ایک موقع اور

میرے آس پاس گھپ اندھیرا تھا۔ مکمل گھٹن اور خاموشی۔ نجانے میں نے آخری سانس کب لی تھی؟


نعیم شاہ April 27, 2015
[email protected]

میرے آس پاس گھپ اندھیرا تھا۔ مکمل گھٹن اور خاموشی۔ نجانے میں نے آخری سانس کب لی تھی؟ مجھے دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا تھا۔ میں وقت اور تاریخوں کی قید سے آزاد اور لاعلم ہوچکا تھا۔ میں اپنی قبر میں موجود تھا۔ آج مجھے شدت سے اپنی زندگی کے کچھ لوگ، واقعات اور چیزیں یاد آرہی تھیں۔ مجھے اپنے لان میں مغرب سے پہلے کے ڈھلتے اجالے میں بیٹھے سامنے سائیکل پر سوار اپنی آٹھ سالہ بھتیجی یاد آرہی تھی، جسے ڈراؤنی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا، میں اسے ڈرانے کے لیے ایک قصہ سنارہا تھا۔ وہ ہر بات کو تخیلاتی طور پر محسوس کرکے خود پر طاری کرلیتی اور میرے کہے ہوئے الفاظ اس کے چہرے پر پریشانی و خوف کے تاثرات بن کے ابھرتے جن سے محظوظ ہوتا۔

مجھے سمندر کے خالی کنارے پر بیٹھنا، اس کی نم ہوا میں سانس لینا یاد آرہا تھا، کتنے انمول تھے وہ لمحات؟ مجھے اپنی والدہ کے سامنے لاؤنج میں بیٹھنا، ان کی باتیں سننا، ان کی طرف دیکھنا یاد آرہا تھا۔ عصر کی مدھم دھوپ اور تہجد کی پرسکون تاریکی میں اپنے کمرے کی آدھی کھلی کھڑکی کے سامنے آنکھیں بند کیے بیٹھے نماز پڑھنا یاد آرہا تھا۔ سمندر پر سفید پرندوں کا اڑنا، فجر کی پرفضا صبح میں پاکیزہ ہواؤں کے درمیان سمندر کنارے جانا، اپنی بلی ڈبو اور اس کے بچے کا آپس میں انسانوں کی طرح لاڈ کرتے دیکھنا یاد آرہا تھا۔

میں تڑپ کے یہ خواہش کرنے لگا تھا کہ کاش میں صرف ایک بار دوبارہ اپنی والدہ کے سامنے بیٹھ کر انھیں دیکھ اور سن سکوں، ایک بار تہجد کے اس سکون کو دوبارہ محسوس کرسکوں، ایک بار اس لامحدود سمندرکے سامنے کھڑا ہو کر گہری سانس لے سکوں، اس میں پھیلی خوشبو و روحانیت کو اپنی روح میں اتار سکوں، ایک بار اپنے بھتیجی، بھانجیوں کے خوفزدہ ہونے کے تاثرات و مسکراہٹوں کو دیکھ سکوں۔ مجھے شدت سے احساس ہورہا تھا کہ میری زندگی کی اصل نعمتیں تو یہ تھیں جنھیں میں نے کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہ تھا۔ میں جن چیزوں کے پیچھے اپنی زندگی برباد کرتا رہا، جن آسائشوں، لذتوں اور دولت کو اہم تصور کرتا رہا، سانس کی ڈور ٹوٹنے کے ساتھ ہی وہ سب میرے لیے بالکل غیر اہم ہوگئی تھیں۔ ان کا اب میری یادوں میں دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ زندگی کے اصل خزانے اب اس وحشت ناک اندھیرے میں ابھر کر میرے سامنے نمایاں ہوگئے تھے۔

میرے دل سے آہ اٹھ رہی تھی کہ کاش میں اللہ کی اس رنگ و نور سے بھری دنیا کے سبزہ زاروں میں ایک بار دوبارہ سانس لے سکوں۔ مجھے صرف ایک سانس، ایک نظر، ایک لمحہ، ان تمام نعمتوں کو دوبارہ محسوس کرنے کا موقع عطا کردیا جائے۔ مگر پھر احساس ہوا کہ مجھے یہ موقع پہلے ہی دیا جاچکا تھا۔ مجھے پتہ چلا اللہ ہمیں ایکدم، اچانک، پہلی بار میں ہی نہیں اٹھا لیتا، مرنے سے پہلے کئی بار مرتے مرتے بچا کر متعدد مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں پورا موقع عطا کرتا ہے کہ ہم آنکھیں کھول لیں اور زندگی کی دولت کو صحیح راہ پر خرچ کرکے ہمیشہ کے لیے اطمینان و کامیابی سے خود کو ہمکنار کرلیں۔ مجھ پر انکشاف ہوا کہ اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے، ہماری نافرمانیوں، گناہوں کے باوجود ہم سے بہت لگاؤ رکھتا ہے۔ کیونکہ اس نے بڑی محبت سے ہمیں خلق کیا ہے، وہ کیسے اتنی آسانی سے ہمیں دوزخ کی آگ میں جھونک دے؟ اس لیے ہم، جو درحقیقت ناکام اور سزا کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، وہ اس کے باوجود ہمیں موقعے فراہم کیے چلے جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہمیں عذاب سے بچالے۔

