ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

71ء میں بنگلہ دیش کسی افریقی ریاست کا منظر پیش کرتا تھا ...



مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)کا مغربی پاکستان (پاکستان) کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کلین سویپ ۔یہ خبر اگر دسمبر 1971 سے قبل ملتی تو دکھ ہوتا نہ رنج ۔کھیل اور جنگ میں ہارجیت ہوتی ہے لیکن اگر ورلڈ چیمپئن کو گلی کے لڑکے پچھاڑ دیں تو سمجھو ''شہر کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے''

1971 میں مغربی پاکستان کے جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے ''آزادی''حاصل کرنے کے بعد بنگالیوں نے ثابت کیا کہ وہ زندہ قوم ہیں اور بنگال کا لوہا منوایا۔

مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے 44فیصد آبادی کے 56فیصد آبادی پر غلبہ کے لیے ون یونٹ کا کھڑاگ رچایا۔ پنجابی ،پختون، بلوچ، سندھی کی فطری تقسیم ختم کر کے دلوں میں لکیر کھینچ دی۔نتیجے میں تحریک پاکستان میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والے بنگالی ربع صدی بھی ساتھ نہ چل پائے اور الگ ہو گئے۔مرد درویش ابوالکلام آزاد اس حوالے سے تقسیم ہند سے قبل ہی پیش گوئی کر چکے تھے۔ معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت ''شہاب نامہ ''مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مضبوط فرد جرم ہے ۔

مشرقی پاکستان جب مرحوم ہوا تو وہاں شرح خواندگی 80فیصد اور مغربی پاکستان میں14فیصد تھی لیکن 71ء تک کوئی بنگالی آرمی چیف،چیف جسٹس،چیف سیکریٹری کے عہدے تک نہ پہنچ پایا۔بیوروکریسی میں ان کی نمایندگی شرمناک حد تک کم تھی۔ عالمی رہنما پاکستان آتے ہیں یا اہم شخصیات بیرونی دورے پر جا تی ہیں تو نمایندگی صرف پنجاب کی دکھائی دیتی ہے۔سندھ، خیبرپختونخوا،بلوچستان کو کبھی خاطر میں نہیں لایا گیا جو صوبائی اکائیوں کی توہین کے مترادف ہے۔

71ء میں بنگلہ دیش کسی افریقی ریاست کا منظر پیش کرتا تھا ۔مفلسی بیچارگی کا نمونہ۔آج 45سال بعد بنگلہ دیش ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔صنعت میں بھی حتیٰ کے پاکستانی صنعت کار اور سرمایہ کار بھی وہاں منتقل ہو رہے ہیں۔

لوڈشیڈنگ کا عفریت وہاں بھی ہے لیکن دورانیہ 4 سے 8 گھنٹے تک مشتمل ہے۔بجلی چوری کا وہاں تصور نہیں۔ ٹیکس چوری بھی ہوتی ہے مگر ٹیکس چوروں کو محفوظ اور باعزت راستہ دینے کے لیے قواعد میں سقم نہیں رکھے جاتے۔با اثر شخصیات قرضے لے کر معاف نہیں کراتی۔قوانین پر بلا امتیاز عمل درآمد ہوتا ہے۔اگرچہ مخالفین کے خلاف قانون کا اندھا دھند استعمال بھی ہوتا ہے، سیاسی لیڈر قتل بھی ہوتے ہیں ۔

ایسا نہیں کہ وہاں اسٹیبلشمنٹ کا وجود عنقا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ قومی مفاد کو سامنے رکھتی ہے۔سیاسی انتقام بھی ہے مگر ملکی مفاد کی قیمت پر نہیں۔ وہاں صحت وتعلیم کا نہ صرف بجٹ ہم سے زیادہ ہے بلکہ معیار بھی بلند ہے۔

آج پاکستان میں ڈالر سو روپے سے مہنگا جب کہ بنگلہ دیش میں78.24ٹکے کا ہے۔ٹکا کی قدر ہمارے روپے سے زیادہ ہے۔ان کے77.15ٹکے پاکستانی سو روپے کے برابر ہے۔اشیاء صرف کے نرخ پاکستان کی نسبت دو تہائی کم ہیں۔صنعت کاروں ،سرمایہ کاروں،منافع خوروں،ذخیرہ اندوزوں یہاں تک کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی من مانی کی اجازت نہیں۔جو بجلی ہم پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز سے 30روپے یونٹ حاصل کر کے انھیں سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں وہ بہت کم ہے ۔بنگلہ دیشی قیادت نے صرف بنگالیوں کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر پالیسیاں وضع کیں۔ ذمے دار لوگ کمیشن اور کک بیکس بھی نہیں لیتے، سیاست، ذات، حکومت کے مفاد کو ترجیح نہیں دی جاتی لہٰذا علیحدگی کے 45سال بعد بنگلہ دیشی کرکٹ کھلاڑیوں نے سابق آقاؤں کو ڈھاکا کے میدان میں دھول چٹا دی۔

ترجیح اگر اپنی ذات ،سیاست،حکومت،مفادات ہوں تو ملک وقوم نہیں افراد ترقی کرتے ہیں۔تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن شیخ مجیب الرحمن نے جب ''بنگلہ بندھو''کا نعرہ لگایا تو مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان غالب تھا۔آج باقیماندہ پاکستان پر 2فیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے۔

ہم نے70ارب ڈالر کے قرضے حاصل کر کے بے مصرف،بے معنی منصوبوں پر خرچ کر ڈالے مگر ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم کوئی ایک ڈیم نہ بنایا۔قرض کی مے پر انحصار کیا مگر اپنے جام وسبو بنانے پر توجہ نہ دی۔غیروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مراعات دیں اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر کے اولاد کو کاروبار پر لگا دیا۔

چین کے حالیہ40ارب ڈالر کے منصوبے بھی اپنی ذات، سیاست، حکومت کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ان منصوبوں کی تکمیل کی ٹائمنگ بھی ایسی ہے کہ موجودہ حکمران الیکشن میں کریڈٹ حاصل کر سکیں۔سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان ان منصوبوں میں دور دور تک نظرنہیں آتے۔

ڈھاکا کے میدان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس پر دانتوں میں انگلیاں دبانا خود فریبی ہو گا۔ضرورت روش بدلنے،سوچ تبدیل کرنے اور ترجیحات میں انقلاب لانے کی ہے۔ذات،سیاست،حکومت ،مفادات سے قطع نظر قومی منصوبے بنانے کی ہے۔فرقہ وملک،زبان وصوبے،پارٹی اور حکومت کی سیاست کو دفن کر کے ملک اور قوم کو فوقیت اور ترجیح دینے کی ہے۔

قومی مسائل وقت کی گرد میں دبتے ہیں نہ دبائے جا سکتے ہیں۔عارضی طور پر ان کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر مستقل خاتمہ حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔آج ہمیں ایک اجتماعی انگڑائی لینا ہو گی۔ایسی انگڑائی جو پاکستان کے لیے ہو جس میں پاکستان سہر فہرست ہو۔پاکستانیت نمایاں ہو۔ٹک ٹک دیدم یا مٹی پاؤ مسئلہ کا حل نہیں اب بروئے کار آنا ہو گا ورنہ ایک دن ہم اپنے ہاتھوں سے ہی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں