کیا ڈاکٹر برق واقعی نادم تھے
ہم نے اپنی غلامی کو امر ربی بھی بنا لیا تھا، ہم اسے اللہ کا حکم سمجھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے تھے
www.facebook.com/javed.chaudhry
آپ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی زندگی اور ان کے علمی کام کا جائزہ لیجیے، آپ کی زیادہ تر کنفیوژن ختم ہو جائے گی، باقی کنفیوژن کے خاتمے کے لیے میری خدمات حاضر ہیں، ڈاکٹر برق1901ء میں پیدا ہوئے، خاندان مذہبی بھی تھا اور سید بھی۔
ڈاکٹر صاحب کا شمار اسلامی دنیا کے ان چند اسکالرز میں ہوتا ہے جو مدارس سے نکل کر یونیورسٹی تک پہنچے، وہ عربی زبان میں گولڈ میڈلسٹ تھے اور انگریزی زبان پر اس قدر دسترس رکھتے تھے کہ اپنا تھیسس انگریزی میں لکھا اور آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی نے پاکستان بننے سے سات سال قبل یعنی 1940ء میں ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی تصدیق کی، وہ پاکستان بننے سے قبل ان بیس عالموں میں شمار ہوتے تھے جن کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی، ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں 17 کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔
''دو اسلام'' ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی پہلی تحقیقی کتاب تھی، یہ کتاب 1949ء میں شایع ہوئی، یہ کتاب اسلامی تاریخ میں طویل مدت بعد نئی تحقیق کی شکل میں سامنے آئی، وہ عالموں کا زمانہ تھا، اس زمانے میں ''دو اسلام'' کے بارے میں دو آراء سامنے آئیں، علماء کرام ، صوفیاء کرام اور پڑھے لکھے طبقے نے کتاب کو بے انتہا پسند کیا جب کہ مولوی حضرات، ملاؤں اور جعلی پیروں کی طرف سے اس پر شدید نقطہ چینی ہوئی لیکن اس تنقید کے باوجود یہ کتاب مسلسل شایع ہوتی رہی، ڈاکٹر صاحب کی دوسری تصنیف ''دو قرآن'' تھی، یہ کتاب 1942ء میں برصغیر کے مشہور دینی اور علمی جریدے '' البینان'' میں قسط وار شایع ہوئی۔
''دو قرآن'' کی اقساط 14 ماہ تک جاری رہیں، یہ اقساط بعد ازاں کتاب کی شکل میں شایع ہوئیں،ڈاکٹر صاحب کی تیسری تصنیف ''ایک اسلام'' تھی، یہ کتاب 1952ء میں شایع ہوئی، آپ اگر دو اسلام، دو قرآن اور ایک اسلام کے بارے میں تحقیق کریں تو یہ تینوں کتابیں 1940ء سے لے کر 1952ء کے دوران لکھی گئیں اور یہ شایع ہوئیں، یہ تینوں کتابیں اسلام کے علمی پہلو پر مبنی تھیں، یہ انسان کو کام پر راغب کرتی تھیں، یہ مسلمانوں کو اللہ کی فلاسفی بتاتی تھیں۔
ان کتب کا مرکزی نقطہ عمل، کام، سعی اور تحقیق تھا، ڈاکٹر صاحب اہل ایمان کو یہ بتانا چاہتے تھے یہ دنیا اس کی ہے جو محنت کرے گا، آپ کو کھیتوں سے لے کر فیکٹریوں تک اور اسکولوں سے لے کر لیبارٹری تک دن رات ایک کرنا ہو گا، آپ تب جا کر زندگی میں آرام اور آسائش پا سکیں گے، اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا رب ہے، یہ ٹام کا بھی اتنا ہی خدا ہے جتنا یہ عبدالرحمن کا ہے، اللہ محنت پسند کرتا ہے، یہ محنت کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا، لوئی پاسچر ہو، نیوٹن ہو، مادام کیوری ہو یا آئن سٹائن ہو یا پھر الخوارزمی، بو علی سینا اور امام غزالی ہوں دنیا میں جو محنت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نوازے گا۔
ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے مسلمان خانقاہوں تک محدود نہ ہوں، یہ وظائف کے ذریعے دنیا مسخر کرنے کی کوشش بھی نہ کریں،یہ محنت کریں، علم حاصل کریں اور اپنی دنیا آپ پیدا کریں، ڈاکٹر صاحب تاریخ اسلام کے نباض تھے، وہ سمجھتے تھے غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی 128 ریاستیں تباہ ہوئیں، چنگیز خان، ہلاکو خان اور فرڈی نینڈ نے مسلمانوں کی ایسی ایسی لائبریریاں جلا کر راکھ بنا دیں جن میں صحابہؓ کے ہاتھوں سے لکھے قرآن مجید اور اماموں کے ہاتھوں سے تحریر احادیث کے نسخے تھے،عیسائیوں نے مسجد قرطبہ کو چرچ بنا دیا، ہلاکو خان نے مساجد میں گھوڑے باندھے لیکن مسلمانوں کی مدد کے لیے آندھیاں آئیں۔
