سانحہ بلدیہ ٹاؤن 32لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس کا انتظار

ملکی تاریخ کی ہولناک ترین آگ نے 259 زندگیوں کے چراغ گل کردیے تھے


Raheel Salman October 11, 2012
حادثے میں جاں بحق ہونے والے 32 افراد کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں جن کی ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس تاحال موصول نہیں ہوئی ہیں. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

سانحہ بلدیہ ٹائون میں جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک خاتون سمیت مزید 5 افراد کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کرلی گئی ۔

حادثے میں جاں بحق ہونے والے 32 افراد کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں جن کی ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس تاحال موصول نہیں ہوئی ہیں ، تفصیلات کے مطابق 11 ستمبر کو بلدیہ ٹائون میں واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائزز میں ملکی تاریخ کی ہولناک ترین آگ نے 259 زندگیوں کے چراغ گل کردیے تھے، حادثے میں جاں بحق ہونے والے39افراد کی لاشیں ناقابل شناخت تھیں جن کے ورثا اور لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے ، 2 افراد کی شناخت منگل 9 اکتوبر کرلی گئی جبکہ بدھ کو روز مزید5افراد کی شناخت ہوگئی ، شناخت کیے جانے والوں میں 20 سالہ محمد اسرار ولد محمد یوسف ، 72 سالہ محمد حنیف ولد محمد یٰسین ، 30 سالہ محمد عمران ولد محمد رمضان ، محمد حارث ولد محمد رئوف اور 40 سالہ آمنہ زوجہ اللہ بخش شامل ہیں۔

متوفیان اورنگی ٹائون اور بلدیہ ٹائون کے رہائشی تھے، اس سے قبل منگل 9 اکتوبر کو دو لاشوں کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے مسعود الحسن اور فیضان کے نام سے ہوئی تھی جوکہ بالترتیب تیسر ٹائون سرجانی اور بلدیہ ٹائون کے رہائشی تھے،جاں بحق ہونیوالے32 افراد کی لاشیں اب بھی سرد خانے میں موجود ہیں جن کے ورثا کو ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس کا انتظار ہے ، واضح رہے کہ حادثے کو ملکی و بین الاقومی بدترین سانحات میں شمار کیا جارہا ہے جس میں 259 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

علاوہ ازیں جاں بحق ہونے والا محمد عمران2بچوں کا باپ تھا، متوفی کے کزن اعظم مغل نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کا آبائی تعلق لاہور سے ہے اور عمران کا چھوٹا بھائی لاہور میں والدین کے ہمراہ رہائش پذیر ہے،11 ستمبر کا دن ان کیلیے زندگی کا کربناک ترین دن تھا ، فیکٹری میں آگ کی اطلاع ملتے ہی عمران کے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا لیکن اس کا موبائل فون بند تھا، اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ نہ مل سکا ، والدین اور دیگر اہل خانہ بھی لاہور سے کراچی آگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں