کیس تو ٹریس ہے
کچھ دن بعد مجھے بتایا گیا کہ تھانیدار اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں سب کو لے آیا ہے...
PESHAWAR:
میرے بچپن کا کلاس فیلو خواجہ جاویدوسطی پنجاب کے ایک ضلعے میں اسٹیل کی فیکٹری کا مالک ہے ، وہ ایک خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ چند مہینے قبل اس کا فون آیا کہ فیکٹری میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور کافی نقصان ہوا ہے، میں نے مقامی ایس پی کو فون کیا تو اس نے متعلقہ ایس ایچ او کوہدایات دیں ۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارروائی شروع کردی جس سے جاوید مطمئن ہوگیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جاوید پریشانی کی حالت میں میرے پاس آیا اورآتے ہی کہنے لگا "آپ کی مدد کا بہت شکریہ مگر یہ مدد واپس لے لیں ، میں نے چار مہینے پہلے پولیس بھجوانے کے لیے فون کیا تھا، آج یہ کہنے آیا ہوں کہ پولیس واپس بلوالیں ، میں آپکابہت شکر گزار ہونگا"۔ مگر ایسا کیا ہوا ؟ کیا آپ پولیس کی کوششوں سے مطمئن نہیں ؟ میں نے پوچھا۔ جاوید کہنے لگا سننا چاہتے ہوتو پورا قصّہ سن لو!
''واردات کے روزمتعلقہ ایس ایچ او فیکٹری میں آیا اور موقعہ دیکھنے کے بعد کہنے لگا کہ اس کیس کی تفتیش ایک تجربہ کار اور قابل سب انسپکٹر کے سپرد کی ہے میں خود بھی نگرانی کرتا رہوں گا آپ فکر نہ کریں۔ ہم مطمئن ہوگئے۔دوسرے روز کالی عینک لگائے ایک مونچھ بردار تھانیدار آپہنچا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ''میں ہوں اے۔ڈی چوہدری جو کھوپڑی کی مدد سے قتل ٹریس کر لیتا ہے۔
درجنوں اندھے قتل ٹریس کیے ہیں"۔ میں نے کہا ''شکر ہے یہاں کوئی قتل نہیں ہوا''۔ کہنے لگا 'مجھے جائے واردات کا معائنہ کرائیں،وہاں جا کروہ فرش اور دیواروں کو سونگھنے لگا اور کبھی دائیں اورکبھی بائیں کالی عینک کاشیشہ لگا کر دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بولا ایک چیز کا اے ڈی چوہدری نے فوراََ پتہ لگالیا ہے ہم نے پوچھا وہ کیا؟ کہنے لگا ''مجرم ایک نہیں تھا، زیادہ تھے اوروہ خالی ہاتھ نہیں تھے''۔
تھانیدار کی اس ''کامیابی'' سے متاثر ہوئے بغیر ہمارے منیجر نے کہا ''حضور ! سونگھنے کے لیے تو حکومت نے چار ٹانگوں والے ایکسپرٹ رکھے ہوئے ہیں؟'' آپ ان کے فرائض کیوں انجام دے رہے ہیں اور فنگر پرنٹ کے لیے آپکو دروازے اور شیشے دیکھنے چاہیں''کہنے لگا'' دیکھیں منیجر صاحب کیا نام ہے آپ کا ۔منیجر نے نام بتایا توکہنے لگا'' میں نام سے ہی بندے کی ہسٹری شیٹ پڑھ لیتا ہوں۔ خیر نام سے توآپ کوئی بڑے وارداتئے نہیں لگتے ۔
