مباحثے کے ادارے کا قتل

سبین محمود کو طویل عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

tauceeph@gmail.com

کیا ملک میں عوامی سطح پر مباحثے کے ادارے کو ختم کیا جارہا ہے؟سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کے بعد جمہوری اداروں میں اس سوال پر بحث ہونی چاہیے۔ سبین محمود کراچی میں پیدا ہوئیں۔

کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ پھر لاہور کے کینیرڈ کالج سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور سماجی تبدیلی کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ سبین اور ان کے ساتھیوں نے کراچی کی ڈیفنس اتھارٹی میں 2007 میں ایک کیفے T2F قائم کیا جو سیکنڈ فلورکہلاتا ہے۔ T2F محض ایک کیفے نہیں ہے، وہاں چائے اور کافی کے ساتھ موسیقی اور کتابیں بھی موجود ہیں۔

پھر مہینے میں کئی بار سماجی، سیاسی، اقتصادی اور فنون لطیفہ کے موضوعات پر مباحثے ہوتے ہیں۔ ان بحث و مباحثوں میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین شرکت کرتے ہیں۔ ان مباحثوں میں شرکاء سوالات اٹھاتے ہیں، مقررین اپنی سوچ و فکر کے مطابق رائے دیتے ہیں۔ کبھی شرکاء مطمئن ہوتے ہیں اور کبھی تشنہ رہ جاتے ہیں مگر نوجوانوں کو زندگی سے متعلق موضوعات پر سوچنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ سبین محمود اس ادارے کی ڈائریکٹر تھیں۔

وہ وکلاء تحریک میں بھی متحرک رہیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سبین نڈر اور بہادر خاتون تھیں ۔ انھیں ای میلز اور موبائل فون پر دھمکیاں ملتی رہیں مگر وہ اپنے مشن سے اتنی مخلص تھیں کہ کبھی ان دھمکیوں کو اہمیت نہیں دی۔ گزشتہ مہینے T2F میں ایک ایسے موضوع پر سیمینار رکھا گیا تھا کہ اسی موضوع پر لاہور میں قائم ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری یونیورسٹی میں بھی ایک سیمینار رکھا گیا لیکن اس سیمینارکو منسوخ کردیا گیا۔

سبین نے اس سیمینار کے آغاز پر واضح کردیا تھا کہ فاضل مقررین کو اپنے خیالات قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بیان کرنے چاہئیں۔ سبین کا قتل اس ملک میں روشن خیال اور مظلوم طبقات کی آواز بننے والوں کے قتل کا تسلسل ہے۔

گزشتہ سال کراچی یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے ڈین ڈاکٹر شکیل اوج کراچی کی معروف شاہراہ یونیورسٹی روڈ پر صبح کے وقت اس بناء پر قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشن خیال تفسیر بیان کرتے تھے۔ ملتان میں انسانی حقوق کے لیے زندگی وقف کرنے والے راشد رحمن کو قتل کردیا گیا۔

پروین رحمن کچی آبادیوں کو بہتر سہولتوں کی فراہمی کی جدوجہد کررہی تھیں کہ اورنگی میں قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ دہشت گردوں کے حملے میں ملالہ یوسفزئی بچ گئی تو سوشل میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ عمومی طور پر پاکستانی پولیس اس طرح کے مقدمات میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کرپاتی اور جب پولیس طویل عرصے بعد کسی شخص کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اس طرح کے کسی قتل میں ملوث ہے تو وہ گرفتاری متنازعہ بن جاتی ہے۔

سبین محمود کو طویل عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ انتہا پسند حلقوں کو کراچی میں آزادانہ ماحول میں مباحثے کا ادارہ قبول نہیں تھا۔ وہ بلوچستان سے متعلق موضوع پر سیمینار کرانے کے فیصلے کی بناء پر دباؤ میں آگئیں۔ سبین کے قتل میں مختلف تنظیموں کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔


سبین کا قتل کراچی کی صورتحال سے بھی منسلک ہے۔ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ رینجرز اور پولیس یہ آپریشن مشترکہ طور پر کررہی ہے۔ سول ایجنسیاں اس آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کررہی ہیں۔اس آپریشن کے باوجود کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔کراچی کے ایک نجی میڈیکل کالج میں فرائض انجام دینے والی امریکی ڈاکٹر پرگولیوں کی بوچھاڑ ہوئی مگر وہ بچ گئیں۔ پریڈی تھانے کے ایس ایچ او ڈیفنس کی معروف سڑک پر جاں بحق ہوئے۔

اب سبین محمود کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ ایک سیمینار کے انعقاد کے بعد واپس گھر جارہی تھیں۔ یوں اب محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ بہت زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوئے۔ روزانہ پولیس مقابلوں میں طالبان اور لیاری گینگ وار میں ملوث افراد کی ہلاکتوں کی خبروں کے باوجود صورتحال بہت زیادہ بہتر نہیں ہے۔

صرف ٹارگٹ کلنگ ہی نہیں ہورہی بلکہ بینکوں کو لوٹنے اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بھی جاری ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی منصوبہ سازی کرنے والے اور اسلحے کی فراہمی کا نیٹ ورک بھرپور طریقے سے متحرک ہے۔ شایدکرائے کے ٹارگٹ کلرز کو پولیس اور رینجرز والے تلاش کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا منصوبہ بنانے والوں کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ نئے قاتل تلاش کرلیتے ہیں۔

اس آپریشن کے دوران اہم شاہراہوں پر کلوز سرکٹ کیمرے لگائے گئے، یوں کروڑوں روپے مانیٹرنگ کے آلات کی خریداری پر خرچ ہوئے مگر جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے تو یہ نظام ناقص ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ رپورٹ بھی شایع ہوئی ہے کہ جس شاہراہ پر سبین کا قتل ہوا وہاں کیمرا دوسری طرف نصب تھا۔ پولیس ہمیشہ کی طرح بلائنڈ کیس میں کچھ نہیں کرپا رہی ہے۔مسلح ڈاکو بسوں اورکوچز میں داخل ہوکر مسافرون کو دن دہاڑے لوٹ لیتے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا صرف پولنگ اسٹیشنوں کو اہلکاروں کے گھیرے سے ہی دہشت گردی کا تدارک ہوسکتا ہے؟ صورتحال واضح ہے کہ صرف پرامن انتخابات ہی نہیں بلکہ پرامن شہر ہی شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ سبین کے قتل کے حوالے سے مختلف نوعیت کے خدشات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال ایک معروف صحافی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے لانگ مارچ کی کوریج میں بہت زیادہ متحرک تھے۔ وہ کراچی ایئرپورٹ سے شہر جاتے ہوئے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے۔

اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملزموں کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ٹیمیں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے I.S.P.R کے سربراہ نے سبین کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے واضح طور پر خفیہ ایجنسیوں کو پولیس کی مدد کی ہدایت کی ہے مگر سبین کے قاتلوں کی گرفتاری اور انھیں قرار واقعی سزا دینے کے لیے اعلیٰ سطحی شفاف تحقیقات انتہائی ضروری ہیں۔

سبین محمود کو قتل کرنے والے عوامی سطح پر مباحثے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جو ترقی اور خوشحالی کا دشمن ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہی مسئلے کا حقیقی حل ہے۔ اس مائنڈسیٹ کے خاتمے میں جمہوری نظام پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں، غیر سرکاری تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، کسان ، خواتین، دانش وروں اور صحافیوں کی تنظیمیں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن اور اے این پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی عوامی سطح پر مباحثے منعقد ہونے چاہئیں اور ہر سطح پر سبین کے قتل کی مذمت کے ساتھ قتل کے محرکات پر آگاہی کا عمل بھی ہونا چاہیے۔ سبین ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ قاتلوں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کر کے سبین کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story