یہ کیسا انتخاب ہے

یہ کیسا نظام ہے کہ جسے پسند کرنے والے کم ہیں مگر پھر بھی وہی عوامی نمائندہ بن رہا ہے؟


محمد نعیم April 28, 2015
حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ ہزاروں کی ووٹ بینک والے ایریاز میں بھی بعض امید واروں کی اکثریت ایسی بھی ہے جو پورے سو ووٹ بھی حاصل نہیں کرسکے۔

GILGIT: ہفتے کے روز ملک کے42 کنٹونمنٹ بورڈز میں 17 سال کی طویل مدت کے بعد انتخابات عمل میں آئے۔ غیرسرکاری نتائج کے مطابق اس مقابلے میں مسلم لیگ (ن) 68 نشستیں جیت کر پہلے نمبر پر رہی جبکہ 55 نشستیں آزاد امیدواروں کو ملیں جبکہ تحریک انصاف 43 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور سندھ میں ایم کیو ایم کا پلہ بھاری رہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں محض 7 نشستیں آئیں، جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد 7 رہی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا اسکور 2 سے آگے نہیں بڑھ سکا۔



ایک پاکستانی کی حیثیت سے میری طرف سے جیتنے والوں کو مبارک باد اور ہارنے والوں کے ساتھ ہمدردی کہ مستقبل میں محنت کرتے رہیں ایک دن ضرور آئے گا کہ جیت آپ کا بھی راستہ ضرور لے گی۔

اِس تمام تر تمہید کے بعد اب آتے ہیں اصل مسئلہ پر، اور وہ ہے انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے متعلق۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ٹرن آوٹ کے حوالے سے اگر مختصراً سمجھانے کی کوشش کروں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹرن آوٹ آٹے میں نمک سے بھی کم رہا۔ حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ ہزاروں کی ووٹ بینک والے ایریاز میں بھی بعض امید واروں کی اکثریت ایسی بھی ہے جو پورے سو ووٹ بھی حاصل نہیں کرسکے، بلکہ گلیات میں ایک امیدوار محض 11 ووٹ لیکر کامیاب ہوگیا۔

اب ایسے موقع پر میں یہ سمجھنا چاہوں گا اگر کوئی سمجھانا چاہے کہ بھلا انتخابات سے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ کوئی یہ دعویٰ کیوں کر پائے گا کہ وہ عوام کی رائے دہی سے منتخب ہو کر آیا ہے؟ جبکہ اس کنٹونمنٹ بورڈ میں رہنے والے چند درجن افراد نے اس کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالا ہے، اگرچہ اُس کی مخالفت میں بھی ووٹ پڑے لیکن اُن ہزاروں افراد کا کیا کہ جو انتخاب والے دن محض چھٹی مناتے رہے۔ ایسی صورت میں جیتنے والے کو اکثریت کا نمائندہ کیسے کہا جائے؟



یہ کیسا نظام ہے کہ جسے پسند کرنے والے کم ہیں مگر پھر بھی وہی عوامی نمائندہ بن رہا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ انتخاب کے مذکورہ حلقے یا وارڈ میں موجود کل افراد کے حساب سے زیادہ جو زیادہ فیصد ووٹ لے، نمائندگی اسے ملے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پسند کرنے والے تھوڑے اور ناپسند کرنے والے زیادہ ہوں اور تب بھی وہ پارٹی جیت جائے؟

لیکن اِس میں قصور جیتنے والے کا ہرگز نہیں ہے بلکہ قصور تو اُن لوگوں کا ہے جو انتخاب والے دن آرام کو ترجیح دیتے ہیں اور باقی 5 پانچ سال جیتنے والے کو بُرا بھلا کہنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں کہ درحقیقت اصل مجرم یہی ہیں، اور اگر مجھ سے پوچھا جائے تو ووٹ نہ دینے والوں کو بھی ویسے ہی سزا ملنی چاہیے جو کسی بھی مجرم کو ملتی ہے۔



اگریہ الیکشن ایک پارٹی کے بعد دوسری کو لوٹا ماری کے لیے باری دینے کا نام ہے تو اس کے لیے سرکاری فنڈ اورسرکاری مشینری کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام تو سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر بھی کرسکتی ہیں۔ الیکشن کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن ایک عمل کو 17 سال سے ٹالا جا رہا تھا۔ اب بھی بلدیاتی انتخابات اِس لیے کروائے جارہے ہیں کہ عدالت کا دباو بہت زیادہ ہے۔



نوٹ: اگر عوام میں سے کوئی اس غلط فہمی میں ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز یا بلدیات کے انتخابات کے بعد ان کے مسائل حل ہو جائیں گے تو وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔ آپ کا ووٹ نہ آپ کی حالت بدلے گا نہ ملک کی تقدیر بلکہ اس سے صرف جیب تبدیل ہو گی۔جس میں آپ کے نام پر لیے گئے فنڈز کا پیسہ جائے گا۔

[poll id="386"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