خیال رکھیں میں تفتیش کر تا ہوں سینسی (سائنسی) طریقے سے!آپ تفتیش میں دخل دینے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش نہ کریں''منیجر خاموش ہو گیا تو تھانیدار پُوچھنے لگا ''فیکٹری میں کون کون حصے دارہیں ؟'' ہم نے نام بتائے تو آخری نام پر لمبی''ہُوں'' کر کے کہنے لگا ''یہ نام مشکوک لگتا ہے اسے تو شامل تفتیش کرنا ہی پڑے گا''۔ بعد میں معلوم ہوا کہ تمام پارٹنرزکو پوچھ گچھ کے نام پر بلایا جاتا رہا جنہوں نے بھاری رشوت دیکر جان چھڑائی۔ چند روز بعد تھانیدار میرے پاس آیا اور کہنے لگا ''کیس پیچیدہ ہے، تفتیش کا دائرہ بڑھانا پڑے گا'' میں نے کہا ضرور بڑھائیں۔
پھر پوچھنے لگاـ''یہ بتائیں کہ اس شہر میں اس قسم کی اور کتنی فیکٹریاں ہیں اور ان کے مالک کون کون ہیں ؟'' میں نے کہا اور بھی ہیں مگر ان کے مالکان شریف لو گ ہیں ! قہقہہ لگا کر کہنے لگا'' خواجہ صاحب آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں اپنے دشمنوں کو شریف کہہ رہے ہیں آپ جیسا شریف بھی کہیں نہیں دیکھا'' ۔ بعد میں پتہ چلا کہ تھانیدار نے دوسری فیکٹریوں کے مالکان اور منیجروں سے تفتیش کے نام پرپیسے بٹورنے کے علاوہ اپنے دومیٹرک فیل بھتیجوں کو ان کی فیکٹریوں میں ملازم بھی رکھوالیا ہے۔
کچھ دن بعد مجھے بتایا گیا کہ تھانیدار اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں سب کو لے آیا ہے اور وہ فیکٹری کے ریسٹ ہاؤس (جو باہر سے آنے والے ٹیکنیکل ایکسپرٹس کے لیے مخصوص تھا) پر قابض ہو چکے ہیں۔اس پر منیجر نے اعتراض کیا توکہنے لگا کہ ''منیجر صاحب آپ کو کیا پتہ تفتیش کیا ہوتی ہے !کیونکہ اس معاملے میں آپ جاہلِ مطلق ہیں، تفتیش میں بہت نفری درکار ہوتی ہے یہ نوجوان جو اپنا قیمتی وقت ضایع کر کے میرے ساتھ آئے ہیں یہ مجھے مفید معلومات بھی لا کر دیں گے اور مشتبہ گا ن پر نظر بھی رکھیں گے اس سے آپ کا کیس بہت جلد ٹریس ہو جائیگا، سمجھ گئے نا !''
دو ہفتوں کے بعد ایک دن تھانیدار میرے پاس آیا اور آتے ہی کہنے لگا ''مبارک ہو خواجہ صاحب مبارک ہو، آپ کے مجرم پکڑے گئے''میں نے خوش ہو کر پوچھا ''کہاں ہیں مجرم؟''کہنے لگا '' اسلام آباد پولیس نے بالکل ایسی ہی وارداتوں میں ملو ّث کچھ گینگ پکڑے ہیں بس وہاں جانا ہے اور اپنے مجرم چُن کر لے آنے ہیں آپ فوری طور پرگاڑی کا بندوبست کر دیں''۔
میں نے ایک کار بمعہ ڈرائیور فراہم کر دی۔ ڈرائیور نے واپس آکر بتایا کہ اسلام آباد کے پاس پہنچ کر تھانیدار کہنے لگا واردات کا رخ مجھے طالبان کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا ہے، میری تفتیشی حِس، ایبٹ آباد کا نام لے رہی ہے۔ پہلے ایبٹ آباد کو کلئیرکر لیں، پھر اسلام آباد بھی دیکھ لیں گے۔
میں نے کار ایبٹ آباد کی طرف موڑ لی۔ وہاں تھانیدار نے اپنی پھوپھی زاد کے پاس جا کر چھ ماہ پہلے مری ہوئی بھینس کا افسوس کیا پھر ایک سالی کے پاس اظہار ِ ہمدردی کے لیے گیا جسکی چھوٹی بیٹی دو ہفتے پہلے اپنے دوست کے ساتھ بھاگ گئی تھی، اس کے بعد ایک ، دو دوستوں سے ملا، ان سے گپ شپ کی اور یہ کہہ کر واپس آگیا کہ ''ایبٹ آباد کا دورہ بڑا مفید رہا ہے اب اگر مجرموں نے ادھر کا رُخ کیا تو سمجھیں سیدھے موت کے منہ میں آگئے''۔
