ایک رکشے کا سوال ہے
آج کل فیمنیزم کے نام پر جو کچھ فیشن ایبل عورتوں نے غریب عورتوں کا استحصال کیا ہے یا ان کے نام پر کمایا ہے
مجھے انتہائی حیرت ہوتی ہے جب اس ملک میں کام کرنے والیNGOs اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر جو کسی بھی دن کو منانے کا موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یہ اور بات ہے کی جس حوالے سے یہ دن منائے جاتے ہیں۔
اس کا تسلسل نظر نہیں آتا۔ بڑے بڑے لوگ سج کر اسٹیج پر بیٹھتے ہیں، فلمی ڈائیلاگس کی طرح تقریریں سامنے بیٹھے ہوئے مخصوص لوگوں کے سروں میں مارے جاتے ہیں۔
تالیاں بجتی ہیں،کھایا پیا جاتا ہے اور بس ...یہی حال اس مرتبہ عورتوں کا عالمی دن منانے کے موقعے پر ہوا۔ حیرت کی بات ہے ۔ کیا ایسی سول سائٹی یا ایلیٹ کلاس اس ملک کو کیا ترقی دلائے گی، یہاں تو جمہوریت،امن وامان اورمفادعامہ کے کاموں کے نام پر اپنے اپنے پیٹ بھرے جاتے ہیں۔ اللہ اس ملک کا بھلا کرے، جو جتنا نااہل وہ اتنا بڑا آدمی بن جاتا ہے ۔
میں نے بھی یہ ٹھان لی کہ کیوں نہ اس دن کی مناسبت سے تالیاں بجانے کے بجائے کچھ نیا کروں یوں مجھے ایک ایسی نڈر، بہادراور باہمت خاتون کا پتہ چلا جو مردوں والے کام کرتی ہے صبح کے سورج کی چمکتی شعاعوں میں اسی عورت کے گاؤں کا رخ کیا ، اپنے دوستوں کی مدد سے اس کے گھر پہنچا اور ایک درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھ کر ان سے من کی باتیں پوچھیں ۔
آج کل فیمنیزم کے نام پر جو کچھ فیشن ایبل عورتوں نے غریب عورتوں کا استحصال کیا ہے یا ان کے نام پر کمایا ہے وہ تو قصہ ہی اور ہے لیکن ہمارے ہاں پرانے زمانے میں عورتوں کو سات قرآن سمجھ کر احترام دیا جاتا تھا، کتنا بھی گھمبیر معاملہ ہو اگر عورت کسی کے گھر چلی جاتی تو سب کچھ معاف کیا جاتا تھا۔ لیکن دوسری طرف عورت کا ایک دوسرا پہلو بھی تھا۔
شاہ لطیف سائیں نے اپنے ُسر سسی پنہوں میں اس پہلو کو شاندار نمونے سے بیان کیا ہے'' مجھے پیدا ہوتے ہی درد ملے، بڑی ہوئی تو سکھ ساتھ چھوڑکر روٹھ گئے، مجھ غریب کی تقدیر میں یہی کچھ مجھے نصیب ہوا۔'' ہاں تو لطیف سائیں کے ان اشعارکی حقیقی عکاسی کرنے والی یہ عورت ہے عذرا پروین بھٹی ۔اس کے والدین پہلے اسلام آباد سے آکر سانگھڑ کے قریب چک نمبر 22 میں بسے پھر یہیں چک نمبر 3 میں آ کے بسیرا ڈالا۔اسی چک نمبر 3 میں عذرا کوئی 30 سال پہلے پیدا ہوئیں ،اس ملک کی کئی ان پڑھ عورتوں کی طرح اسی بھی اپنی پیدائش کی تا ریخ کا صحیح پتہ نہیں ،صرف دل کی روشنی سے بتاتی ہیں۔
'جلاؤ دل کہ روشنی کم ہے۔'( فیض) ۔ نو بہن بھائیوں میں یہ تیسرے نمبر پر ہیں ان کی دوسری بہنیں بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں یہ جس جھونپڑی نما چھوٹے سے تنکوں کے گھر میں اپنی ایک اور بیمار بہن ، ماں اور بہن ،کے چھوٹے بچوں کے ساتھ کسمپرسی کی حالت میں رہتی ہیں ، وہ بھی پرایا ہے۔