زلزلے اترے اور نہ ہی دشمن کا راستہ روکنے کے لیے سیلاب بھجوائے گئے، ہلاکو خان، چنگیز خان اور فرڈی نینڈ کا دور قطب اور ابدال کا زمانہ تھا، آپ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ،حضرت داتا گنج بخش ؒ ،حضرت معین الدین چشتی ؒاجمیری اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا زمانہ نکالیں، ان عظیم روحانی شخصیات کے مقابر اس وقت شاد اور آباد تھے، ہلاکو خان نے فروری1258ء میں بغداد پر حملہ کیا، اس وقت حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر سیکڑوں زندہ پیر موجود تھے لیکن مسلمان تمام تر برکات کے باوجود سقوط بغداد سے بچ سکے۔
خوارزم کی ریاست بچا سکے اور نہ ہی ہندوستان کو ان ظالم حملہ آوروں سے بچا سکے جنہوں نے لاہور سے لے کر دلی تک مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ہم مسلمان اپنی تمام تر روحانی قوت کے باوجود انگریزوں سے ہندوستان بچا سکے، غرناطہ اور نہ ہی خلافت عثمانیہ، ہم ساڑھے 13 سو سال مار کھاتے رہے، ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا مسلمانوں کو اسلام کا اصل پیغام سمجھنا ہوگا، انھیں علم، دفاع اور معیشت تینوں پر توجہ دینی چاہیے، انھیں دعا سے قبل کھیت میں ہل جوتنا ہو گا، زمین میں بیج بونا ہو گا اور کھیت کو پانی دینا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں صرف دعا سے فصل نہیں اگ سکے گی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یہ پیغام ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا، ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ایک طویل عمل کے ذریعے عملی اسلام سے دور کر دیا گیا تھا اور ہم نے یقین کر لیا تھا اللہ نے دنیا غیر مسلموں اور آخرت مسلمانوں کے لیے وقف کر دی ہے اور ہم اگر آخرت میں سرفراز ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دنیا میں رسوا ہونا پڑے گا۔
ہمارے ذہن میں یہ راسخ کر دیا گیا تھا یہ دنیا دنیاوی کتوں کے لیے ہے چنانچہ ہم نے دفاع، علم، تحقیق، انڈسٹری اور معیشت دنیاوی کتوں پر چھوڑ دی اور اپنے لیے ان کتوں کی غلامی پسند کر لی یوں دنیاوی کتے اہل ایمان کے حکمران بن گئے، دنیا مسائل کا حل تلاش کرتی رہی، یہ اینٹی بائیوٹک، گاڑیاں، جہاز، کیڑے مار ادویات اور میزائل بناتی رہی اور ہم وظائف، پھونکوں اور تعویذوں کے ذریعے دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کا انتظار کرتے رہے، ہمیں یقین دلا دیاگیا تھا، تم صرف عبادت کرو، وظائف اور پھونکیں مارو اور غیروں کو کام کرنے دو چنانچہ پورا عالم اسلام دنیاوی کتوں کا غلام ہو کر رہ گیا۔
ہم نے اپنی غلامی کو امر ربی بھی بنا لیا تھا، ہم اسے اللہ کا حکم سمجھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے تھے،ہم نے اپنے زوال، اپنی غربت اور اپنی مصیبتوں کو روحانیت کی شکل بھی دے دی تھی، ڈاکٹر صاحب کی سوچ سمجھوتے کی غلامی کے جوہڑ میں بھاری بھرکم پتھر ثابت ہوئی اور ملک پاکستان میں ان پر اعتراضات شروع ہوگئے، لوگوں نے دعویٰ کیا ''ڈاکٹر غلام جیلانی برق روحانیت کے خلاف ہیں، یہ احادیث کو بھی تسلیم نہیں کرتے'' یہ پروپیگنڈا غلط تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ احادیث پر صرف کیا تھا، یہ سید زادے بھی تھے۔
ان کے والد کا نام محمد قاسم شاہ تھا، یہ گاؤں لسبال میں امام مسجد بھی تھے اور یہ بیعت بھی کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے1960ء میں روحانیت کی مخالفت کا داغ دھونے کے لیے ''من کی دنیا'' لکھی، یہ کتاب روحانیت کے بارے میں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے''من کی دنیا'' میں ان مغربی علماء اور اسکالرز کے حوالے دیے جو مسلمان نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اسلام کی روحانیت سے اتفاق کرتے تھے، یہ کتاب 1960ء میں شایع ہوئی۔
آپ اب ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے کام کا جائزہ لیجیے، ''دو اسلام'' 1949ء میں شایع ہوئی۔ ''دو قرآن'' 1942ء میں البینان میں شایع ہونے لگی۔ ''ایک اسلام'' 1952ء میں شایع ہوئی اور ''من کی دنیا'' 1960ء میں سامنے آئی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 12 مارچ 1985ء تک حیات رہے، ڈاکٹر صاحب 1960ء کے بعد 1985ء تک 25 سال حیات رہے، اس عرصے میں انھوں نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل مضامین اور دس کے قریب کتابیں لکھیں، ڈاکٹر صاحب کے انتقال تک ان کی چاروں کتب شایع ہوتی رہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی حیات میں ''دو اسلام'' کا آخری ایڈیشن 1981ء میں شایع ہوا لیکن ڈاکٹر صاحب نے انتقال تک اپنی کسی تحریر، اپنے کسی انٹرویو میں یہ نہیں فرمایا '' میں اپنی سابق کتابوں پر نادم ہوں یا میرا سارا کام دور جاہلیت میں لکھا گیا'' میں چیلنج کرتا ہوں آپ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب '' من کی دنیا،، یا ان کی 1985ء تک کی تحریروں سے مجھے وہ فقرہ یا نوٹ نکال کر دکھا دیجیے جس میں انھوں نے ''دواسلام'' ''دو قرآن'' اور ''ایک اسلام'' پر ندامت کا اظہار کیا ہو یا اسے اپنے دور جاہلیت کا کام قرار دیا ہو۔
ہم ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کر لیں ڈاکٹر غلام جیلانی برق 1960ء میں ''من کی دنیا'' لکھتے وقت اپنی ماضی کی کتب پر نادم ہو گئے تھے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب نے من کی دنیا میں اس کا اعتراف کیوں نہیں کیا؟ یہ 1981ء تک اپنی دور جاہلیت کی پیداوار کو شایع کیوں کرواتے رہے؟ ڈاکٹر صاحب اپنے پبلشر کو ایک خط لکھ دیتے اور کتابوں کی اشاعت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی۔
ڈاکٹر صاحب اپنے کسی مضمون میں اعتراف جرم کر لیتے۔ یہ اپنی آٹو بائیوگرافی ''میری داستان حیات'' ہی میں اپنی ''جہالت'' کا اعتراف کر لیتے یا اپنے کام، اپنی تحقیق پر عالم اسلام سے معذرت کر لیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی مگر ڈاکٹر صاحب نے ''من کی دنیا'' سے لے کر اپنے آخری مضمون تک کسی جگہ یہ اعتراف نہیں کیا، یہ آخری وقت تک اپنی کتابیں بھی شایع کراتے رہے اور ان کتب کی رائلٹی بھی وصول کرتے رہے لیکن میرے دوست کو اچانک کشف ہوا۔
ڈاکٹر صاحب 1960ء میں اپنے 1949، 1950 اور 1952ء کے کام پر نادم تھے یا یہ عمر عزیز کے آخر میں اپنے اس کام کو ''دور جاہلیت'' کا کارنامہ قرار دیتے تھے جس نے لسبال کے مولوی غلام جیلانی کو عالم اسلام کا عظیم اسکالر ڈاکٹر غلام جیلانی برق بنایا، ایسا اسکالر جس کی محفل میں مولانا مودودی سے لے کر ڈاکٹر باقر، ڈاکٹر عبداللہ، شورش کاشمیری، پروفیسر اشفاق علی خان، جنرل عبدالعلی ملک، مولانا زاہد الحسینی، پروفیسر ڈاکٹر اجمل، ڈاکٹر حمید اللہ، پروفیسر سعادت علی خان، عنایت الٰہی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، حفیظ جالندھری، طفیل ہوشیار پوری، جنرل شیریں دل خان نیازی، پروفیسر سعداللہ کلیم، صوفی غلام مصطفی تبسم، شیخ عبدالحکیم، کرنل محمد خان، جنرل شوکت، جنرل شفیق الرحمن، احمد ندیم قاسمی اور جسٹس کیانی جیسے علماء، ادباء اور استاد بیٹھتے تھے، یہ محفلیں بھی ڈاکٹر صاحب کی آخری سانس تک جاری رہیں۔
یہ بڑے لوگ تھے اور ڈاکٹر صاحب نے ان میں سے بھی کسی کے سامنے اپنے ''دور جاہلیت'' کے کام پر ندامت کا اظہار نہیں کیا، پھر میرے دوست کو کیسے معلوم ہو گیا؟ میرا خیال ہے یہ میرے دوست کی روحانی طاقت ہے جس نے عالم ارواح میں جھانک کر معلوم کر لیا 1985ء میں انتقال فرمانے والے ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنے کام پر نادم ہیں۔
میری اپنے دوست سے درخواست ہے آپ اب مہربانی فرما کر علامہ اقبالؒ کی روح سے بھی رابطہ کریں، ہو سکتا ہے علامہ صاحب بھی'' سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' جیسے ترانے پر کف افسوس مل رہے ہوں، آپ اپنی روحانیت کے ذریعے قوم کو گوادر کاشغر روٹ پر قائداعظم کی رائے سے بھی مطلع فرما دیں تا کہ قوم بانی پاکستان کے تازہ ترین خیالات سے مستفید ہو جائے اور اگر ہو سکے تو ملکہ سبا کو بھی اطلاع کر دیں آپ کے یمن پر حوثیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