ایک ہفتے بعد میرا منیجر غصے کی حالت میں آیا اور آتے ہی پھٹ پڑا کہ آج صبح تھانیدار نے ایک سپاہی، یہ ہدایات دیکر بھیجا ہے کہ ''چوہدری صاحب سادہ خوراک کے عادی ہیں دیسی گھی میں پکے ہوئے دیسی مرغ کے علاوہ ناشتے میں کچھ نہیں لیں گے۔ کھانے میں چھوٹے بکرے کا مغز اور نلی کا گوشت کھائیں گے ،اس کے علاوہ اپنا تفتیشی دماغ تازہ رکھنے کے لیے رات کو بادام ،خالص دودھ کے ساتھ لیتے ہیں ''۔ قریبی گاؤں سے آیا ہوا ایک شخص بول اٹھا کہ ''تھانیدار اور اس کا کُنبہ ارد گرد سب دیہاتوں کے مرغے تو کھا چکا ہے۔تھانیدار سے پوچھو اب اس نے انسانوں کا مغز کھانا ہے ؟''
دو مہینے اسی طرح گزر گئے تو میں نے پریشان ہو کر تھانیدار سے پوچھا''چوہدری صاحب آپ نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ جتنا نقصان ہوا تھا اتنے پیسے اُوپر لگ گئے ہیں، پچیس ، تیس آدمیوں کو روزانہ کھانا دیا جا رہا ہے مگر نتیجہ صفرہے''۔ کہنے لگا ''آج تو آپ کے مجرم پکڑے گئے تھے لیکن آپکی وجہ سے نکل گئے'' ۔
میری وجہ سے کیوں ؟ میں نے غصّے سے پوچھا۔ کہنے لگا''آپ کی دی ہو ئی کار اتنی پرانی ہے کہ مجرموں کو پکڑ نہیں سکتی، اس کی اسپیڈ کم ہے ، مجرموں کی کارتیز رفتاری کی وجہ سے ہماری نظروں کے سامنے سے نکل گئی اگر گاڑی اچھی ہوتی تو اے ڈی چوہدری ڈاکوؤں کو گھسیٹ کر لاتا اور آپ کے قدموں میں ڈال دیتا ۔'' پھر کہنے لگا ''نئی کار کے بغیر تو مجرم اسی طرح آپ کی آنکھوں کے سامنے نکل جایا کریں گے''۔
غصہ تو بہت آیا مگر مجبوراً تھانیدار کو نئی کار دے دی تاکہ مجرموں کو Chaseکرنے کے لیے اس کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے۔ کچھ دنوں بعد میرے اسٹاف نے رپورٹ دی کہ نئی کار تھانیدار کے لڑکوں کے زیر ِ استعمال ہے اور وہ تفتیش کے سوا ہر قسم کے سماجی اور ثقافتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تھانیدار کے لڑکوں نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا ہے کہ کار صرف ان مقاصد کے لیے استعمال ہو جن کا تفتیش سے کوئی تعلق نہ ہومثلاً سینما یا تھیٹر دیکھنے کے لیے ، مری کی سیر کے لیے ، دور کی شادیوں پر جانے کے لیے اور بھینس کے لیے چارہ لانے اور لے جانے کے لیے میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
کوئی دو ہفتے بعد تھانیدار مجھے پھر ملا اور کہنے لگا ''کیس کے متعلق بہت ضروری بات ہے جو آپ سے علیحدہ کرنی ہے''۔ میں بڑا خوش ہو ا کہ شاید کوئی مفید شہادت یا Clue میّسر آگیا ہے ۔ ہم علیحدہ کمرے میں چلے گئے، وہاں جا کر مجھ سے کہنے لگا ، خواجہ صاحب کیس تو سمجھیں ٹریس ہے، بس دو پریشانیاں ہیں جو تفتیش میں رکاوٹ بن رہی ہیں، وہ دور ہو جائیں اورمیں ذہنی طور پر مطمئن ہو جاؤں تو سمجھیں اگلے روز آپ کے مجرم حوالات میں بند ہونگے۔
'' میں نے پوچھا کیا پریشانیاں ہیں اور اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ کہنے لگا ''ایک تو مجَ ٹپ گئی ہے (بھینس کا دودھ سوکھ گیا ہے) اور میرے بیوی بچے دودھ کی بوند کو ترس گئے ہیں، بچوں کی پیاس دیکھی نہیں جاتی۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ میرا بڑا بچہ جو گدھے کا بچہ نکلا ہے مڈل میں ہی گوڈا لگا گیا اورآگے پڑھ نہیں سکا اس پاگل کے پُتّر کو اپنی فیکٹری میں کہیں ملازمت دے دیں تو میرا ذہنی بوجھ اتر جائیگا۔ اس کے اگلے روز ہی مجرموں کے گریبان پر پہلا ہاتھ اے ڈی چوہدری کا پڑیگا۔''
میں نے بھینس کیلے ایک لاکھ روپے دے دیے اور تھانیدار کے دو بیٹوں کو فیکٹری میں سیکیورٹی گارڈ بھی رکھ لیا تاکہ اب یہ کیس پر پوری توجہ دے اور اسے ٹریس کرنے کے لیے پورا زور لگادے۔چار مہینے مزیدگذر گئے مگر کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ بالآخر میں نے تنگ آکر تھانیدار کو بلا کر کہہ دیا کہ آپ نے ہمارا اتنا پیسہ بھی لگوادیا مگر واردات کا سراغ لگانے میں آپ بالکل ناکام رہے ہیں۔
آپ نے بہت مایوس کیا ہے۔ تھانیدار پریشان ہو ا مگر پھر سنبھل کر بولا ''خواجہ صاحب آپ خواہ مخواہ مایوس ہو رہے ہیں ، کیس تو تقریبََا ٹریس ہے بس ذرا دیر سویر ہو جاتی ہے''۔ میں نے غصے سے کہا '' آپ کے ہاں تو دیر ہی دیر ہے سویر تو کوئی نظر نہیں آئی''۔ کہنے لگا ''خواجہ صاحب میں نے آٹھ آٹھ سال بعد کیس ٹریس کیے ہیں۔
آپ اطمینا ن رکھیں اے ڈی چوہدری سے نہ کوئی جرم چھُپ سکتا ہے اور نہ کوئی مجرم بچ سکتا ہے''میں نے کہا ''اے ڈی چوہدری صاحب بہتر ہے آپ ہمیں معاف کریں اور جا کر کسی اور کی خدمت کریں''اس نے پاؤں پسارنے کی کوشش کی مگر میں نے زور دیکر کہا کہ ہماری جان چھوڑیں تو اس نے باد لِ نخواستہ اپنا سامان اٹھا لیا اور جاتے جاتے پھر کہنے لگا کہ ''کیس تو ٹریس ہی ہے ، بس آپ ذرا جلد بازی سے کام لے رہے ہیں''۔ اس روز تو تھانیدار چلا گیا مگر دوسرے دن پھر آگیا کہ ''ایس پی صاحب نے حکم دیا ہے جاؤ اورڈکیتی ٹریس کر کے ہی واپس آنا''۔
اب جاوید مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا دیکھیں '' نقصان کے علاوہ تفتیش کے نام پر میرا لاکھوں روپیہ ضایع ہو گیا ہے، تھانیدار نے نئی گاڑی تباہ کر دی ہے ،اپنے دو مڈل فیل لڑکے ہماری فیکٹری میں بھی ملازم کرا لیے اور دور دور تک کیس ٹریس ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ، مجھے نہیں چاہیے ایسی تفتیش، آپ ایس پی صاحب سے کہہ دیں کہ ، مہربانی کر کے پولیس کو واپس بلا لیں '' ۔
میں نے اسے تسلی دی اور متعلقہ پولیس افسر کو فون بھی کر دیا، کل جاوید کا پھر فون آیا کہ''ایس پی صاحب کا فون آیا تھا کہ انھوں نے ڈکیتی کی تفتیش اس سب انسپکٹر سے لے کر سی آئی اے کے سپرد کر دی ہے''۔ اے ڈی چوہدری کو ہدایات ملیں تو پریشان ہو کر میرے پاس آیا اور پھر کہنے لگا کہ ''کیس تو ٹریس ہے آگے آپ کی اور ایس پی صاحب کی مرضی!''
میرے بچپن کا کلاس فیلو خواجہ جاویدوسطی پنجاب کے ایک ضلعے میں اسٹیل کی فیکٹری کا مالک ہے ، وہ ایک خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ چند مہینے قبل اس کا فون آیا کہ فیکٹری میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور کافی نقصان ہوا ہے، میں نے مقامی ایس پی کو فون کیا تو اس نے متعلقہ ایس ایچ او کوہدایات دیں ۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارروائی شروع کردی جس سے جاوید مطمئن ہوگیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جاوید پریشانی کی حالت میں میرے پاس آیا اورآتے ہی کہنے لگا "آپ کی مدد کا بہت شکریہ مگر یہ مدد واپس لے لیں ، میں نے چار مہینے پہلے پولیس بھجوانے کے لیے فون کیا تھا، آج یہ کہنے آیا ہوں کہ پولیس واپس بلوالیں ، میں آپکابہت شکر گزار ہونگا"۔ مگر ایسا کیا ہوا ؟ کیا آپ پولیس کی کوششوں سے مطمئن نہیں ؟ میں نے پوچھا۔ جاوید کہنے لگا سننا چاہتے ہوتو پورا قصّہ سن لو!
''واردات کے روزمتعلقہ ایس ایچ او فیکٹری میں آیا اور موقعہ دیکھنے کے بعد کہنے لگا کہ اس کیس کی تفتیش ایک تجربہ کار اور قابل سب انسپکٹر کے سپرد کی ہے میں خود بھی نگرانی کرتا رہوں گا آپ فکر نہ کریں۔ ہم مطمئن ہوگئے۔دوسرے روز کالی عینک لگائے ایک مونچھ بردار تھانیدار آپہنچا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ''میں ہوں اے۔ڈی چوہدری جو کھوپڑی کی مدد سے قتل ٹریس کر لیتا ہے۔
درجنوں اندھے قتل ٹریس کیے ہیں"۔ میں نے کہا ''شکر ہے یہاں کوئی قتل نہیں ہوا''۔ کہنے لگا 'مجھے جائے واردات کا معائنہ کرائیں،وہاں جا کروہ فرش اور دیواروں کو سونگھنے لگا اور کبھی دائیں اورکبھی بائیں کالی عینک کاشیشہ لگا کر دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بولا ایک چیز کا اے ڈی چوہدری نے فوراََ پتہ لگالیا ہے ہم نے پوچھا وہ کیا؟ کہنے لگا ''مجرم ایک نہیں تھا، زیادہ تھے اوروہ خالی ہاتھ نہیں تھے''۔
تھانیدار کی اس ''کامیابی'' سے متاثر ہوئے بغیر ہمارے منیجر نے کہا ''حضور ! سونگھنے کے لیے تو حکومت نے چار ٹانگوں والے ایکسپرٹ رکھے ہوئے ہیں؟'' آپ ان کے فرائض کیوں انجام دے رہے ہیں اور فنگر پرنٹ کے لیے آپکو دروازے اور شیشے دیکھنے چاہیں''کہنے لگا'' دیکھیں منیجر صاحب کیا نام ہے آپ کا ۔منیجر نے نام بتایا توکہنے لگا'' میں نام سے ہی بندے کی ہسٹری شیٹ پڑھ لیتا ہوں۔ خیر نام سے توآپ کوئی بڑے وارداتئے نہیں لگتے ۔
خیال رکھیں میں تفتیش کر تا ہوں سینسی (سائنسی) طریقے سے!آپ تفتیش میں دخل دینے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش نہ کریں''منیجر خاموش ہو گیا تو تھانیدار پُوچھنے لگا ''فیکٹری میں کون کون حصے دارہیں ؟'' ہم نے نام بتائے تو آخری نام پر لمبی''ہُوں'' کر کے کہنے لگا ''یہ نام مشکوک لگتا ہے اسے تو شامل تفتیش کرنا ہی پڑے گا''۔ بعد میں معلوم ہوا کہ تمام پارٹنرزکو پوچھ گچھ کے نام پر بلایا جاتا رہا جنہوں نے بھاری رشوت دیکر جان چھڑائی۔ چند روز بعد تھانیدار میرے پاس آیا اور کہنے لگا ''کیس پیچیدہ ہے، تفتیش کا دائرہ بڑھانا پڑے گا'' میں نے کہا ضرور بڑھائیں۔
