تفریح
اگر ہمارا دین یا نظریہ حیات یہ کہتا ہے کہ گانا بجانا میوزک سننا کار ثواب ہے اور اس سے ذہنی سکون ملتا ہے
دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کے فرائض میں معلومات کی فراہمی کے علاوہ تفریح مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ ذرایع ابلاغ میں تفریح کا یہ پہلو تقریباً اس وقت سے ہی شامل ہے جب ان ذرایع سے لوگوں تک رسائی حاصل کی گئی۔
تفریح کے اعتبار سے فلم اور ڈرامے ذرایع ابلاغ کا ایک خاصہ رہے ہیں دنیا بھر میں آج تک جہاں کہیں بھی ڈرامے اور فلمیں بنی ہیں خواہ وہ کمیونسٹ ممالک ہوں، سرمایہ دار یا کوئی اور، ان تمام میں مشترکہ مرکزی خیال یہی ہوتا تھا کہ نیکی ایک اچھی چیز ہے اور برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیشہ سے یہ اصولی بات بھی نمایاں رہی ہے کہ برائی کو ختم کرنے کے لیے اچھائی کا ہی سہارا لیتے ہوئے دکھایا گیا یعنی یہ اصول طے شدہ ہے کہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے ختم کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ذرایع ابلاغ سے بھی یہی اصول تفریحی پروگراموں میں کارفرما رہا یہاں تک کہ نجی ٹی وی چینلز کے آغاز کے بعد سے بھی یہ اصول نہیں بدلا۔ اس اصول کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ملکی مفادات کو بھی مدنظرکھا جاتا رہا ہے اور یہ کام محض پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہوتا ہے تاہم راقم نے کچھ عرصے سے محسوس کیا ہے کہ اس اصول کو اب نظرانداز کیا جانے لگا ہے۔ اس روش کی گوکہ ابھی ابتدا ہی محسوس ہو رہی ہے لیکن اس فاش غلطی کی جانب اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ ہمارے معاشرتی اور ملکی لحاظ سے انتہائی غلط اور خطرناک ہوسکتا ہے۔
راقم نے کچھ ہی عرصے قبل ایک ڈرامے کا منظر دیکھا کہ (جس میں کچھ یتیم بچیوں کا کردار تھا، ان بچیوں پر ان کے سگے رشتے دار ظلم کر رہے تھے اور ان رشتے داروں کے بچے انھیں تنگ کرتے تھے) ایک یتیم بچی مخالف بچوں کو سزا دینے کے لیے رات کے اندھیرے میں اٹھ کر مخالف بچے کے جوتے میں سوئیاں ڈال دیتی ہے تاکہ جب صبح یہ بچے اٹھیں تو وہ زخمی ہو جائیں۔ ایسا کر کے یہ یتیم بچی خوب خوش ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور منظر میں یہ یتیم بچی مخالف لڑکے پر غیر اخلاقی حرکت اور تہمت کا الزام لگاکر خوش ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے لڑکے کا والد اس کی پٹائی لگا دیتا ہے۔ غور طلب بات یہاں یہ ہے کہ ان یتیم بچیوں کو ڈرامے میں ایک طرح سے ہیرو کے کردار میں دکھایا جا رہا ہے یا ایک اچھے انسان کے کردار میں پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس قسم کے ڈراموں سے ناظرین کی کیا تربیت ہوگی؟ یہی کہ وہ بھی اپنا بدلہ لینے کے لیے مخالف پارٹی کے ساتھ غلط کام کریں اور وہ بھی اسی خیال اور نظریے سے کہ یہ غلط کام کرنا جائز ہے یعنی اپنے حق کے لیے غلط کام جائز ہوجاتا ہے؟ غلط کام تو غلط ہوتا چاہے وہ نیک انسان کرے یا برا انسان کرے ۔
پھر تہمت جیسے الزام لگانے کی تربیت دے کر ڈراموں کے ذریعے اس معاشرے کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلط کام غلط ہوتا ہے خواہ اس کو برائی کے خاتمے کے لیے کیا جائے۔ اگر یہ اصول درست تسلیم کرلیا کہ بدی کو مٹانے کے لیے برے کام کرنے کا جواز درست ہے تو پھر معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا۔
ہر شخص اپنے تئیں کوئی غلط کام کریگا اور اس کی توجیح میں نیک نیتی پیش کرکے اپنی جان چھڑالے گا۔ ایک مرتبہ کسی مقدمے میں قاضی نے حضرت علیؓ کے خلاف اس لیے فیصلہ دے دیا کہ ان کے پاس کوئی گواہ موجود نہ تھا حالانکہ قاضی تک یہ جانتا تھا کہ آپؓ جھوٹ بول ہی نہیں سکتے چنانچہ اس نقطے سے قاضی چاہتا یا کوئی اور چاہتا تو نیک نیتی سے حضرت علیؓ کے حق میں جھوٹی گواہی دے سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
ایک اور تفریحی پروگرام میں جو بچوں کے کارٹون پر مشتمل ہے غلط تصورات پیش کیے گئے۔ بچوں کے اس پروگرام میں ایک لڑکی کو برقعہ پہن کر بدی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جو کتاب اور قلم لے کر برے لوگوں کا مقابلہ کر کے انھیں انجام تک پہنچاتی ہے۔ بچوں کا یہ پروگرام انتہائی مقبول ہے۔
ایک پروگرام میں دکھایا گیا کہ ایک اسکول ٹیچر (جوکہ اس کارٹون فلم کی ہیروئن ہے اور برقعہ و نقاب لگا کر اچھے کام کرتی ہے) کلاس میں بچوں کو درس دے رہی ہے۔ یہ ہیروئن ٹیچر جو بچوں کی ہر دل عزیز ہے ایک بچی کو کلاس روم میں کہتی ہے کہ گانا گاؤ! مت شرماؤ، گانا گانا تو بہت اچھی بات ہے۔ گانا گانے سے انسانی دماغ کے دونوں حصے کام کرتے ہیں۔ ڈرم بجانے سے ہاتھوں اور جسم کی ایکسرسائز ہوتی ہے، اس کے بعد بچوں کے اس پروگرام میں گانا پیش کیا گیا کہ :
چھنوکی آنکھ میں اک نشہ ہے
گالوں پہ اس کے تل کا نشاں ہے
نیز بچوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ''بچوں صحت کے لیے میوزک بہت ضروری ہے، سب سے بڑی بات اس سے ذہنی سکون ملتا ہے۔''
ہوسکتا ہے کہ بعض قارئین میرے اس اعتراض پہ کہیں کہ اے لکھاری صاحب! آپ کس صدی میں رہ رہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں راقم کا صرف ایک درد مندانہ سوال ہے وہ یہ کہ ہم بحیثیت پاکستانی اور مسلمان کیا نظریات رکھتے ہیں، جس دین پر ہمارا ایمان ہے اس کی تعلیمات کیا ہیں؟
اگر ہمارا دین یا نظریہ حیات یہ کہتا ہے کہ گانا بجانا میوزک سننا کار ثواب ہے اور اس سے ذہنی سکون ملتا ہے تو پھر اس قسم کے پروگرام درست ہیں اور یقیناً پاکستان میں ہمارے بچوں کو دیکھنا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ہمارا نظریہ حیات یا دین ''ذہنی سکون'' گانا سننے میں قرار نہیں دیتا اور گناہ قرار دیتا ہے تو پھر ہمیں اپنے نظریہ حیات سے عدم آہنگ ایسے پروگرام کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
اس ملک کی کوئی برقعہ پوش دین دار خاتون میوزک کی حامی نہیں۔ میڈیم کی حساسیت کے حوالہ سے ہمیں اپنے ناپختہ ناظرین کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ جن حضرات کا یہ خیال اور نظریہ ہو کہ گانا سننا، رقص کرنا واقعی ذہنی سکون کا باعث ہے اور گناہ ثواب کے چکر کو ایک طرف رکھ دیں تو پھر بھی ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پرائمری اسکول کے بچوں کو مخلوط تعلیمی ماحول میں کسی ٹیچر کی گانا سننے کی ترغیب دینا اور عشق محبت کے گانے سنانے کا عمل کرنا درست ہے؟ کیا اسکول کے ماحول اور معصوم بچوں کی عمر کا بھی کچھ لحاظ نہیں کرنا چاہیے؟
اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے نظریات درست سمت میں لے کر چلنا چاہیے خواہ عمل کی صورتحال کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو مثلاً میں اگر نماز نہیں پڑھتا تو یہ الگ بات ہے لیکن اگر یہ نظریہ قائم کرلو کہ نماز پڑھنا درست نہیں ہے تو یہ مسلم نظریے اور تعلیمات کے برعکس ہوگا اور غلط ہوگا، لہٰذا ہمارا عمل کچھ بھی ہو کم ازکم ہمیں اپنے نظریے میں ملاوٹ نہیں کرنا چاہیے اور درست اور غلط کے درمیان ایک لکیر ضرور کھینچنی چاہیے تاکہ نظریہ قائم رہے۔ آئیے غور کریں آپ کا اور میرا، ہم سب کا نظریہ حیات کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
تفریح کے اعتبار سے فلم اور ڈرامے ذرایع ابلاغ کا ایک خاصہ رہے ہیں دنیا بھر میں آج تک جہاں کہیں بھی ڈرامے اور فلمیں بنی ہیں خواہ وہ کمیونسٹ ممالک ہوں، سرمایہ دار یا کوئی اور، ان تمام میں مشترکہ مرکزی خیال یہی ہوتا تھا کہ نیکی ایک اچھی چیز ہے اور برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیشہ سے یہ اصولی بات بھی نمایاں رہی ہے کہ برائی کو ختم کرنے کے لیے اچھائی کا ہی سہارا لیتے ہوئے دکھایا گیا یعنی یہ اصول طے شدہ ہے کہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے ختم کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ذرایع ابلاغ سے بھی یہی اصول تفریحی پروگراموں میں کارفرما رہا یہاں تک کہ نجی ٹی وی چینلز کے آغاز کے بعد سے بھی یہ اصول نہیں بدلا۔ اس اصول کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ملکی مفادات کو بھی مدنظرکھا جاتا رہا ہے اور یہ کام محض پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہوتا ہے تاہم راقم نے کچھ عرصے سے محسوس کیا ہے کہ اس اصول کو اب نظرانداز کیا جانے لگا ہے۔ اس روش کی گوکہ ابھی ابتدا ہی محسوس ہو رہی ہے لیکن اس فاش غلطی کی جانب اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ ہمارے معاشرتی اور ملکی لحاظ سے انتہائی غلط اور خطرناک ہوسکتا ہے۔
راقم نے کچھ ہی عرصے قبل ایک ڈرامے کا منظر دیکھا کہ (جس میں کچھ یتیم بچیوں کا کردار تھا، ان بچیوں پر ان کے سگے رشتے دار ظلم کر رہے تھے اور ان رشتے داروں کے بچے انھیں تنگ کرتے تھے) ایک یتیم بچی مخالف بچوں کو سزا دینے کے لیے رات کے اندھیرے میں اٹھ کر مخالف بچے کے جوتے میں سوئیاں ڈال دیتی ہے تاکہ جب صبح یہ بچے اٹھیں تو وہ زخمی ہو جائیں۔ ایسا کر کے یہ یتیم بچی خوب خوش ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور منظر میں یہ یتیم بچی مخالف لڑکے پر غیر اخلاقی حرکت اور تہمت کا الزام لگاکر خوش ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے لڑکے کا والد اس کی پٹائی لگا دیتا ہے۔ غور طلب بات یہاں یہ ہے کہ ان یتیم بچیوں کو ڈرامے میں ایک طرح سے ہیرو کے کردار میں دکھایا جا رہا ہے یا ایک اچھے انسان کے کردار میں پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس قسم کے ڈراموں سے ناظرین کی کیا تربیت ہوگی؟ یہی کہ وہ بھی اپنا بدلہ لینے کے لیے مخالف پارٹی کے ساتھ غلط کام کریں اور وہ بھی اسی خیال اور نظریے سے کہ یہ غلط کام کرنا جائز ہے یعنی اپنے حق کے لیے غلط کام جائز ہوجاتا ہے؟ غلط کام تو غلط ہوتا چاہے وہ نیک انسان کرے یا برا انسان کرے ۔
پھر تہمت جیسے الزام لگانے کی تربیت دے کر ڈراموں کے ذریعے اس معاشرے کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلط کام غلط ہوتا ہے خواہ اس کو برائی کے خاتمے کے لیے کیا جائے۔ اگر یہ اصول درست تسلیم کرلیا کہ بدی کو مٹانے کے لیے برے کام کرنے کا جواز درست ہے تو پھر معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا۔
ہر شخص اپنے تئیں کوئی غلط کام کریگا اور اس کی توجیح میں نیک نیتی پیش کرکے اپنی جان چھڑالے گا۔ ایک مرتبہ کسی مقدمے میں قاضی نے حضرت علیؓ کے خلاف اس لیے فیصلہ دے دیا کہ ان کے پاس کوئی گواہ موجود نہ تھا حالانکہ قاضی تک یہ جانتا تھا کہ آپؓ جھوٹ بول ہی نہیں سکتے چنانچہ اس نقطے سے قاضی چاہتا یا کوئی اور چاہتا تو نیک نیتی سے حضرت علیؓ کے حق میں جھوٹی گواہی دے سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
