دو انتخابی معرکوں میں پنہاں اشارے
حد تو یہ ہے کہ ان کو وزیراعظم ہاؤس سے کھینچ کر باہر نکال لانے تک کی باتیں کی گئیں
اپریل 2015 کے آخری ہفتے میں دو اہم انتخابی معرکے ہوئے جن کے اثرات پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی پر یقیناً مرتب ہوں گے۔
کراچی کے حلقے این اے 246 میں 23 اپریل کو ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوا۔ ضمنی انتخاب کی اہمیت عموماً زیادہ نہیں ہوتی کیوں کہ اس سے ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال میں کسی خاص تبدیلی کے رونما ہونے کا امکان کم ہوا کرتا ہے۔
تاہم، اس حلقے کی صورتحال کچھ مختلف تھی۔ اس ضمنی انتخاب کو جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے انتہائی اہم اور ''خاص'' بنادیا گیا تھا۔ ضمنی انتخاب کے انعقاد سے بہت پہلے اس حلقے میں واقع ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر چھاپے مارے جاچکے تھے، بہت سی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں اور پکڑے جانے والوں کے ''انکشافات'' میڈیا میں موضوع بحث بنے ہوے تھے۔
اس کے علاوہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں قائم رکاوٹوں اور بیریئر کو بھی ہٹایا جاچکا تھا اور اس ضمن میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ بلاول ہاؤس اور نائن زیرو سمیت ہر جگہ سے رکاوٹیں ختم کردی گئی تھیں۔
مذکورہ بالا پس منظر میں این اے 246 کا یہ ضمنی انتخاب ان جماعتوں کے لیے انتہائی اہم ہوگیا تھا جن کا خیال نہیں بلکہ دعویٰ تھا کہ خوف کی فضا کے خاتمے کے بعد، اس حلقے کے ووٹر انھیں اپنا مینڈیٹ دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی زبردست سیاسی گھن گرج کے ساتھ اس حلقے میں داخل ہوئیں۔
انھوں نے اعلان کیا کہ وہ کراچی کے عوام کو خوف اور غلامی سے نجات دلانے آئی ہیں۔ حلقے کے ووٹروں کو بار بار ہدایت دی گئی کہ وہ غلامی اور خوف کی زنجیروں کو توڑ دیں۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں بحث اس بات پر چھڑ گئی کہ اس حلقے میں، دونوں میں سے کس کی فتح زیادہ یقینی ہے۔
میڈیا کا ایک حلقہ بھی اس مباحثے میں شریک ہوگیا۔ مشورے دیے جانے لگے کہ کوئی ایک جماعت دوسری جماعت کے حق میں دستبردار ہوجائے تاکہ ''یقینی فتح''کا مارجن بڑھ سکے اور ووٹر یکسوئی سے اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ پولنگ سے بہت قبل الیکشن کمیشن، صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ دھاندلی کو روکنے کے لیے کس طرح کے اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ اس دباؤ نے اپنا کام دکھایا۔
ہر پولنگ اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوگئے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر رینجرز کے جوان تعینات کردیے گئے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی خصوصی نگرانی میں ہوئی اور فوج نے پولنگ کا حساس سامان متعلقہ اسٹیشنوں تک پہنچایا۔ غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کے باوجود ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی لیکن ووٹروں کو لانے کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی۔ دفعہ 144کا نفاذ کردیا گیا۔
حالانکہ انتخابات کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے جس میں خاندان کے چھوٹے بڑے افراد ایک ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ''فرمائش'' اور دباؤ کے سامنے الیکشن کمیشن سمیت سب بے بس نظر آئے۔ اس سے قبل ملک میں 50 سے زیادہ ضمنی انتخابات ہوچکے تھے۔ کسی جگہ یہ صورت حال نظر نہیں آئی تھی۔ عمران خان اور سراج الحق صاحب نے این اے 246 کے ایک نہیں کئی دورے کیے۔ بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔
الیکٹرانک میڈیا نے چینی صدر کے دورے، آپریشن ضرب عضب اور یمن میں جاری جنگ جیسے اہم ترین معاملات کو پس پشت ڈال کر اس حلقے کی انتخابی سرگرمیوں کو دکھایا اور براہ راست نشریات کئی دنوں تک، گھنٹوں جاری رہیں۔
23 اپریل کا دن آیا اور گزر گیا۔ رات گئے نتائج بھی سامنے آگئے۔ ایم کیو ایم کو تقریباً 95 ہزار، پی ٹی آئی کو 24 ہزار اور جماعت اسلامی کو 10 ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ جماعت اسلامی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی اور پی ٹی آئی کے امیدوار کو 2013 کے عام انتخابات میں ملنے والے ووٹوں سے بھی کم ووٹ حاصل ہوئے۔