پھر پوچھنے لگاـ''یہ بتائیں کہ اس شہر میں اس قسم کی اور کتنی فیکٹریاں ہیں اور ان کے مالک کون کون ہیں ؟'' میں نے کہا اور بھی ہیں مگر ان کے مالکان شریف لو گ ہیں ! قہقہہ لگا کر کہنے لگا'' خواجہ صاحب آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں اپنے دشمنوں کو شریف کہہ رہے ہیں آپ جیسا شریف بھی کہیں نہیں دیکھا'' ۔ بعد میں پتہ چلا کہ تھانیدار نے دوسری فیکٹریوں کے مالکان اور منیجروں سے تفتیش کے نام پرپیسے بٹورنے کے علاوہ اپنے دومیٹرک فیل بھتیجوں کو ان کی فیکٹریوں میں ملازم بھی رکھوالیا ہے۔
کچھ دن بعد مجھے بتایا گیا کہ تھانیدار اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں سب کو لے آیا ہے اور وہ فیکٹری کے ریسٹ ہاؤس (جو باہر سے آنے والے ٹیکنیکل ایکسپرٹس کے لیے مخصوص تھا) پر قابض ہو چکے ہیں۔اس پر منیجر نے اعتراض کیا توکہنے لگا کہ ''منیجر صاحب آپ کو کیا پتہ تفتیش کیا ہوتی ہے !کیونکہ اس معاملے میں آپ جاہلِ مطلق ہیں، تفتیش میں بہت نفری درکار ہوتی ہے یہ نوجوان جو اپنا قیمتی وقت ضایع کر کے میرے ساتھ آئے ہیں یہ مجھے مفید معلومات بھی لا کر دیں گے اور مشتبہ گا ن پر نظر بھی رکھیں گے اس سے آپ کا کیس بہت جلد ٹریس ہو جائیگا، سمجھ گئے نا !''
دو ہفتوں کے بعد ایک دن تھانیدار میرے پاس آیا اور آتے ہی کہنے لگا ''مبارک ہو خواجہ صاحب مبارک ہو، آپ کے مجرم پکڑے گئے''میں نے خوش ہو کر پوچھا ''کہاں ہیں مجرم؟''کہنے لگا '' اسلام آباد پولیس نے بالکل ایسی ہی وارداتوں میں ملو ّث کچھ گینگ پکڑے ہیں بس وہاں جانا ہے اور اپنے مجرم چُن کر لے آنے ہیں آپ فوری طور پرگاڑی کا بندوبست کر دیں''۔
میں نے ایک کار بمعہ ڈرائیور فراہم کر دی۔ ڈرائیور نے واپس آکر بتایا کہ اسلام آباد کے پاس پہنچ کر تھانیدار کہنے لگا واردات کا رخ مجھے طالبان کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا ہے، میری تفتیشی حِس، ایبٹ آباد کا نام لے رہی ہے۔ پہلے ایبٹ آباد کو کلئیرکر لیں، پھر اسلام آباد بھی دیکھ لیں گے۔
میں نے کار ایبٹ آباد کی طرف موڑ لی۔ وہاں تھانیدار نے اپنی پھوپھی زاد کے پاس جا کر چھ ماہ پہلے مری ہوئی بھینس کا افسوس کیا پھر ایک سالی کے پاس اظہار ِ ہمدردی کے لیے گیا جسکی چھوٹی بیٹی دو ہفتے پہلے اپنے دوست کے ساتھ بھاگ گئی تھی، اس کے بعد ایک ، دو دوستوں سے ملا، ان سے گپ شپ کی اور یہ کہہ کر واپس آگیا کہ ''ایبٹ آباد کا دورہ بڑا مفید رہا ہے اب اگر مجرموں نے ادھر کا رُخ کیا تو سمجھیں سیدھے موت کے منہ میں آگئے''۔
