گاڈفادر"فلم دیکھ کرناول کاپچاس فیصد حصہ سمجھ سکتے ہیں۔
ماریوپوزونے جب یہ ناول لکھاتوشائد سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ وہ فکشن نہیں بلکہ حقیقی دنیاکے اصل کرداروں کے متعلق لازوال داستان رقم کررہاہے۔میں جب بھی نیویارک جاتاہوں توان تمام کرداروں کوتلاش کرنے کی کوشش کرتاہوں جولافانی ہوچکے ہیں۔گاڈفادرکے خاندان، وکیل، معاونین، ان کی ذاتی جرائم پیشہ میلشیاکوبروکلن کے کونے کھدروں میں ڈھنڈونے کی ناکام کوشش کرتاہوں جوشہرپر حکومت کر رہے تھے۔ مجھے امریکا میں یہ سب کچھ نظرنہیں آیا،مگر پاکستان میں اس کہانی کے تمام کردار موجود ہیں۔
پہلی بارجب لاہورمیں"گاڈفادر"فلم دیکھی تو غالباً 79-80ء کازمانہ ہوگا۔ریگل سینمامیں میرے ساتھ میراروم میٹ (Yankee)تھا۔اس کا اصل نام امجدزمان ہے اوروہ ایک مکمل مولوی ہے۔امریکا سے میڈیکل کالج میں پڑھنے کی غرض سے آیاتھا،اس نسبت سے ہم سارے اسے Yankee کہتے تھے۔امجدزمان امریکی لہجے سے انگریزی بولتااورسمجھ بھی سکتاتھا۔میں، نہ اس سطح پرانگریزی سمجھ پاتا تھا اورنہ وہ لہجہ ہی میرے پاس تھا۔ امجدزمان اس فلم کے ہرمکالمہ کو سمجھتاتھا۔ وہ ہمیں فلم کے ڈائیلاگ سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ پہلی بارفلم دیکھنے پرمیں صرف دس فیصدتک سمجھ پایا۔
چونکہ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہور کے تمام طلباء یہ فلم دیکھ رہے تھے۔ذہن میں سوال پیداہواکہ بالاخریہ لکھی کس نے؟ مسئلہ خالدنے حل کردیا۔وہ ماریوپوزوکاناول کہیں سے لے آیا۔میں نے یہ ناول دوتین دن میں پڑھ ڈالا۔اب مجھے کوئی پندرہ فیصدکے قریب فلم اورناول سمجھ آناشروع ہوگیا تھا۔ خالدنے اس ناول کوتقریباًحفظ کرلیا۔اس وقت تک میرے لیے یہ محض ایک تصواراتی عمدہ فلم یاناول سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی۔اس کی ایک بڑی وجہ اپنے ملکی نظام سے مکمل انجان ہونا تھا۔وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ میں عملی زندگی میں اپنے ملک میں اسکو بار بار دیکھوںگا۔ سیاست یاکسی اور چیزمیں کوئی دلچسپی نہیں تھی'طالبعلم ویسے بھی عملی زندگی سے سیکڑوں میل دورہوتے ہیں۔
ظلم یہ ہے کہ جوانھیں بیس سال پڑھایا یا سمجھایا جاتاہے،اس کی عملی دنیاکوئی حیثیت نہیں ہوتی۔میڈیکل کالج عام کالجوں سے مختلف تھا۔ لہذا اکثرطلباء ویسے بھی ایک غیرعملی دنیامیں رہتے تھے۔جس میں غریب مریض کوخون عطیہ کرنے کے لیے درجنوں لوگ تیارہوجاتے تھے۔ جہاں سب ملکرکسی بھی ضرورت مندانسان کودوائیاں خریدکردے دیتے تھے۔کسی لالچ،تشہیریاصلے کے بغیر!میں اس تمام جذبے کوغیرحقیقی اسلیے کہہ رہاہوں کہ اصل دنیامیں یا مقتدرحلقوں میں ذاتی فائدہ کے سوا کوئی متحرک جذبہ موجود نہیں۔