گیارہ مئی 2013 کے انتخابات میں نہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے کراچی میں کوئی مہم چلائی تھی اور نہ ووٹروں کو ان کے امیدوار کا نام معلوم تھا، اس کے باوجود اس وقت کے امیدوار کو حالیہ ضمنی انتخاب کے امیدوار کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے تھے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے اس ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کے لیے غیرمعمولی انتخابی مہم چلائی لیکن ان کے امیدوار کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں زیادہ ہزیمت اٹھانی پڑی کیوں کہ ان کی امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔
اب آئیے ہم 25 اپریل کو پاکستان کے کنٹونمنٹ بورڈز میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نون کو پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں پر غیر معمولی برتری حاصل ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی، لاہور اور راولپنڈی کو اپنا گڑھ تصور کرتی ہے اور یہ الزام لگاتی ہے کہ مئی 2013 کے عام انتخابات میں، پی ایم ایل این نے ان شہروں سے دھاندلی کے ذریعے اس کا مینڈیٹ چوری کیا تھا۔ لاہور کے کینٹ ایریا میں جہاں یہ بلدیاتی انتخاب ہوئے وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 125 پر مشتمل ہے۔
اس حلقے سے 11مئی 2013کے عام انتخابات میں خواجہ سعد رفیق کامیاب ہوئے تھے اور پی ٹی آئی ان کے خلاف آج تک بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے۔ اس حلقے سے پی ایم ایل این کی کامیابی، پی ٹی آئی کے اس الزام کی واضح نفی ہے۔ کچھ ایسی صورتحال پنجاب کے دیگر شہروں بالخصوص چکلالہ راولپنڈی وارڈزکے بلدیاتی انتخابات میں بھی سامنے آئی جہاں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہوگیا اور ووٹروں نے 2013 کی تاریخ دہرائی۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے ان بلدیاتی انتخابات کا بھی ایک مخصوص پس منظر تھا۔ دھرنا اور کنٹینر سیاست کی چارماہ طویل تحریک کسے یاد نہیں۔ اس تحریک سے پورا ملک عملاً مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ نے نواز شریف اور پی ایم ایل این کے خلاف انتہائی نفرت انگیز مہم چلائی۔ وزیراعظم کے منصب کا خیال نہ رکھتے ہوئے انھیں بدترین القاب سے نوازا گیا۔
حد تو یہ ہے کہ ان کو وزیراعظم ہاؤس سے کھینچ کر باہر نکال لانے تک کی باتیں کی گئیں۔ دھرنا سیاست کے خاتمے کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ ہم عوام کے ذہنوں میں تبدیلی لاچکے ہیں اور یہی ہماری کامیابی ہے جس کے نتائج جلد سب کے سامنے آجائیں گے۔ 25 اپریل کے نتائج نے کیا یہ ثابت نہیں کیا کہ عوام نے نفرت، احتجاج اور محاذ آرائی کی سیاست کو مسترد کردیا ہے اور اس طرز کی سیاست کرنے والوں کی مقبولیت عوام میں کم ہوئی ہے۔
23 اور 25 اپریل کے دونوں انتخابی معرکوں میں سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے لیے بہت سے اشارے اور سبق پنہاں ہیں۔
پی ٹی آئی میں شامل سنجیدہ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اعلیٰ قیادت کو یہ نکتہ تعلیم کریں کہ جب آپ کسی مخصوص سیاسی رہنما اور اس کی جماعت کو نشانہ بناکر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی نفرت انگیز مہم چلاتے ہیں تو مذکورہ جماعت کے ووٹروں اور ہمدردوں میں جوش کی ایک لہر پیدا ہوجاتی ہے اور وہ غیر معمولی طور پر متحرک اور فعال ہوجاتے ہیں۔یہ صورتحال نفرت انگیز مہم چلانے والی جماعت کے ووٹروں کو متحرک نہیں کرتی۔ حالیہ انتخابات اس حقیقت کی ایک واضح مثال ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ عوامی اور انتخابی سیاست کے اسرار و رموز کوسمجھے بغیر محض میڈیا کے ذریعے سیاسی یا انتخابی مہم چلانے کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو 23 اور 25 اپریل کو ہم سب کے سامنے آئے ہیں۔
پی ٹی آئی اپنی 19 ویں سالگرہ مناچکی ہے لہٰذا اسے ناتجربہ کار جماعت ہونے کی رعایت نہیں مل سکتی۔ انھیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ سیاست کے میدان میں اپنی نہیں بلکہ عوام کی دانش پر اعتبارکیا جاتا ہے، ان کی ناراضی سے ڈرا جاتا ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ ''زندہ لاش یا غلام'' کہہ کر ان کی توہین نہیں کی جاتی۔
23 اور 25 اپریل کے انتخابی معرکوں میں پی ایم ایل اور ایم کیو ایم کا، کام پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے خود آسان کیا۔ اب واویلا مچانے کا فائدہ؟