ایک ہفتے بعد میرا منیجر غصے کی حالت میں آیا اور آتے ہی پھٹ پڑا کہ آج صبح تھانیدار نے ایک سپاہی، یہ ہدایات دیکر بھیجا ہے کہ ''چوہدری صاحب سادہ خوراک کے عادی ہیں دیسی گھی میں پکے ہوئے دیسی مرغ کے علاوہ ناشتے میں کچھ نہیں لیں گے۔ کھانے میں چھوٹے بکرے کا مغز اور نلی کا گوشت کھائیں گے ،اس کے علاوہ اپنا تفتیشی دماغ تازہ رکھنے کے لیے رات کو بادام ،خالص دودھ کے ساتھ لیتے ہیں ''۔ قریبی گاؤں سے آیا ہوا ایک شخص بول اٹھا کہ ''تھانیدار اور اس کا کُنبہ ارد گرد سب دیہاتوں کے مرغے تو کھا چکا ہے۔تھانیدار سے پوچھو اب اس نے انسانوں کا مغز کھانا ہے ؟''
دو مہینے اسی طرح گزر گئے تو میں نے پریشان ہو کر تھانیدار سے پوچھا''چوہدری صاحب آپ نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ جتنا نقصان ہوا تھا اتنے پیسے اُوپر لگ گئے ہیں، پچیس ، تیس آدمیوں کو روزانہ کھانا دیا جا رہا ہے مگر نتیجہ صفرہے''۔ کہنے لگا ''آج تو آپ کے مجرم پکڑے گئے تھے لیکن آپکی وجہ سے نکل گئے'' ۔
میری وجہ سے کیوں ؟ میں نے غصّے سے پوچھا۔ کہنے لگا''آپ کی دی ہو ئی کار اتنی پرانی ہے کہ مجرموں کو پکڑ نہیں سکتی، اس کی اسپیڈ کم ہے ، مجرموں کی کارتیز رفتاری کی وجہ سے ہماری نظروں کے سامنے سے نکل گئی اگر گاڑی اچھی ہوتی تو اے ڈی چوہدری ڈاکوؤں کو گھسیٹ کر لاتا اور آپ کے قدموں میں ڈال دیتا ۔'' پھر کہنے لگا ''نئی کار کے بغیر تو مجرم اسی طرح آپ کی آنکھوں کے سامنے نکل جایا کریں گے''۔
غصہ تو بہت آیا مگر مجبوراً تھانیدار کو نئی کار دے دی تاکہ مجرموں کو Chaseکرنے کے لیے اس کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے۔ کچھ دنوں بعد میرے اسٹاف نے رپورٹ دی کہ نئی کار تھانیدار کے لڑکوں کے زیر ِ استعمال ہے اور وہ تفتیش کے سوا ہر قسم کے سماجی اور ثقافتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تھانیدار کے لڑکوں نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا ہے کہ کار صرف ان مقاصد کے لیے استعمال ہو جن کا تفتیش سے کوئی تعلق نہ ہومثلاً سینما یا تھیٹر دیکھنے کے لیے ، مری کی سیر کے لیے ، دور کی شادیوں پر جانے کے لیے اور بھینس کے لیے چارہ لانے اور لے جانے کے لیے میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
کوئی دو ہفتے بعد تھانیدار مجھے پھر ملا اور کہنے لگا ''کیس کے متعلق بہت ضروری بات ہے جو آپ سے علیحدہ کرنی ہے''۔ میں بڑا خوش ہو ا کہ شاید کوئی مفید شہادت یا Clue میّسر آگیا ہے ۔ ہم علیحدہ کمرے میں چلے گئے، وہاں جا کر مجھ سے کہنے لگا ، خواجہ صاحب کیس تو سمجھیں ٹریس ہے، بس دو پریشانیاں ہیں جو تفتیش میں رکاوٹ بن رہی ہیں، وہ دور ہو جائیں اورمیں ذہنی طور پر مطمئن ہو جاؤں تو سمجھیں اگلے روز آپ کے مجرم حوالات میں بند ہونگے۔