گاڈفادر سسلی(Sicily)سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے۔سسلی میں یہ نظریہ راسخ ہے کہ دنیامیں بے حدمشکلات ہوتی ہیں۔اس لیے آپ کو اصل والدکے ساتھ ساتھ ایک اوردنیاوی والدکی ضرورت پڑتی ہے۔ اسے Godfatherکانام دیاجاتاہے۔گاڈفادرکوایک مکمل مذہبی رسم کے ذریعے وہ تما م حقوق حاصل ہوتے ہیں جو صرف اصل والدکے دائرہ کارمیں ہوتے ہیں۔ رسم کی ادائیگی بہت سے لوگوں کی موجودگی میں کیجاتی ہے اوراس میں خاندان کے تمام افرادبمعہ اہل وعیال شریک ہوتے ہیں۔ سماجی تقریب کو سرِعام کرنے کاواحدمقصدیہ ہے کہ تمام لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ اب اس بچے یافردکے سرپرایک مضبوط آدمی کا ہاتھ ہے جواسے کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔وہ شخصGodfatherکے نام سے پہچاناجاتاہے۔
سسلی سے امریکا ہجرت کرنے والایہ خاندان ایک نوجوان،اہلیہ اورتین بچوں پرمشتمل ہوتاہے۔ اس نوجوان اور اس کے خاندان کاجرائم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر نیویارک ہیں' اس نوجوان کامختلف جرائم پیشہ لوگوں سے میل جول بڑھ جاتاہے۔اس نوجوان کی عجیب وغریب عادات ہوتیں ہیں۔ وہ کسی سے لڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔وہ ہرشخص کومیز پربٹھا کر مسئلہ کودلیل اور مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اس کو جس شخص سے کام پڑتاہے،وہ اس کے پاس جاتا ہے۔ اسے باربار سمجھاتاہے کہ دراصل وہ ایک احسان (Favour) لینے کے لیے آیا ہے، جسکو کچھ مدت کے بعدواپس کردیگا۔ ہر شخص کوکہتاہے کہ میری اس وقت تک تمہارے ساتھ کوئی لڑائی نہیں جب تک میرے اور تمہارے مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوتا! نوجوان کی اس صلاحیت کی بدولت مختلف لوگ اپنے مسئلے لے کر آتے ہیں اوروہ انکوحل کرنے کی پوری کوشش کرتاہے اورکبھی ناکام نہیں ہوتا۔
جوانی سے بڑھاپے تک کے سفرمیں وہ اپنے دوبہترین دوستوں کے ساتھ جرائم کی دنیامیں بہت آگے بڑھ جاتاہے۔ انکو مافیا کی زبان میں Capporegimes کہاجاتاہے۔ان کے پاس جرائم پیشہ لوگوں کی ایک فوج ہوتی ہے۔ Godfather آہستہ آہستہ اتناطاقتورہوجاتاہے کہ عدلیہ کے ججز،پارلیمنٹ کے بااثرارکان،سیاستدانوں کاموثر حلقہ، سب لوگ اس کی جیب میں ہوتے ہیں۔وہ ہرکام کی بھرپور فیس لیتاہے اورانتہائی ایمانداری سے اپنے دوستوں کے مفادات کاخیال رکھتاہے۔ہالی وڈکے بہترین گلوکار اور اداکار، بڑے بڑے رول حاصل کرنے کے لیے گاڈ فادر سے رجوع کرتے ہیں۔دنیا کودکھانے کے لیے وہ زیتون کے تیل کا کاروبار کرتاہے مگربیس سال کے عرصے میں وہ نیویارک کے ایک حصے کا زیرزمین مالک بن جاتاہے۔بے تاج بادشاہ!
