بنیادی ضرورتیں کیا ہیں
ویسے تو انسان کو جینے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ISLAMABAD:
ویسے تو انسان کو جینے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آ ٹا، چاول، تیل، چینی، دودھ، گوشت، آ لو،نمک وغیرہ مسلسل میسر نہ ہو تو وہ دو یا تین دن سے زیا دہ نہیں جی سکتا۔ ہمارے حکمران اربوں روپے غیر پیداواری اخراجات، ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں، سیٹلائٹ فون، کاسمیٹکس، قیمتی سگریٹ ، سگار اور اسلحے پر خرچ کرتے ہیں،ہم ایٹم بم تو بنا لیتے ہیں، ٹینک بنا لیتے ہیں، میزائل بنا لیتے ہیں لیکن عوام کوکھانے کے لیے دو وقت کی روٹی مہیا نہیں کرسکتے۔
سی این جی کی قلت ہے، پینے کا پانی تک مہیا نہیں کرسکتے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں آٹا انیس رو پے کلو بک رہا ہے جب کہ ہمیں46رو پے کلو خریدنا پڑتا ہے، عالمی مارکیٹ میں چاول50 روپے کلو ہے اور ہم 150روپے میں خریدتے ہیں، تیل95 رو پے کلو ہے اور ہم180 روپے کلو خریدتے ہیں،چینی عا لمی مارکیٹ میں 36 روپے کلو ہے جب کہ عوام55 رو پے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں گیہوں200ڈالر فی ٹن ہے جب کہ پاکستان میں450 ڈالر فی ٹن ہے۔ ہم مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں اور ہمارے ملک میں42ملین ٹن گیہوں عوام کی ضرورت سے زا ئد کے ذخائر موجود ہیں۔
مزید برآں حال ہی میں حکومت نے گندم کی درآمدات پر 25فیصد کی ڈیوٹی لگا دی ہے جس میں باہر سے سستا آٹا کوئی نہ درآمد کرسکے۔ چینی عالمی مارکیٹ میں36روپے کلو ہے جب کہ پاکستان میں چینی55 رو پے کلو فروخت ہو رہی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عوام کو مہنگی چینی بیچی جارہی ہے اور عالمی منڈی میں فروخت کے لیے حکو مت نے مل مالکان کو ڈھائی ارب رو پے زرتلافی دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہم کھربوں رو پے اسلحہ بنانے اور جنگی شعبے پرخرچ کر تے ہیں اورعوام کو فاقہ کشی یا نیم فا قہ کشی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے اپنی حکومت میں اعلان کیا تھا کہ جن کی تنخواہیں چار ہزار ہندوستانی رو پے سے کم ہے انھیں آٹا دو رو پے کلو اور چاول تین رو پے کلوکے حساب سے فرا ہم کیا جا ئے گا، جس کی سبسڈی حکومت بر داشت کرے گی، اس سہولت سے پچاسی کروڑ عوام کو فائدہ ہوگا۔
پاکستان میں عجیب بات ہے کہ کسانوں سے چاول پچاس روپے کلوخریدا جا تا ہے اورعوام کو ایک سو پچاس رو پے میں بیچا جاتا ہے۔ کسانوں کو پچاس روپے کلو چاول بیچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ چاول اور دیگراجناس کی پیداوار میں بجلی، پانی،کھاد اور بیج پر حکومت پاکستان کسانوں کو جو سبسڈیز دیتی ہے وہ انتہائی کم ہے جب کہ ہندوستان کی حکومت بجلی، پانی، کھاد اور بیج میں خاصی سبسڈی کسانوں کو دیتی ہے۔ حال ہی میں پنجاب کے بیس ہزارکسانوں نے اپنے دیرینہ مطالبات پہ گزشتہ دنوں 'کسان اتحاد' کی جانب سے لاہور کے لیے مارچ کیا۔ اس ریلی میں خانیوال، رینالہ خورد، ساہیوال، قصور، منڈی بہاؤ الدین، سرگودھا، پنڈی، فیصل آباد، سیالکوٹ اور اوکا ڑہ سے ہزاروں کسانوں نے شرکت کی۔ حکومت پنجاب نے ریلی کو لاہور میں داخل ہو نے سے روکے رکھا، ان پر لاٹھی چارج اور تشدد کیا پھر چو دہ سوکسانوں کو گرفتار کرکے سول لا ئن اور ریس کورس لاک اپ میں قید کیا گیا۔ ان کسان رہنماؤں سے انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرزموومنٹ کے رہنماؤں خالد بھٹی، جواد احمد اورنیشنل آرگنا ئزر طارق شہزاد نے ملا قات کی۔
یہ رہنما کسانوں کے شانہ بشانہ ریلی میں اور احتجاج میں بھی شریک رہے۔ان کی شرکت کی وجہ سے میڈیا نے خبر نشرکی تو حکو مت ان تمام کسان کارکنان کو رہا کر نے پر مجبور ہوئی۔آخرکار حکو مت اس بات پر بھی مجبور ہوئی کہ کسانوں سے مذاکرات کرے۔ مذاکرات کے لیے کسانوں کی جانب سے 'پنجاب کسان اتحاد' کے چیئرمین چوہدری انور، صدر راؤ طارق عزیز، جنرل سیکریٹری اشتیاق، نائب صدر ارشد لا لیکا، ساہیوال کے صدر احمد بلال، کوآرڈینیٹر ملک ذوالفقاراعوان، قانونی مشیرفیاض عظیم جب کہ پنجاب حکومت کی جا نب سے ایم این اے حمزہ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، وزیرآب پا شی یاور زمان، سیکریٹری لا اینڈ آڈر سلمان غنی، مشیر وزیر اعلیٰ ارشدبٹ، کمشنر لاہور عبداللہ، ہوم چیف سیکریٹری اور سیکریٹری فوڈ شا مل تھے۔مذاکرات کے بعد یہ طے پا یا کہ 1۔ اجناس کی قیمتوں میں اضا فہ کیا جائے گا،2۔ مارکیٹ کمیٹی میں کاشتکا روں کو شامل کیا جائے گا،3۔ خریداری کمیٹی میں بھی کسان نمایندوں کو شریک کیا جائے گا ۔ ،4 ۔ پانی بجلی،کھاد اور بیج پر کسانوں سے وا پس لی گئی سبسڈی بحال کی جائے گی، 5 ۔ پاکستانی کسان جو اجناس خودپیدا کرتے ہیں انھیں ہندوستان سے خریدا نہیں جائے گا۔
وا ضح رہے کہ ہندوستان کی حکو مت بڑے پیمانے پر اپنے کسانوں کو پانی، بجلی،کھاد اور بیج میں سبسڈی دیتی ہے۔ جب کہ پا کستانی حکومت برائے نام دی جانے والی سبسڈی بھی کسانوں سے واپس لے لی ہے۔ پا کستانی حکومت آلو، پیاز، لہسن، ٹماٹر، گاجر، مرچ اور دالیں وغیرہ ہندوستان سے درآمد کرتی ہے جب کہ یہ اجناس ہمارے کسان خود پیدا کرتے ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ چیزیں حکو مت ضرور درآمد کرے جو یہاں کے کسان پیدا نہیں کرتے مگر وہ چیزیں ہندوستان سے درآ مد نہ کیا جا ئے جو پا کستا نی کسان خود پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان کی حکو مت اپنے کسانوں کو جتنی سہولتیں دیتی ہیں اگر پاکستان کی حکو مت یہاں کسا نوں کو اتنی ہی سہو لتیں فرا ہم کرے تو پا کستانی کسان اسی قیمت میں اجناس بیچ سکتے ہیں جس قیمت میں ہندوستانی کسان بیچتے ہیں، انڈین حکو مت گرین کھاد کسانوں کو آدھی قیمت میں بیچتی ہے، بجلی کی قیمت برائے نام لی جاتی ہے جسے تقریبا مفت کہا جاسکتا ہے۔
زرعی قرضوں پرکوئی سود نہیں لیتی ہے جب کہ پاکستان میں زرعی قرضوں کا سود سولہ سے اٹھارہ فیصد لیا جاتا ہے، بیج کی قیمت عام قیمت سے کئی گنا زیا دہ وصول کی جاتی ہے۔ ہمارے حکمران کے رویے پر ساحر لدھیانوی کا ایک شعر یاد آ تا ہے۔'زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا، کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے۔' ایک جانب کسانوں سے کم قیمت میں اجناس کی خریداری کی جا تی ہے تو دوسری طرف عوام کو انتہائی زیادہ قیمت میں فروخت کی جا تی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچاس رو پے کلو میں اگر کسانوں سے چاول خریدا جا تا ہے اور ایک سو پچاس رو پے میں عوام کو بیچا جاتا ہے تو یہ سو روپے کہاں گئے؟
یہ سو رو پے مڈل مین(آڑتی) نوکر شاہی اور سرکار کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے کسان اتحاد نے حکومت کے سا منے اپنے مطالبات رکھے اور مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی بتایا اور حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس پرکس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی عوامی سماج کے قیام کی شکل میں ہی ممکن ہے اور یہ اپنی ارتقائی عمل میں جاری ہے۔ جب ملکیت ختم ہوجائے گی، جنگیں ختم ہوجائیں گی، اسلحہ ناپید ہوجائے گا، طبقات ختم ہوجائیں گے،لوگ جینے لگیں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے۔
