گوادر پہ منڈلاتے سرمایہ دار
ابھی بیسویں صدی کے آخری برسوں سے لے کر اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں تک گوادر کا نام لیوا کوئی نہ تھا۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سب سے بڑا ہتھیار اشتہارات ہوتے ہیں؛ دلوں کو بھڑکاتے، جذبات ابھارتے، لہو گرماتے اشتہارات۔ یہ ان اشتہارات کا کرشمہ ہی ہے کہ تعیشات ہماری ضروریات کی جگہ لے چکی ہیں۔ یہ رنگین اشتہارات ہماری بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں کچھ یوں دَر آتے ہیں کہ ہمیں اردگرد سب کچھ 'رنگین' لگنے لگتا ہے۔
انھی رنگینیوں اور روشنیوں کی چکا چوند ہمیں ان کمپنیوں کی مصنوعات کی اس قدر عادی بنا دیتی ہے کہ ان کے بغیر ہمیں زندگی کے ادھورے پن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ان کمپنیوں اور ان کی مارکیٹنگ کی کامیاب ترین مثال 'پیوری فائڈ واٹر'یعنی صاف پانی کی وہ چھوٹی موٹی بوتلیں ہیں، جو آج ہر تقریب کا جزو لاینفک ہیں، بلکہ بڑے شہروں میں تو گھروں کی بھی لازمی ضرورت بن چکی ہیں۔
ابھی کوئی پندرہ ، بیس برس پہلے ہم میں سے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی پانی جیسی قدرتی نعمت بوتلوں میں بند کر کے پیسوں پہ بیچی اور خریدی جائے گی۔ ایک ہوا بس بکنے سے باقی رہ گئی ہے۔منافع خوروں کی ہوسِ زر کو دیکھتے ہوئے اس کی جلد خریدوفروخت بھی کچھ بعید معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ شنید میں ہے کہ ایسے جم سینٹر وجود میں آ رہے ہیں۔
جہاں کچھ رقم خرچ کر کے آپ شہر کی آلودگیوںا ورآلائشوں سے پاک، 'صاف ہوا ' میں سانس لے سکتے ہیں۔ ثم العجب! دنیا کو کیا سے کیا ہوتے دیکھ کر اب تو ہم نے حیرت کا اظہار کرنا بھی چھوڑدیا ہے۔ اور یہ ملٹی نیشنلز کا سب سے کاری وار ہو گا ؛انسانی سماج سے حیرت ، تجسس، اور تحیر جیسے احساس کا خاتمہ۔
ملٹی نیشنل ہو یا سنگل نیشنل، خواہ اس کا تعلق مغرب سے ہو کہ مشرق سے، سرمایہ دار کے لیے دنیا کی پرکشش ترین چیز صرف ایک ہے؛ منافع۔ جہاں سے ملے، جیسے ملے، لے لو۔ اورہمارے خطے میں مستقبل کے منافع بخش ترین 'مال' کا نام ہے؛گوادر۔ سو،دنیا بھر کے منافع خور جو ایک عرصے سے اس پہ نظریں جمائے ہوئے تھے، حالات کا رخ دیکھ کر اب اس کے گرد منڈلانے لگے ہیں۔
ان عالمی سرمایہ داروں کے منافعے میں سے اپنے حصے کی تلچھٹ کے حصول کے لیے ہمارے سبھی مقامی 'بروکر' سرگرم ہیں۔ عالمی سرمایہ دار کمپنیاں اور کارپوریٹ ادارے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مقامی حکمرانوں، اداروں اور افراد کو کیسے استعمال کرتے ہیں، اس کا مفصل احوال جان پرکنز نامی گھر کے ایک بھیدی نے اپنی کتاب 'کنفیشنز آف این اکنامک ہِٹ مین' نامی تصنیف میں بیان کیا ہے۔
یہ صاحب بتاتے ہیں کہ عالمی ادارے اپنے مفادات کے حصول کے لیے مقامی حکمرانوں کو 'عالمی فنڈز' کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ وہ انھیں انفرااسٹرکچر کے نام پر سودی سرمایہ مہیا کرتے ہیں اور پھر اس کے عوض ایسی شرائط عائد کر دیتے ہیں، جس کا تمام تر فائدہ انھیں پہنچنا ہوتا ہے۔ یوں ایک طرف وہ اپنا اصل سرمایہ مع سود وصول کرتے ہیں ،تو دوسری جانب مقامی وسائل کی سستے داموں لوٹ کھسوٹ کچھ اس ادا سے کر لیتے ہیں، کہ اس لوٹ مار پہ ہم ان کے شکرگزار بھی ہوتے ہیں۔
تو گوادر کی مارا ماری سے لے کر اس کے پورٹ کی فعالیت، غیر فعالیت، روٹ کی تبدیلی، ناتبدیلی کے جتنے معاملات ہیں، یہ محض ہماری اندرونی سیاست کے معاملات نہیں، کچھ حصہ(بلکہ ایک بڑا اور حقیقی حصہ) اس میں عالمی سیاست اور منافع خورسرمایہ داری کا بھی ہے، کہ گوادر جن کے مستقبل کا مستقل ٹھکانہ ہے۔
ورنہ ابھی بیسویں صدی کے آخری برسوں سے لے کر اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں تک گوادر کا نام لیوا کوئی نہ تھا۔ سرمایہ دار کمپنیوں کے نرم گرم اشتہارات کے باعث آنکھوں میں حرص کی رال ٹپکاتے منافع خوروں کی گوادر پہ نظر تو ہوئی، مگر غریب گوادریوں کی حالتِ زار پہ نہ ان، اپنی توند جیسے پھیلے بینک بیلنس والوں کی کوئی نظر پڑی، نہ ہی شہریوں کو عزتِ نفس کے ساتھ روزگار کی ضمانت دینے والا آئین رکھنے والی ریاست کو کوئی خیال آیا۔
عالمی سرمایہ داروں کے پسندیدہ ایک آمر نے یہاں کوسٹل ہائی وے نامی روڈ تو فوراً بنا دیامگر گوادریوں کے لیے پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت کا کوئی اہتمام نہ کیا۔ یہ کیسا دلچسپ المیہ ہے کہ نیلے پانیوں کے کنارے آباد شہر، کہ جس کے حسن کی ایک دنیا دیوانی ہے، وہ گرم پانیوں کے کنارے ہو کر بھی پانی کو ترستا ہے ، پینے کا صاف پانی نایاب ہے۔
ابھی اسی جنوری میں اسی مکران میں ایک کہنہ مشق سیاسی کارکن نے دوستوں کی اسی تلخ آب سے تواضع کرتے ہوئے کس قدر تلخ نوائی سے کہا کہ مکران میں دنیا بھر کی منشیات آپ کو وافر اور ارزاں ملتی ہے، تو اس کا سبب محض ہمارے سرحدی اتفاقات نہیں، اس میں ان ریاستی اداروں کا بھی ہاتھ ہے، جو اس تباہی کے ہاتھوں ہماری نسل کشی کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
ورنہ وہ مکران جہاں سرمچاروں کے لیے زمین تنگ ہو سکتی ہے، عالمی اسمگلر وہاں کھلے بندوں گھومتے اور کاروبار کرتے ہیں، ان کی گردن کے لیے کوئی پھندہ آج تک نہیں بنا۔کوسٹل ہائی وے کی مکرانیوں کے لیے نعمت ِ متبرکہ ہونے کا اندازہ ایک تو اسی ساتھی کے اس بیان سے ہوا جب وہ بتا رہا تھا کہ تربت سے گوادر اب جس روڈ پہ ہم دو سے ڈھائی گھنٹوں میں پہنچ رہے ہیں، یہ دو دن کا سفر ہوا کرتا تھا، اور اگر کبھی بارش ہو جائے تو سفر تب تک جاری رہتا، جبتک کہ پانی سے بھرے پل راستہ نہ دیتے۔
پھرگوادر میں کراچی کی خاتون ساتھی کی فرمائش پہ شہر بھر میتھی کی تلاش میں کے دوران منکشف ہوا کہ گوادر کے سبزی فروش اس معمولی سبزی کے نام تک سے واقف نہیں ، تب ہمارے گوادری ساتھی نے بتایا کہ یہ تو ابھی کوسٹل ہائی وے کی برکت سے کچھ برس پہلے ہمارے لوگ پھلوں کے ناموں اور ذائقوں سے واقف ہوئے ہیں ، وگرنہ یہاں تو اکثر پھل ناپید ہوا کرتے تھے۔کراچی سے آتے ہوئے چار سے پانچ دن کے سفر میں پھل گل سڑ جاتے۔گائے کا دودھ اور گوشت بھی ایک عرصے تک نایاب رہا، آج بھی کم یاب ہی ہے، اورمکران بھر میں اسے عیاشی سمجھاجاتا ہے۔
تو یہ وہ گوادر ہے ،جس کے لیے میڈیا سے لے کر اب ہمارے پارلیمانی اداروں میں بحث ہو رہی ہے کہ کاشغرکے لیے اس کی بندرگارہ کا روٹ کہاں سے بنانا مفید ہو گا۔اس سارے تماشے میں سب سے نظرانداز کردہ مخلوق اہلِ گوادر ہیں۔
اس شہر ِ ناپرساں کے حقیقی باسی اور اس کے وسائل سے مستفید ہونے کے اولین حق دار۔ گوادر سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا،یہ تو ہر جا زیر بحث ہے، مگر کوئی نہیں بتاتا کہ اس سے خود گوادریوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ گوادر اور گوادری جو آج سرکاری اور سرمچاری لڑائی میں گھاس کی طرح پس رہے ہیں۔
جہاں تعلیمی ادارے اور افراد نشانے پر ہیں، جہاں کتابوں کی دکانیں چھاپوں کی زد میں ہیں، جہاں ہر کتاب پڑھنے والا، سوچنے سمجھنے، پڑھنے لکھنے، بولنے والا ہر فرد خود اپنی ہی نظروں میں مشکوک ہے...کیا اُس گوادر پہ بھی کسی کی نظر ہے؟ کیا یہ گوادر بھی کسی مباحثے اور مکالمے کا حصہ ہے؟
فی الوقت تو یوں لگتا ہے کہ گوادر آخری سانسیں لیتا ہوا وہ جسم ہے، جس کے مردہ ہونے کے منتظر گدھ اس پہ ٹوٹ پڑنے کو بے تاب ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ گوادرکو خود اپنی سانسیں بحال کر کے ان گدھوں سے نمٹنا ہوگا، ورنہ گوادر کے ساتھ،اہلِ گوادر بھی ان گدھوں کی خوراک بن جائیں گے۔
اور جونھی یہ تحریر تمام ہوئی، ہمارے ایک ساتھی کی سوشل میڈیا پہ پوسٹ نظر سے گذری''میں نے رات خواب دیکھا ہے۔سرمایہ دارگوادر کے راستے میں آنے والے تمام دیہات بزور سرمایہ وبندوق خالی کروا رہا ہے کہ یہاں ڈرائی پورٹ بنے گا، وہاں بہت بڑی صنعتیں لگیں گی۔ ملا، سرمایہ دار کے شانے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے اور لوگوں کو'ہجرت' کرنے کے آداب، فضیلت، ثواب اور اہمیت سکھا رہا ہے۔''