خوش ہوجاؤ نوجوانو
میٹرک سے قبل عمر پندرہ سولہ برس ہی کی ہوسکتی ہے، جسے ٹین ایج کہتے ہیں۔
نوجوانو! آپ سے کہا جائے کہ یہ کتاب نہ پڑھیں تو آپ میں الجھن پیدا ہوگی کہ کیوں؟ نوجوانوں سے کتاب پڑھنے کی بات کو لطیفہ نہ سمجھیں۔ کہا جائے یہ فلم نہ دیکھیں تو سب سے پہلے وہی فلم دیکھی جائے گی کہ یہ انسانی فطرت ہے۔ یورپ و امریکا میں کچھ فلمیں صرف بڑوں کے لیے ہوتی ہیں۔ ان پر ''صرف بالغان کے لیے'' تحریر کردیا جاتا ہے۔ جب ضیا دور سے قبل پاکستان میں انگریزی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتیں تو گوروں کی نقل میں Only for Adults کا ترجمہ کرکے فلموں کو کامیاب بنوایا جاتا۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ نویں کلاس میں ہوا۔
میٹرک سے قبل عمر پندرہ سولہ برس ہی کی ہوسکتی ہے، جسے ٹین ایج کہتے ہیں۔ ''تفہیم القرآن'' کی چھ سات سورتیں نصاب میں تھیں۔ ساتھی بھی ہم سے دو چار بڑے ہوتے تھے۔ یہ بڑائی یوں بڑھ جاتی کہ اسکول میں پڑھنے والے حیرت سے کہتے کہ یہ کالج میں پڑھتے ہیں۔ کم عمری کے باعث کہا گیا کہ آپ یہ مت پڑھیے گا۔ پھر ہوا کیا؟ ہم نے سب سے پہلے وہی صفحات نکالے جسے پڑھنے سے منع کیا گیا تھا۔ یوں ایک طرف سے کچھ کتب کے پڑھنے کا موقع ملا۔ آج کے نوجوان کیوں کر خوش ہوں؟
کون سا کالم نگار لڑکپن سے اخبارات نہ پڑھتا ہوگا۔ کالم نگاروں کا لڑکپن کے عنوان سے ایک کالم بڑے عرصے سے لکھا ہوا ہے۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والا ہر فرد یہ کام کرتا ہوگا۔ پہلے خبروں کی سرخیاں اور پھر تفصیل اور پھر بقیہ۔ لڑکپن ہی کے زمانے میں کھیلوں، نوجوانوں اور فلمی صفحات کا مطالعہ۔ آہستہ آہستہ اخبارات کو مراسلات لکھنا اور پھر سیاسی معاملات پر تفصیلی خطوط۔ کھیلوں، خواتین اور نوجوانوں کے صفحات پر کالجز اور جامعات کے حوالے سے قلم آرائی۔ آہستہ آہستہ کالم نگاری۔ جو یہاں آگئے اور مستقل لکھنے کا معاملہ جنھیں درپیش ہے انھیں زیادہ مطالعے کی ضرورت ہے۔ سیاسی موضوعات پر کتابوں کا خریدنا۔ جو نوجوان اس شعبے میں آنا چاہتے ہوں انھیں نیٹ یا فیس بک ہی سہی، پڑھاکو کا الزام تو سہنا ہوگا۔ ہماری اور آج کے جوانوں کی جوانی میں کیا فرق ہے؟
وکیلوں کو ہر ماہ قانونی کتب کے علاوہ تین چار رسائل جن میں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، شرعی عدالتوں کے علاوہ کسٹم، انکم ٹیکس اور لیبر سے متعلق اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے پڑھنے ہوتے ہیں۔ سب کے سب نہ بھی پڑھیں تو سرسری طور پر فٹ نوٹس کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ آدھا دن عدالتیں اور اس کے بعد فرصت کے چند لمحے۔ فیض کو تو فرصت گناہ کے چار دن ملے تھے لیکن ہمیں چند گھنٹے۔ ''گناہ مطالعہ'' کے چند لمحے۔ ہم نے حوصلے دیکھ لیے اس لیے بے حس معاشرے اور بے جان مشینوں کے۔ اس سارے معاملے میں آج کے نوجوانوں کی خوشی کہاں سے آگئی؟
صدی کا آخری عشرہ بلکہ آخری چند سال آئے تو موبائل فون سامنے آگیا۔ ٹیلی فون عام ہونے لگے۔ ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے اور ہاتھوں میں رہنے لگے۔ ایک دور تھا کہ ٹیلی فون اسٹیٹس سمبل ہوا کرتے تھے۔ کسی سرمایہ دار کو ڈراموں اور فلموں میں دکھانا ہوتا تو چار پانچ رنگ برنگے فون اس کے دفتر کی میز پر رکھے ہوتے۔ نئے نئے امیر کو اپنی برتری جتانی ہوتی تو وہ پوچھے گئے فون نمبر کے ابتدائی ہندسوں کے بعد اکہتر، بہتر، تہتر، چوہتر اور پچھتر دہرا کر بتاتا کہ اس کے دفتر میں کتنے سارے فون ہیں۔ موبائل فون عام ہوا تو یہ پہلے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے بعد افسران اور خوشحال لوگوں سے ہوتا ہوا مڈل کلاس تک آیا۔ تیزی سے سفر کرتا ہوا مالی، پینٹر، چوکیدار حتیٰ کہ گھریلو ماسیوں اور فقیروں تک آگیا۔ اس نے رابطے کے ذریعے کو بڑھا دیا لیکن مطالعے کے وقت میں کمی کردی۔ یہ مشینوں کی حکومت کی ابتدا تھی۔ ایسی مشین جو ہر وقت آدمی کے ہاتھ میں، جیب میں یا میز پر حتیٰ سوتے وقت اس کے بستر کے پاس ہوتی ہے۔ کیا علامہ نے دل کے لیے موت ایسی مشینوں کو قرار دیا تھا؟ اس میں نوجوانوں کا کیا قصور؟
پرانی صدی ختم ہوئی تو اکلوتے پی ٹی وی کی اجارہ داری بھی ختم ہوگئی۔ چینلوں کی بہار نے خبروں کے بہاؤ کو تیز کردیا۔ آٹھ بجے ڈرامے اور نو بجے خبرنامہ یاد ماضی بن گیا۔ ہر وقت ٹی وی اور ہر جگہ ٹی وی۔ بار روم سے ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ سے ہوٹل تک۔ یہ نئی صدی کے پہلے عشرے کی بات تھی۔ دو صدیوں کے سنگم پر موبائل فون اور ٹی وی چینلز انسانی وقت کا بڑا حصہ لینے لگے۔ اخبارات کب پڑھیں اور کتابوں کا مطالعہ کب کریں؟ یہ سوال دانشوروں کی نظروں سے گزرا۔ وہ نئی نسل سے شکایت کرتے نظر آئے کہ ان میں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے۔ کتابوں کے مطالعے میں نمبر ون آنے والے ایک غازی نے شکایت کی کہ یونیورسٹیز کے سیکڑوں طلبا و طالبات سے پوچھا جائے کہ وہ آج کل کورس کی کتابوں کے علاوہ کیا پڑھ رہے ہیں تو جواب خاموشی میں ملتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں جب سوال کے جواب میں چپ رہتے ہیں تو اس میں خوش ہونے کی کیا بات ہے؟
ہر عشرے کا ایک حملہ۔ پہلے عشرے میں موبائل فونز تو دوسرے عشرے میں ٹی وی چینلز تو تیسرے عشرے میں فیس بک آگئی۔ عام آدمی کے ہزاروں دوست تو پرویز مشرف کے لاکھوں چاہنے والے تو بھارتی اداکاروں کے کروڑوں پرستار۔ اب دن کا بڑا حصہ یہ اسمارٹ فون لے جائے تو کتابوں کا مطالعہ نوجوان تو نوجوان ادھیڑ عمر بھی کب کرے؟ کہیں دو نسلوں کا کوئی سنگم ہے؟
مشینوں کی حکومت واقعی دل کے لیے موت ہے؟ آلات احساس مروت کو کچل دیتے ہیں؟ علامہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے خود ہی کہا کہ دل کے پاس پاسبان عقل کو ہونا چاہیے پھر خود ہی اسے تنہا چھوڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں میں باتوں میں دل موہ لیتا ہوں اور صرف گفتار کا غازی ہوں کردار کا نہیں۔ ان ہی باتوں کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق سے ادھورا اتفاق کرتے ہیں۔ اقبال نے جنریشن گیپ ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔ علامہ نے جوانوں کو پیروں کا استاد بننے کا کہا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی میں یہ نظر آتا ہے۔ آپس میں پیغامات کے تبادلے نے دوستوں کو نہ بھلانے کا سبب پیدا کیا ہے۔ فون نے رابطوں کو بڑھا دیا ہے۔ فیس بک نے تو عشروں کے بچھڑے لوگوں کو قریب کردیا ہے۔ چینلز نے کالم کا ہاتھ روکا ہے اور مظلوموں کی دادرسی کا ذریعہ پیدا کیا ہے۔
بزرگو! نئی نسل اس طرح کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتی جو ذوق ان کے والد اور چچاؤں میں تھا۔ یہ حقیقت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نوعمروں کا شعور اور سمجھ بہت بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر کی معلومات ان کی مٹھی میں ہے۔ نوجوانوں کی انگلی کے اشارے پر علم کی دنیا ان کے سامنے غلام کی طرح حاضر ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ آپ اور ہم علم کے پیاسے ہوں اور لائبریری کے دریا پر پیاس بجھانے جاتے ہوں۔ نئی نسل کے سامنے علم کے سمندر خود حاضر ہو رہے ہیں۔ آج کے نوجوان مشینوں کے غلام نہیں بلکہ ان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
نوجوانو! سنو یار! مطالعہ پھر بھی ضروری ہے۔ آئی پیڈ پر کوئی ناول، افسانہ، شاعری، اخبارات اور ڈرامہ ہی پڑھ لیا کرو۔ کبھی غالب، اقبال، فیض، قاسمی، فراز کے اشعار تو کبھی نسیم حجازی اور ابن صفی کے ناول۔ مہینے میں ایک کتاب ہی سہی۔ گوگل پر تحریک پاکستان کے قائدین کے حالات زندگی پڑھ لو۔ یوں ہم تم میں قرار پیدا ہوگا گیپ نہیں۔ چلو یہ بتاؤ کیسے لڑا تمہارا مقدمہ؟ ہمیں بھی خوش کردو اور تم بھی خوش ہوجاؤ نوجوانو!