ویسے تو انسان کو جینے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آ ٹا، چاول، تیل، چینی، دودھ، گوشت، آ لو،نمک وغیرہ مسلسل میسر نہ ہو تو وہ دو یا تین دن سے زیا دہ نہیں جی سکتا۔ ہمارے حکمران اربوں روپے غیر پیداواری اخراجات، ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں، سیٹلائٹ فون، کاسمیٹکس، قیمتی سگریٹ ، سگار اور اسلحے پر خرچ کرتے ہیں،ہم ایٹم بم تو بنا لیتے ہیں، ٹینک بنا لیتے ہیں، میزائل بنا لیتے ہیں لیکن عوام کوکھانے کے لیے دو وقت کی روٹی مہیا نہیں کرسکتے۔
سی این جی کی قلت ہے، پینے کا پانی تک مہیا نہیں کرسکتے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں آٹا انیس رو پے کلو بک رہا ہے جب کہ ہمیں46رو پے کلو خریدنا پڑتا ہے، عالمی مارکیٹ میں چاول50 روپے کلو ہے اور ہم 150روپے میں خریدتے ہیں، تیل95 رو پے کلو ہے اور ہم180 روپے کلو خریدتے ہیں،چینی عا لمی مارکیٹ میں 36 روپے کلو ہے جب کہ عوام55 رو پے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں گیہوں200ڈالر فی ٹن ہے جب کہ پاکستان میں450 ڈالر فی ٹن ہے۔ ہم مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں اور ہمارے ملک میں42ملین ٹن گیہوں عوام کی ضرورت سے زا ئد کے ذخائر موجود ہیں۔
مزید برآں حال ہی میں حکومت نے گندم کی درآمدات پر 25فیصد کی ڈیوٹی لگا دی ہے جس میں باہر سے سستا آٹا کوئی نہ درآمد کرسکے۔ چینی عالمی مارکیٹ میں36روپے کلو ہے جب کہ پاکستان میں چینی55 رو پے کلو فروخت ہو رہی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عوام کو مہنگی چینی بیچی جارہی ہے اور عالمی منڈی میں فروخت کے لیے حکو مت نے مل مالکان کو ڈھائی ارب رو پے زرتلافی دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہم کھربوں رو پے اسلحہ بنانے اور جنگی شعبے پرخرچ کر تے ہیں اورعوام کو فاقہ کشی یا نیم فا قہ کشی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے اپنی حکومت میں اعلان کیا تھا کہ جن کی تنخواہیں چار ہزار ہندوستانی رو پے سے کم ہے انھیں آٹا دو رو پے کلو اور چاول تین رو پے کلوکے حساب سے فرا ہم کیا جا ئے گا، جس کی سبسڈی حکومت بر داشت کرے گی، اس سہولت سے پچاسی کروڑ عوام کو فائدہ ہوگا۔
پاکستان میں عجیب بات ہے کہ کسانوں سے چاول پچاس روپے کلوخریدا جا تا ہے اورعوام کو ایک سو پچاس رو پے میں بیچا جاتا ہے۔ کسانوں کو پچاس روپے کلو چاول بیچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ چاول اور دیگراجناس کی پیداوار میں بجلی، پانی،کھاد اور بیج پر حکومت پاکستان کسانوں کو جو سبسڈیز دیتی ہے وہ انتہائی کم ہے جب کہ ہندوستان کی حکومت بجلی، پانی، کھاد اور بیج میں خاصی سبسڈی کسانوں کو دیتی ہے۔ حال ہی میں پنجاب کے بیس ہزارکسانوں نے اپنے دیرینہ مطالبات پہ گزشتہ دنوں 'کسان اتحاد' کی جانب سے لاہور کے لیے مارچ کیا۔ اس ریلی میں خانیوال، رینالہ خورد، ساہیوال، قصور، منڈی بہاؤ الدین، سرگودھا، پنڈی، فیصل آباد، سیالکوٹ اور اوکا ڑہ سے ہزاروں کسانوں نے شرکت کی۔ حکومت پنجاب نے ریلی کو لاہور میں داخل ہو نے سے روکے رکھا، ان پر لاٹھی چارج اور تشدد کیا پھر چو دہ سوکسانوں کو گرفتار کرکے سول لا ئن اور ریس کورس لاک اپ میں قید کیا گیا۔ ان کسان رہنماؤں سے انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرزموومنٹ کے رہنماؤں خالد بھٹی، جواد احمد اورنیشنل آرگنا ئزر طارق شہزاد نے ملا قات کی۔
یہ رہنما کسانوں کے شانہ بشانہ ریلی میں اور احتجاج میں بھی شریک رہے۔ان کی شرکت کی وجہ سے میڈیا نے خبر نشرکی تو حکو مت ان تمام کسان کارکنان کو رہا کر نے پر مجبور ہوئی۔آخرکار حکو مت اس بات پر بھی مجبور ہوئی کہ کسانوں سے مذاکرات کرے۔ مذاکرات کے لیے کسانوں کی جانب سے 'پنجاب کسان اتحاد' کے چیئرمین چوہدری انور، صدر راؤ طارق عزیز، جنرل سیکریٹری اشتیاق، نائب صدر ارشد لا لیکا، ساہیوال کے صدر احمد بلال، کوآرڈینیٹر ملک ذوالفقاراعوان، قانونی مشیرفیاض عظیم جب کہ پنجاب حکومت کی جا نب سے ایم این اے حمزہ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، وزیرآب پا شی یاور زمان، سیکریٹری لا اینڈ آڈر سلمان غنی، مشیر وزیر اعلیٰ ارشدبٹ، کمشنر لاہور عبداللہ، ہوم چیف سیکریٹری اور سیکریٹری فوڈ شا مل تھے۔مذاکرات کے بعد یہ طے پا یا کہ 1۔ اجناس کی قیمتوں میں اضا فہ کیا جائے گا،2۔ مارکیٹ کمیٹی میں کاشتکا روں کو شامل کیا جائے گا،3۔ خریداری کمیٹی میں بھی کسان نمایندوں کو شریک کیا جائے گا ۔ ،4 ۔ پانی بجلی،کھاد اور بیج پر کسانوں سے وا پس لی گئی سبسڈی بحال کی جائے گی، 5 ۔ پاکستانی کسان جو اجناس خودپیدا کرتے ہیں انھیں ہندوستان سے خریدا نہیں جائے گا۔
وا ضح رہے کہ ہندوستان کی حکو مت بڑے پیمانے پر اپنے کسانوں کو پانی، بجلی،کھاد اور بیج میں سبسڈی دیتی ہے۔ جب کہ پا کستانی حکومت برائے نام دی جانے والی سبسڈی بھی کسانوں سے واپس لے لی ہے۔ پا کستانی حکومت آلو، پیاز، لہسن، ٹماٹر، گاجر، مرچ اور دالیں وغیرہ ہندوستان سے درآمد کرتی ہے جب کہ یہ اجناس ہمارے کسان خود پیدا کرتے ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ چیزیں حکو مت ضرور درآمد کرے جو یہاں کے کسان پیدا نہیں کرتے مگر وہ چیزیں ہندوستان سے درآ مد نہ کیا جا ئے جو پا کستا نی کسان خود پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان کی حکو مت اپنے کسانوں کو جتنی سہولتیں دیتی ہیں اگر پاکستان کی حکو مت یہاں کسا نوں کو اتنی ہی سہو لتیں فرا ہم کرے تو پا کستانی کسان اسی قیمت میں اجناس بیچ سکتے ہیں جس قیمت میں ہندوستانی کسان بیچتے ہیں، انڈین حکو مت گرین کھاد کسانوں کو آدھی قیمت میں بیچتی ہے، بجلی کی قیمت برائے نام لی جاتی ہے جسے تقریبا مفت کہا جاسکتا ہے۔
زرعی قرضوں پرکوئی سود نہیں لیتی ہے جب کہ پاکستان میں زرعی قرضوں کا سود سولہ سے اٹھارہ فیصد لیا جاتا ہے، بیج کی قیمت عام قیمت سے کئی گنا زیا دہ وصول کی جاتی ہے۔ ہمارے حکمران کے رویے پر ساحر لدھیانوی کا ایک شعر یاد آ تا ہے۔'زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا، کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے۔' ایک جانب کسانوں سے کم قیمت میں اجناس کی خریداری کی جا تی ہے تو دوسری طرف عوام کو انتہائی زیادہ قیمت میں فروخت کی جا تی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچاس رو پے کلو میں اگر کسانوں سے چاول خریدا جا تا ہے اور ایک سو پچاس رو پے میں عوام کو بیچا جاتا ہے تو یہ سو روپے کہاں گئے؟
یہ سو رو پے مڈل مین(آڑتی) نوکر شاہی اور سرکار کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے کسان اتحاد نے حکومت کے سا منے اپنے مطالبات رکھے اور مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی بتایا اور حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس پرکس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی عوامی سماج کے قیام کی شکل میں ہی ممکن ہے اور یہ اپنی ارتقائی عمل میں جاری ہے۔ جب ملکیت ختم ہوجائے گی، جنگیں ختم ہوجائیں گی، اسلحہ ناپید ہوجائے گا، طبقات ختم ہوجائیں گے،لوگ جینے لگیں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے۔