حامد سراج کی ’’میا‘‘
میں جب بھی ماں کا کوئی نوحہ پڑھتا ہوں تو بے اختیار میری آنکھ سے وہ آنسو بہہ نکلتے ہیں جنہیں دیکھے بغیر میری ماں چلی گئی تھیں۔ اس کیفیت کا شکار میں پہلی بار تب ہوا تھا جب میں خالد احمد کی شاہکار نظم 'لحد تیار ہے' پڑھ رہا تھا۔ دوسری بار آج محمد حامد سراج کی اردو ادب میں ماں پر لکھی جانے والی شاہکار تحریر 'میا' پڑھتے ہوئے۔
'میا' کیا ہے؟ یہ صرف ماں کے لمس کا احساس ہے یا ماں کے چلے جانے کے درد کی تفہیم ہے۔حامد سراج نے نظم و نثر کے امتزاج سے ماں کے پیکر کو دوام بخشا ہے۔ ماں سے منسلک ناقابلِ فراموش واقعات کی جزیات میں داخل ہو کر حامد سراج خود بھی روتے ہیں اور پڑھنے والوں کی پلکیں بھی بھگوتے چلے جاتے ہیں۔
ضامد سراج کی اس طویل تحریر کو پڑھنے سے پہلے ہم نے ایک مضافاتی اچھے ادیب ناصر ملک کی کتاب ''سامعہ'' پڑھی تھی جسے ہم نے مکالماتی شاعری کا نام دیا تھا حالانکہ نظم و نثر کا امتزاج وہاں بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب ماں پر شائع ہونے والی اس تحریر 'میا' کو پڑھنے کے بعد ہمیں سمجھ آیا کہ سامعہ، حامد سراج کی اسی تحریر سے متاثر ہو کر نظم و نثر کے امتزاج سے مکالماتی انداز میں لکھی گئی تھی۔
حامد سراج نے خالد احمد کی طرح ماں کا نوحہ تحریر کیا ہے، لیکن خالد احمد کا نوحہ تو منظوم ہے لیکن 'میا' کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کیا نام دوں؟ ناول کہوں تو یہ نال کے طریق پر نہیں ہے، اس میں کہانی کا سحر ہے لیکن یہ کہانی نہیں ہے، اس میں منظر نگاری ہے لیکن یہ ناول ہے نا ڈرامہ۔ پھر اسے کیا نام دیا جائے، اسے خاکہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ خاکہ ہی یک کرداری ہوتا ہے۔
خاکہ نگار کی کیفیات خاکے کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہوتی ہے بالکل Transferred Epithet کی طرح، یہ وہ ذہنی کیفیت ہے جب تخلیق کار اپنے اندر کے موسم کو ہر چیز اور بیرونی کیفیات میں محسوس کرتا ہے۔
صبیحہ صبا کا یہ شعر اسی کیفیت کا اظہار کرتا ہے کہ اگر آپ اداس ہیں تو آپ کو ہر چیز اداس اور سوگوار نظر آتا ہے
موسم یہ اداسی کا برسوں سے نہیں بدلا
ویسے تو سبھی موسم ہر سال بدلتے ہیں
اداسی کی کیفیات کا اندازہ 'میا' کے ان چند فقروں سے لگایا جا سکتا ہے۔
اب تو سارے موسم زرد اور اداس ہیں
اسلام آباد کی وہ شام کتنی اداس اور بے کیف تھی
بیٹی کا سر سینے پر ٹکا تھا۔ میرے اندر کینسر کی مو سلادھار بارش ہو رہی تھی
'میا' کیا ہے؟ لفظوں کی مصوری ہے، مرقع نگاری ہے اور لفظوں کی یہ مصوری کرتے وقت خاکہ نگار حامد سراج کی جگہ افسانہ نگار حامد سراج ایک جھرجھری لے کر جاگ اٹھتا ہے۔
مصنف نے زندگی اور موت کے درمیان فاصلے کو بڑے قریب سے کم ہوتے دیکھا ہے۔ اسی کرب، بے بسی اور اداسی کے عالم میں وہ کہتا ہے۔
''ماں''
میں اس بات کا اظہار کیسے کروں۔ اندر کے اس دکھ کو زبان کیسے دوں۔۔؟
کہ جب انسان کے اندر کسی کیموت کا بیج اگنے لگے تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔ یہ پودا روح کی زمین کا سینہ چیر کر کیسے باہر نکلتا ہے اور پھر اس پر لہو کی بوند سے کیسے پھول کھلتے ہیں۔
حامد سراج نے ماں کے بارے میں خود کلامیہ اور مکالماتی تکنیک میں ماں کا خاکہ لکھا ہے اس تکنیک میں جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ جذبات کی ترجمانی میں کمی واقع ہو رہی ہے تو انہوں نے ماں کے حوالے سے دوسرے شعرا کے لکھے گئے شعری بیانیے کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے۔اس طرح خاکہ نگار شعرو نثر کی سرحدیں ختم کر دیتا ہے اور نظم و نثر کو یکجا کرتا چلا جاتا ہے جس سے بیانیہ مزید اثر انگیز ہو جاتا ہے۔
حامد سراج نے اردو فکشن میں ایک طرحِ نو کی بنیاد ڈالی ہے اور احساسات کی داستانِ خونچکاں لکھ کر ایک درد بھری سچائی کو ،، میا،، کا روپ دے کر امر کردیا ہے۔
ماں۔۔۔
یہ شام، اداسی اور تنہائی کا لامتناہی صحرا
تم وقت کی قید سے ورے جا آباد ہوئیں
اور میں۔۔۔۔
ہجر کے پیڑ تلے بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوں
پختہ کارنثر پڑھنے کے لئے ''میا'' ایک عمدہ انتخاب ہے جسے سید امیر کھوکھر کی حروف بینی کے ساتھ امر شاہد اور گگن شاہد کے تزئین و اہتمام بک کارنر بالمقابل اقبال لائبریری، بک اسٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کیا ہے، 148 صفحات کے اس مجموعے کی قیمت 380 روپے ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