جس طرح میں اپنے کمسن بھانجے کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے اس کے فوراً ہی آؤٹ ہوجانے پر اسے ایک اور، ایک اور کرکے متعدد موقع فراہم کرتا رہتا۔ مگر میرا بھانجا ہم سے بہتر تھا کیونکہ وہ میری اس فیور اور محبت کو محسوس کرکے مجھ سے جواباً ایسا رویہ اختیار کرتا جیسا ہم اپنے رب سے اختیار نہیں کرتے۔ وہ مختلف موقعوں، بہانوں سے کسی نہ کسی انداز سے میری اس مہربانی کا جواب دیتا، کسی کی مانے نہ مانے میری بات ضرور مانتا، میرے کام خوشی سے انجام دیتا۔ مگر ہم اللہ کے ہمیں متعدد مواقع فراہم کرنے کے باوجود اس کی محبت و مہربانیوں کا کوئی احساس نہیں کرتے، نہ ہی اپنے کسی عمل سے اس کا ثبوت دیتے ہیں، اس کے کلام کو پڑھتے ہیں، نہ ہی اس کے کسی حکم پر کان دھرتے ہیں۔ ہم بڑی بے شرمی سے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعمتیں اس کی استعمال کرتے ہیں مگر اطاعت و غلامی اپنے نفس کی کرتے ہوئے اندھادھند سرپٹ دوڑتے چلے جاتے ہیں۔

مجھے بھی اللہ نے کئی مواقع عطا کیے، کم از کم تین بار یقینی جان لیوا حادثات سے بچاکر زندگی بخشی۔ کم از کم دو بار آنکھوں کے سامنے سڑک پر ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں خون میں لت پت انسانوں کو دکھایا، کم از کم دس بار نزدیک ترین عزیزوں کی موت کی المناک خبریں مجھ تک پہنچائیں، جن میں سے کچھ کو میں نے اپنی نظروں کے سامنے قبر میں اترتے دیکھا۔ لیکن مجھے بار بار زندگی جاری رکھنے، سانس لیتے رہنے کا موقع دیا جاتا رہا۔ ان تمام واقعات، سب کچھ دیکھنے، سمجھنے کے باوجود جان بوجھ کر حق سے منہ موڑتے رہنے کے بعد اب بالآخر مجھے اس قبر کی وحشتوں میں اتارا گیا تھا۔

نجانے وہ کون سی غیبی آڑ تھی جو سب کچھ دیکھنے، جاننے کے باوجود مجھے عمل کرنے سے روکتی رہی تھی۔ زندگی کی دولت کو اللہ کے ساتھ نفع بخش تجارت میں استعمال کرنے کے بجائے عذاب اور دوزخ خریدنے کی راہ پر ڈالتی رہی تھی۔ میرے اپنے ہاتھوں سے سراسر گھاٹے کا سودا کرواتی رہی تھی۔ میں نے زندگی جیسی نایاب دولت فقط چند سالہ دنیاوی زندگی کی مال و آسائشیں سمیٹنے کے چکر میں ہی ضایع کر ڈالی، اس ناسمجھ بچے کی طرح جو اپنی ماں سے تیس روپے کی آئسکریم خریدنے کے لیے ہزار کا نوٹ لے کرگیا۔ واپسی پر ماں کے پوچھنے پر بولا کہ باقی تو کوئی پیسہ نہیں ملا۔ ماں سر پیٹ کر بولی ''ارے نادان! تونے اتنی بڑی رقم سے صرف معمولی سی آئسکریم خریدی، باقی رقم ضایع کرڈالی؟''

ہم انسان بھی اسی بچے کی طرح اپنی سانسوں کی انمول دولت بے دردی سے ضایع کر رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس بچے نے ناسمجھی میں یہ کام کیا تھا اور ہم جانتے بوجھتے، سمجھ کر اختیاراً یہ کام انجام دیتے ہیں۔ اپنا ہمیشہ باقی رہنے والا مستقبل سنوارنے کے بجائے ہوس، ظلم و ستم، دوسروں کا حق مارنے میں اپنا وقت تمام کر دیتے ہیں۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں