میری لسٹ
تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے...
ISLAMABAD:
یہاں نہ دن ہمارے نہ راتیں ہماری ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ نہ آسمان ہمارا ساتھ دیتا ہے اور نہ ہی زمین ہمیں ماں کی طرح اپنی آغوش میں لیتی ہے۔ اس ریاست میں موجود زمینی خدا ہمیں کسی بھی عذاب سے نجات دلانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کامیابی کے لیے عوام کا درد چاہیے ہوتا ہے۔
یہ کسی سانحے کے بیس گھنٹے بعد آئے یا پھر نہ آئے، ان کی مرضی اور موڈ پر انحصار کرتا ہے۔ ان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں سے جب پوچھا جائے کہ جناب آپ کی سرکار میں لوگ مر رہے ہیں، آپ کہاں غائب ہیں؟ تو بڑی ہی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ میں کسی کی مرضی سے نہیں آتا، میں اپنے پروگرام کے تحت آتا ہوں۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہوں، ہزاروں کے گھر تباہ ہو گئے ہوں لیکن ان کے منہ سے تسلی کے دو حروف نہیں نکلتے۔ یہ اس صوبے کے سربراہ ہیں، یہ نیا پاکستان بنانے والے ہیں۔ جب ان کا وزیراعلیٰ یہ کہہ دے کہ اس تباہی میں ان کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کا کام تھا تو آپ اپنا ماتھا کہاں پر ماریں گے۔
20 گھنٹوں تک ان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ لوگ اسپتالوں میں جگہ ڈھونڈھتے رہے اور یہ اپنی کمین گاہوں میں کہیں کھوئے ہوئے تھے۔ ان کو شاید یہ ہی بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کا الزام دوسروں کے کاندھے پر رکھ کر آرام سے لیٹے رہیں۔ کتنا دل جلانے والا یہ بیان ہے کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ طوفان آنے والا ہے۔
ویسے تو محکمہ موسمیات نے کہہ دیا ہے کہ انھیں ہم نے پہلے بتا دیا تھا لیکن چلے مان لیتے ہیں کہ جس طرح یہ تمام سیاسی جماعتوں کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اس طرح محکمہ موسمیات نے بھی انھیں جھوٹ بولا ہو گا۔ اگر انھیں معلوم ہوتا تو یہ کیا کر لیتے؟ کیا واقعی یہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں یا صرف میڈیا کے ذریعے اپنا صحت کا انصاف چلانا چاہتے ہیں یا پھر انھیں وہ امپائر نہیں ملا جو انھیں پہلے بتا دیتا ہے کہ انگلی کب اٹھنے والی ہے۔ یہ خود سے نہ تو کوئی مہم چلا سکتے ہیں اور نہ ہی صوبہ۔ بس لگتا ہے کہ یہاں پر بھی ان کے ساتھ امپائر نے دھوکا کر دیا۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بنا موسم کے بارش کا سلسلہ کیوں شروع ہو گیا ہے؟ یا پھر بارشوں کا موسم آ چکا ہے۔ ان کی اہلیت کیا ہے اور یہ کیا کیا کر سکتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے ستائے ہوئے لوگ ہر وقت بنی گالہ کے محل کے باہر التجائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے۔
جس کے لیے لوگوں کو اپنا صوبہ چھوڑ کر کر اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں کے وزیراعلیٰ کی طاقت کتنی ہے۔ اس لیے وزیراعلیٰ صاحب نے 20 گھنٹے بعد اسپتال پہنچ کر بالکل ٹھیک کہا کہ وہ یہاں آ کر کیا کرتے یہاں تو دوسرے لوگوں کو کام کرنا تھا۔ جو لوگ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جو عوامی طاقت کا کہتے ہیں اور جو نئے پاکستان میں ہر شخص کو طاقتور کرنا چاہتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ ان کا وزیراعلیٰ بے بس نظر آتا ہے۔
اور وہاں سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نیا رہے یا بوسیدہ، وہاں حکومت اور اپنی طاقت دکھانے کا طریقہ پرانا ہی رہے گا۔ انتظامی معاملات سے لے کر سوچ پر آمریت ہی حاوی رہے گی۔ یہ آمریت ہی تو ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہوں یا پھر مزدور، اپنے وزیراعلیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے بنی گالہ کے عالیشان محل میں آ کر انھیں چپلیں سیدھی کرنی پڑتی ہیں۔ اس انداز حکومت کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔ ابھی قانونی طور پر موجودہ حکومت کی آدھی مدت رہتی ہے۔