گاڈفادرکومنشیات سے نفرت ہوتی ہے۔وہ منشیات کے سوداگروں کوپناہ دینے سے انکارکردیتاہے۔مگر انھیں اس کام سے روکتا نہیں۔یہ ضرور کہتا ہے کہ اس کے مفادات کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچناچاہیے۔یہاں سے یہ کہانی جرائم کی دنیاکی خوفناک راہوں پرسفرکرنا شروع کردیتی ہے۔ منشیات کے سوداگرگاڈفادرکے مخالف گروہوں سے مل جاتے ہیں۔اب انکاایک ہی مقصدہوتاہے۔اپنے منشیات کے کاروبارکوترقی دینے کے لیے ہررکاوٹ کودورکرنا۔چنانچہ پہلے حملے میں گاڈفادر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔اس کے خاندان میں سے داماد کو خریدلیا جاتاہے۔دامادکے توسط سے گاڈفادرکے بڑے بیٹے کوقتل کردیاجاتا ہے۔ گاڈفادر کا چھوٹا بیٹا فوج میں افسرہوتاہے۔وہ اپنے والدپرقاتلانہ حملہ کرنے والے منشیات کے سوداگراوراس کے پارٹنر پولیس افسرکوقتل کردیتاہے ۔
گاڈفادرٹھیک ہونے کے بعد نیویارک کے تمام جرائم پیشہ سرکردہ لوگوں کی میٹنگ بلاتاہے اوراپنے بیٹے کاقتل معاف کردیتاہے۔مگراسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بیٹے کوقتل کس نے کیاہے۔مافیاکاپہلااصول ہے کہ غلطی کی کوئی معافی نہیں۔ گاڈفادرکاچھوٹابیٹااپنے والدکی ریٹائرمنٹ کے بعد جرائم کاساراکام خودسنبھال لیتاہے۔وہ اپنی دولت کو نیویارک سے باہر ان علاقوں میں منتقل کرتاہے جہاں ہوٹل اورجوئے کا کاروبار ہو۔ نیویارک چھوڑنے سے پہلے وہ اپنے والدکے تمام مخالفین کوانتہائی سفاکانہ طریقے سے قتل کرواتاہے۔اپنے گروہ میں معتمدخاص کو سب کے سامنے مرواتاہے کیونکہ وہ مخالف گروہ کے ساتھ مل چکاہوتاہے۔آخرمیں اپنے سگے بہنوئی کواپنی آنکھوں کے سامنے کارمیں رسی سے پھانسی دلواتاہے،کیونکہ وہ اس کے بڑے بھائی کے قتل میں ملوث ہوتاہے۔اس کے بعداسکاتمام کاروبارقانونی ہوجاتاہے اورنیویارک سے ایک اوربڑے شہرمیں ہجرت کرجاتاہے۔
پوری کہانی میں ویسے توبے پناہ سبق ہیں۔مگرسب سے اہم یہ کہ مافیاکی دنیامیں غداری کی کوئی معافی نہیں۔سب کچھ صرف اورصرف ذاتی مفادات کاکھیل ہے۔ذاتی مفاد کا حصول ہی سب سے بڑااورمستحکم اصول ہے۔اب آپ اس کہانی کے پسِ منظرمیں اپنے ملک کاجائزہ لیجیے۔ آپ کو ہر شعبہ میں مافیا نظرآئیگی۔ایک دنیاوہ ہوگی جس کا ڈھنڈورا پیٹا جائیگا۔جہاں غریب کی دہلیزپرانصاف پہنچانے کی بات ہوگی،سب شہریوں کے لیے یکساں روزگارکے مواقع ہونگے، میرٹ اورصرف میرٹ کی حکمرانی کادعوی ہوگا۔مگراصل کام اس کے بالکل برعکس ہوگا۔ہرجگہ پیسہ، طاقت اورقتل وغارت کانظرنہ آنے والانظام ہوگا۔گاڈفادرہونگے اوریہی نظرنہ آنے والاملک کااصل نظام ہوگا۔پاکستان کے متعلق یہ بات دوسو فیصد درست ہے۔
آپ کوجوکچھ بتایاجاتاہے،آپ اس کے الٹ سوچنا شروع کردیں، تمام معاملات سمجھ آجائینگے۔ آپ Competition Commissionکی رپورٹ پڑھ لیجیے۔اسے اس وقت کے چیئرمین خالدمرزانے ترتیب دیا ہے۔تمام بڑے کاروباری اداروں کے خلاف ثبوت مہیاکیے ہیں کہ یہ (Cartel) گروہ کی طرح کام کرتے ہوئے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ خالدمرزا نے سرکاری حیثیت میں ہمارے ملک کے طاقتور ترین کاروباری اداروں کو کروڑوں روپیہ جرمانہ کیا ہے۔آپ خالد مرزا کو چھوڑیے، یہاں ہرشعبہ ایک مافیاکی طرح چلایا جاتا ہے۔ اورتواور،اس میں مذہبی، لسانی اورعلاقائی گروہ بھی شامل ہے۔مگراس اَن دیکھے نظام کی معراج ہماری سیاست اور اس سے منسلک پیسہ کاکھیل ہے۔ تمام ترمقصد صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت کرناہے۔
مجھے تیس سال کی سرکاری نوکری کے بعدبھی گاڈفادرکی فلم کچھ کچھ سمجھ آئی ہے۔مکمل طورپرسمجھنے کے لیے پتہ نہیں، اورکون کون سے عذاب دیکھنے پڑینگے!