ایسے لوگوں نے کبھی بھی اس ملک کی زمین پر اپنا حق جتانے کا دعوی نہیں کیا ۔ ان کے پاس کئی اور غریبوں کی طرح اس پاک سر زمین کا ایک انچ بھی اپنا نہیں۔ بچپن میں والد کے ساتھ ٹانگے پر چک سے سانگھڑ جاتیں ،تو آگے چل کر ان کے اندرکے انسان کو بھی یہ سفر راس آگیا۔ اس وقت ٹانگوں کی سواری کو شاہی سواری سمجھا جاتا تھا ،اس وقت اس علاقے میں رکشے کا کوئی وجود نہ تھا۔ بعد میں والد بیمار ہوئے تو ٹانگے کی لگام بھی خود سنبھال لی تن پر مردانہ لباس پہن کر ٹانگے پر مزدوری کرنا شروع کر دی ۔
جب آہستہ آہستہ رکشاؤں نے ٹانگوں کے کاروبار کو ختم کردیا توکبھی دو تین سوکمانے والی عذرا پروین کے پاس بیمار بوڑھے و الد کے لیے دوائیں اور گھر کے لیے آٹا سبزی لے جانے کے پیسے بھی نہ بچے ۔ اگر خالی ہاتھ واپس لوٹتی تو کسی واقف کار ٹھیلے والے سے ادھار سبزی لے جاتی ۔ گھر کا خرچہ بھی ان کے سر پر ،والدہ بوڑھی بہن بیمار ، والد فوت ہوگئے تو اسے ٹانگا بیچ کر قرض اتارنا پڑا۔اس دن وہ خوب روئی جب اپنے والد کی نشانی اور بچپن کی ساتھی کو بیچ دیا ۔
اپنے پڑوس کے گھر میں کام کرنے لگی ، ماہوار 800 روپے ملنے لگے ۔کسی من چلے سے شادی ہوئی تو تین ماہ کے بعد وہ بھی کوئی واردات کر کے بھاگ گیا ، آج تک نہ ملا۔دکھوں کے اوپر ایک اور دکھ ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ کیا کہ نوکری پیشہ لوگوں کے گھروالوں کو ڈاکٹر کے پاس یا بازار جانا ہوتا تو دن کو ان کی موٹر سائیکل پر لے جانا شروع کیا کیونکہ ان کے مرد حضرات دفتروں کو چلے جاتے ۔تو کوئی سو تو کوئی پچاس دیتا،تو مطمئن ہو جاتی کہ اپنے ہاتھ کی کمائی ہے ۔
چک والے راستے سے گذرنے پر ان پر طنز کے تیر برساتے لیکن کوئی پرواہ نہ کرتی۔ باقی دن تو چھوڑیں ، عید، شب برات پر بھی کپڑوں کا نیا جوڑا زندگی بھر نصیب نہ ہوا ۔ پھٹے، میلے مردانہ کپڑے پہننے کو ملے اور ہاں ذرا غور سے سنیے،اب بھی وہ اسی حال میں ہیں ۔صبح سویرے کسی پڑوسی کے گھر میں کام کرتی ہے ، پھر کسی عورت نے شہر جانا ہے تو موٹر بائیک پر لے جاتی ہیں اب ٹوٹل ماہانہ آمدنی 1500 ہے، گھر میں ماں، بہن ، بچے اور خود کھانے والے ہیں کیا ان کی یہ کل کمائی ان کے گھر کا چولہا جلا سکتی ہے ! اس ملک کی کئی نادار عورتوں کی طرح عذرہ پروین بچپن سے جوانی میں داخل ہونے کے بجائے بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں ۔
کبھی کبھی اوباش لڑکوں کے جنسی حملوں کا بھی خطرہ رہتا ہے پھر بھی ہمت نہ ہا ری، دنیا کو آئینی ہاتھوں سے نمٹ رہی ہیں ۔ کیا ہمیں عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر ان سے اظہار یکجہتی نہیں کرنا چاہیے ۔ہم جیسوں کی تو کئی خواہشیں ہوتی ہیں لیکن ان کی ایک ہی معصوم سی خواہش ہے کہ اسے رکشہ لے کے دیا جائے تو وہ بھی دوسروں کی طرح اپنا گھر چلا سکتی ہیں ۔ وہ کوئی بھیک نہیں مانگ رہی لیکن محنت مزدوری کرنا چاہتی ہیں ۔ ہے کسی میں ہمت اس ملک کے کروڑ پتی،ارب پتی، مخیر حضرات، این جی اوز، فیمنسٹ تنظیموں، سول سوسائٹی ، میں سے کوئی اس دکھوں کی ماری عورت کی مدد کرکے اپنا فرض ادا کرے۔ ایک رکشے کا سوال ہے ۔