ایک اور تفریحی پروگرام میں جو بچوں کے کارٹون پر مشتمل ہے غلط تصورات پیش کیے گئے۔ بچوں کے اس پروگرام میں ایک لڑکی کو برقعہ پہن کر بدی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جو کتاب اور قلم لے کر برے لوگوں کا مقابلہ کر کے انھیں انجام تک پہنچاتی ہے۔ بچوں کا یہ پروگرام انتہائی مقبول ہے۔
ایک پروگرام میں دکھایا گیا کہ ایک اسکول ٹیچر (جوکہ اس کارٹون فلم کی ہیروئن ہے اور برقعہ و نقاب لگا کر اچھے کام کرتی ہے) کلاس میں بچوں کو درس دے رہی ہے۔ یہ ہیروئن ٹیچر جو بچوں کی ہر دل عزیز ہے ایک بچی کو کلاس روم میں کہتی ہے کہ گانا گاؤ! مت شرماؤ، گانا گانا تو بہت اچھی بات ہے۔ گانا گانے سے انسانی دماغ کے دونوں حصے کام کرتے ہیں۔ ڈرم بجانے سے ہاتھوں اور جسم کی ایکسرسائز ہوتی ہے، اس کے بعد بچوں کے اس پروگرام میں گانا پیش کیا گیا کہ :
چھنوکی آنکھ میں اک نشہ ہے
گالوں پہ اس کے تل کا نشاں ہے
نیز بچوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ''بچوں صحت کے لیے میوزک بہت ضروری ہے، سب سے بڑی بات اس سے ذہنی سکون ملتا ہے۔''
ہوسکتا ہے کہ بعض قارئین میرے اس اعتراض پہ کہیں کہ اے لکھاری صاحب! آپ کس صدی میں رہ رہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں راقم کا صرف ایک درد مندانہ سوال ہے وہ یہ کہ ہم بحیثیت پاکستانی اور مسلمان کیا نظریات رکھتے ہیں، جس دین پر ہمارا ایمان ہے اس کی تعلیمات کیا ہیں؟
اگر ہمارا دین یا نظریہ حیات یہ کہتا ہے کہ گانا بجانا میوزک سننا کار ثواب ہے اور اس سے ذہنی سکون ملتا ہے تو پھر اس قسم کے پروگرام درست ہیں اور یقیناً پاکستان میں ہمارے بچوں کو دیکھنا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ہمارا نظریہ حیات یا دین ''ذہنی سکون'' گانا سننے میں قرار نہیں دیتا اور گناہ قرار دیتا ہے تو پھر ہمیں اپنے نظریہ حیات سے عدم آہنگ ایسے پروگرام کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
اس ملک کی کوئی برقعہ پوش دین دار خاتون میوزک کی حامی نہیں۔ میڈیم کی حساسیت کے حوالہ سے ہمیں اپنے ناپختہ ناظرین کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ جن حضرات کا یہ خیال اور نظریہ ہو کہ گانا سننا، رقص کرنا واقعی ذہنی سکون کا باعث ہے اور گناہ ثواب کے چکر کو ایک طرف رکھ دیں تو پھر بھی ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پرائمری اسکول کے بچوں کو مخلوط تعلیمی ماحول میں کسی ٹیچر کی گانا سننے کی ترغیب دینا اور عشق محبت کے گانے سنانے کا عمل کرنا درست ہے؟ کیا اسکول کے ماحول اور معصوم بچوں کی عمر کا بھی کچھ لحاظ نہیں کرنا چاہیے؟
اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے نظریات درست سمت میں لے کر چلنا چاہیے خواہ عمل کی صورتحال کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو مثلاً میں اگر نماز نہیں پڑھتا تو یہ الگ بات ہے لیکن اگر یہ نظریہ قائم کرلو کہ نماز پڑھنا درست نہیں ہے تو یہ مسلم نظریے اور تعلیمات کے برعکس ہوگا اور غلط ہوگا، لہٰذا ہمارا عمل کچھ بھی ہو کم ازکم ہمیں اپنے نظریے میں ملاوٹ نہیں کرنا چاہیے اور درست اور غلط کے درمیان ایک لکیر ضرور کھینچنی چاہیے تاکہ نظریہ قائم رہے۔ آئیے غور کریں آپ کا اور میرا، ہم سب کا نظریہ حیات کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