تحقیق اور غیر جانبداری ضروری ہے
بھتہ خوروں کے بعد اغوا برائے تاوان نے کراچی کے شہریوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
کراچی کا ہر شہری کراچی کے عشروں سے بگڑے ہوئے حالات سے نالاں ہے اور اس میں مثبت تبدیلیوں کا خواہش مند ہے، یہ ایک حساس اور انتہائی نازک مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کے لیے ساری بصیرت، بردباری، سنجیدگی، غیر جانبداری کی ضرورت ہے، اس شہر کی انتہائی پیچیدہ صورتحال کو سمجھے بغیر ناک کی سیدھ میں کارروائی شروع کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہر خوف و ہراس کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ نتیجہ سوائے وقتی کامیابی کے کچھ نہیں نکلتا۔ شہر جن مسائل کا شکار ہے ان میں اہم ترین مسائل دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بڑی بڑی بینک ڈکیتیاں وغیرہ ہیں۔
ایک شکایت جو عام ہے' وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگ بنا رکھے ہیں، جو شہر کی صورتحال کو خراب کرنے کا ایک اہم سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ شکایت غلط نہیں بلکہ سو فیصد درست ہے، یہ عسکری ونگ یا تھنڈر اسکواڈ کسی ایک جماعت کا ''سرمایہ'' نہیں ہے بلکہ کئی جماعتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ بعض جماعتوں کی تو تاریخ ہی تھنڈر اسکواڈ سے شروع ہوتی ہے۔ 1967ء میں جب نیپ اور این ایس ایف کے ورکر امریکی سامراج جاگیرداری نظام سرمایہ داری نظام کے خلاف وال چاکنگ کرتے تھے تو ان مقدس جماعتوں کے مجاہدین ڈنڈے لاٹھیاں لے کر ان کارکنوں پر ٹوٹ پڑتے تھے، تعلیمی اداروں میں مخالف طلبا تنظیموں پر حملے، ماردھاڑ ان مجاہدین کا منشور تھا۔
کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کراچی کے عوام کی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں، جب کراچی کے شہری روزگار اور تعلیم کے لیے صبح گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے بیوی بچے، ماں باپ، بھائی بہن ان کی خیریت سے گھر واپسی کے لیے دست بہ دعا رہتے ہیں۔ اس دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا ماخذ مذہبی انتہاپسندی ہے جو وزیرستان سے آئی ہے۔ ہماری حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی سب سے بڑی وجہ مذہبی انتہاپسندی ہے۔ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ بھتہ خوری ہے اور بھتہ خوری کی بیماری کسی ایک جماعت کی بیماری نہیں بلکہ اس میں بے شمار گروہ ملوث ہیں جن کا عمومی تعلق کراچی سمیت مختلف علاقوں سے ہے۔
بھتہ خوروں کے بعد اغوا برائے تاوان نے کراچی کے شہریوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم میں کراچی کے علاوہ کئی علاقوں کے جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں۔ بڑی بڑی بینک ڈکیتیاں کراچی میں روز مرہ کا معمول بنی ہوئی ہیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ بینک کے گارڈ اور چوکیدار ان ڈکیتیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ اور سیکیورٹی ادارے اس حقیقت کو بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ بھتہ، اغوا اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعے کراچی کے عوام سے لوٹی ہوئی اربوں روپوں کی رقم دہشت گرد تنظیموں کو ان کے علاقوں میں پہنچائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے بھاری رقم کی شمالی وزیرستان منتقل کرنے کی باثبوت خبریں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔
منشیات اور ہتھیاروں کی تجارت بڑے پیمانے پر دولت کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہ دولت بھی دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار ممکن نہیں کہ نہ منشیات کراچی میں پیدا ہوتی ہے، نہ ہتھیار کراچی میں تیار ہوتے ہیں، ان دونوں اشیا کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز سہراب گوٹھ ہے، جہاں آئے دن پولیس اور رینجرز کو ان مجرموں کا سامنا رہتا ہے۔ میڈیا میں یہ خبریں عام ہیں کہ اس کاروبار کے ڈانڈے بھی دہشت گردوں سے ملتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایلیٹ سے تعلق رکھنے والی بعض معزز شخصیات منشیات اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، ایک ماڈل آیان کا تازہ کیس ہمارے سامنے ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آیان جیسی ماڈلز کو ایلیٹ کے لوگ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان چند حقائق کی نشاندہی ہم نے یہاں اس لیے کی ہے کہ کراچی میں ہونے والے جرائم و دہشت گردی اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ جیسے گھناؤنے جرائم کو سمجھنے اور ان کی گیرائی، گہرائی اور وسعت کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ 16 اپریل کو جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر، جن کا تعلق امریکا سے ہے، قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ مذکورہ پرنسپل 1998ء سے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے وابستہ ہیں۔
ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کی تباہ کن صورتحال میں کون کون سی طاقتیں ملوث ہیں اور ان کے نظریات کیا ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کراچی کو اس عشروں پر پھیلی ہوئی تباہ کن صورتحال سے نکالنے کے لیے اس کا گہرائی سے جائزہ لینے، اس کی وسعت اور ملٹی پل مقاصد کو سمجھنے اور اس کے مختلف اور متضاد کردار کو نظروں میں رکھ کر کوئی جامع حکمت عملی بنانے کے بجائے ناک کی سیدھ میں دیکھا جا رہا ہے جس کا نتیجہ مزید انارکی، امن وامان کی مزید بربادی کے علاوہ کیا نکل سکتا ہے۔کراچی میں تارکین وطن کی تعداد 50 لاکھ بتائی جاتی ہے جن میں 20 لاکھ صرف بنگالی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی حماقتوں اور نااہلیوں کی وجہ سے کراچی میں بے شمار جرائم پیشہ گروہ فعال ہو گئے، کراچی کے شہری اخباروں میں یہ خبریں پڑھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں خود قانون کے محافظ بھی ملوث ہیں، جنھیں رنگے ہاتھوں پکڑا جا رہا ہے اور سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ ہمارے شہر کے بارے میں یہ خبریں نئی نہیں ہیں کہ یہاں تھانے نیلام ہوتے ہیں، جوئے، منشیات اور ہتھیاروں کی فروخت کے اڈے پولیس کی سرپرستی میں چلتے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کرمنالوجی پر بڑی تحقیق ہوتی ہے اور جرائم کی معاشی معاشرتی نظریاتی اور نفسیاتی وجوہات کو تلاش کر کے اس کی روشنی میں ایک منظم اور مربوط پلان کے تحت جرائم کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بدقسمتی سے ہماری حکومت اور اس کے ادارے اس جھنجٹ میں پڑنے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ کرمنالوجی کی اے بی سی سے ناواقف ماہرین اور حکام کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے ذریعے کراچی کے بے انتہا پیچیدہ پھیلے ہوئے متضاد مقاصد کے حامل حالات کو ایک اندھی لاٹھی کے ذریعے ناک کی سیدھ میں جاتے ہوئے بہتر بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جب تک کوئی کارروائی غیر جانبدارانہ غیر متعصبانہ اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کی جاتی نتیجہ ہمیشہ صفر ہی ہو گا۔