'' میں نے پوچھا کیا پریشانیاں ہیں اور اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ کہنے لگا ''ایک تو مجَ ٹپ گئی ہے (بھینس کا دودھ سوکھ گیا ہے) اور میرے بیوی بچے دودھ کی بوند کو ترس گئے ہیں، بچوں کی پیاس دیکھی نہیں جاتی۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ میرا بڑا بچہ جو گدھے کا بچہ نکلا ہے مڈل میں ہی گوڈا لگا گیا اورآگے پڑھ نہیں سکا اس پاگل کے پُتّر کو اپنی فیکٹری میں کہیں ملازمت دے دیں تو میرا ذہنی بوجھ اتر جائیگا۔ اس کے اگلے روز ہی مجرموں کے گریبان پر پہلا ہاتھ اے ڈی چوہدری کا پڑیگا۔''
میں نے بھینس کیلے ایک لاکھ روپے دے دیے اور تھانیدار کے دو بیٹوں کو فیکٹری میں سیکیورٹی گارڈ بھی رکھ لیا تاکہ اب یہ کیس پر پوری توجہ دے اور اسے ٹریس کرنے کے لیے پورا زور لگادے۔چار مہینے مزیدگذر گئے مگر کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ بالآخر میں نے تنگ آکر تھانیدار کو بلا کر کہہ دیا کہ آپ نے ہمارا اتنا پیسہ بھی لگوادیا مگر واردات کا سراغ لگانے میں آپ بالکل ناکام رہے ہیں۔
آپ نے بہت مایوس کیا ہے۔ تھانیدار پریشان ہو ا مگر پھر سنبھل کر بولا ''خواجہ صاحب آپ خواہ مخواہ مایوس ہو رہے ہیں ، کیس تو تقریبََا ٹریس ہے بس ذرا دیر سویر ہو جاتی ہے''۔ میں نے غصے سے کہا '' آپ کے ہاں تو دیر ہی دیر ہے سویر تو کوئی نظر نہیں آئی''۔ کہنے لگا ''خواجہ صاحب میں نے آٹھ آٹھ سال بعد کیس ٹریس کیے ہیں۔
آپ اطمینا ن رکھیں اے ڈی چوہدری سے نہ کوئی جرم چھُپ سکتا ہے اور نہ کوئی مجرم بچ سکتا ہے''میں نے کہا ''اے ڈی چوہدری صاحب بہتر ہے آپ ہمیں معاف کریں اور جا کر کسی اور کی خدمت کریں''اس نے پاؤں پسارنے کی کوشش کی مگر میں نے زور دیکر کہا کہ ہماری جان چھوڑیں تو اس نے باد لِ نخواستہ اپنا سامان اٹھا لیا اور جاتے جاتے پھر کہنے لگا کہ ''کیس تو ٹریس ہی ہے ، بس آپ ذرا جلد بازی سے کام لے رہے ہیں''۔ اس روز تو تھانیدار چلا گیا مگر دوسرے دن پھر آگیا کہ ''ایس پی صاحب نے حکم دیا ہے جاؤ اورڈکیتی ٹریس کر کے ہی واپس آنا''۔
اب جاوید مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا دیکھیں '' نقصان کے علاوہ تفتیش کے نام پر میرا لاکھوں روپیہ ضایع ہو گیا ہے، تھانیدار نے نئی گاڑی تباہ کر دی ہے ،اپنے دو مڈل فیل لڑکے ہماری فیکٹری میں بھی ملازم کرا لیے اور دور دور تک کیس ٹریس ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ، مجھے نہیں چاہیے ایسی تفتیش، آپ ایس پی صاحب سے کہہ دیں کہ ، مہربانی کر کے پولیس کو واپس بلا لیں '' ۔
میں نے اسے تسلی دی اور متعلقہ پولیس افسر کو فون بھی کر دیا، کل جاوید کا پھر فون آیا کہ''ایس پی صاحب کا فون آیا تھا کہ انھوں نے ڈکیتی کی تفتیش اس سب انسپکٹر سے لے کر سی آئی اے کے سپرد کر دی ہے''۔ اے ڈی چوہدری کو ہدایات ملیں تو پریشان ہو کر میرے پاس آیا اور پھر کہنے لگا کہ ''کیس تو ٹریس ہے آگے آپ کی اور ایس پی صاحب کی مرضی!''