اپنی غلطیوں اور خامیوں پر قابو پانا ہو گا۔ ورنہ آیندہ الیکشن کا نتیجہ بھی کہیں NA246 کی طرح کا نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے پچھلی بار بھی کہا تھا کہ حلقہ کی سیاست اور ڈرائنگ روم کی سیاست میں فرق ہوتا ہے۔ حلقہ کے لوگ یاد رکھتے ہیں کہ کون ان کے دکھ درد اور جنازے میں کاندھے دینے کے لیے آیا تھا۔ اس لیے یہ وقت نہیں کہ جب لوگ اسپتالوں میں موجود ہوں اور آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ میں اپنی مرضی سے آؤں گا۔
یہ ہی وہ رویے ہیں جو کراچی کے الیکشن میں دیکھے گئے کہ امیدوار اپنے حلقہ سے کئی کلومیٹر دور بیٹھ کر اس وقت میڈیا کے لوگوں کے ساتھ ناشتہ کر رہے ہیں کہ جب مخالف جماعت اپنے ووٹروں کو سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں گھر سے لا چکی تھی۔ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس پر فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ووٹنگ اپنے عروج پر تھی اور آپ بہت دور پیزا کی دعوت دے رہے تھے۔
تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اب اگلے مہینے خیبرپختونخوا کا بلدیاتی الیکشن ہے۔ یہاں لمحوں میں ووٹر کی سوچ بدل جاتی ہے، اس لیے جو لوگ خواب آور گولیاں کھا کر اس خوش فہمی میں ہیں کہ پاپولر ووٹ ان کے ساتھ ہیں وہ ایک مہینے کے لیے جا گ جائیں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک اور جوڈیشل کمیشن کے لیے آپ کو محنت کرنی پڑجائے اور نیتجہ وہ ہی ہو کہ امپائر کی انگلی نہ اٹھے۔جو لوگ مدد کے لیے نکلے ان کی فہرست بھی دیکھ لیجیے اور جو اس وقت بھی کسی طرح اپنے رقیب کو نیچا دکھانے کی جستجو میں ہیں انھیں بھی دیکھ لیجیے، ایک کے بعد ایک آفت ہمارے گھر پر آ رہی ہے اور ہم بس کسی طرح مشکل وقت گزار کر پھر گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔
جو لوگ اب ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنا بدلہ لے رہے ہیں انھوں نے کون سا کارنامہ انجام دے دیا؟ بڑے بھائی کے ناتے خادم اعلیٰ کہاں موجود ہیں؟ سیاسی اسکور ایک بیان سے پورا نہیں ہوتا۔ اگر واقعی میں آپ کو دکھ ہوا تو بھیج دیتے اپنی اسپیشل ٹیم۔ لیکن آپ کیوں ایسا کرتے؟ اس وقت اس بربادی میں مرکز کہاں کھویا ہوا ہے؟ وہ جذبہ حب الوطنی وہ جوش کہاں گیا جو ہم نے تباہ کن زلزلہ کے بعد دکھایا تھا۔
سب کو پشاور سے زیادہ کرکٹ میں ہارنے کا دکھ ہے۔ لیکن ہم کون سے میدان میں آگے ہیں، یہ بھی تو بتا دیا جائے؟ پاکستان کی مارکیٹوں میں ہمارا اپنا کپڑا ملتا تھا لیکن یہاں پر اب دکان دار آپ کو یہ کہہ کر متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بھائی دیکھے تو صحیح بنگلہ دیش کی پراڈکٹ ہے۔ کیوں ماتم کر رہے ہو کہ ہم سیریز ہار گئے، یہ بھی تو کوئی ہمیں بتائے کہ کیوں ہمارا صنعت کار یہاں سے پیسہ لے جا کر بنگلہ دیش میں لگا رہا ہے؟ کیوں ہم صدمے میں ہیں کہ ہمارا کوئی کھلاڑی نہیں چلا، یہ بھی تو دیکھ لیں کہ ہم چل کہاں رہے ہیں؟
وہ بنگلہ دیش جو ہمیشہ طوفانوں اور سیلابوں میں گھرا رہتا تھا، وہاں سے پوچھ تو لیں کہ اس نے کس طرح سے ان آفتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک مستقل اور مضبوط حل تلاش کیا ہے۔ ایک منٹ رک تو جائیے اور ٹھنڈے دماغ سے غور تو کریں کہ کیوں ہم نے سونامی سے بچنے کے لیے کچھ نہیں کیا، بلکہ تیمر کے درخت کاٹ دیے اور بنگلہ دیش نے لاکھوں ایکڑ پر وہ درخت لگائے۔ طوفان، زلزے اور سیلاب سب جگہ آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں وہ عذاب میں بدل جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب بہت اچھا ہوا اس تباہی کے فوراً بعد آپ نے پشاور سانحہ پر نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے اپنی شکست پر تبصرہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح بھارت نے ہماری ہاکی بچانے کے لیے ہمیں قرضہ دینے کی بات کی ہے اسی طرح اب بنگلہ دیش کہیں ہمیں کرکٹ کی کوچنگ کا مشورہ بھی نہ دیدے۔
یہاں نہ دن ہمارے نہ راتیں ہماری ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ نہ آسمان ہمارا ساتھ دیتا ہے اور نہ ہی زمین ہمیں ماں کی طرح اپنی آغوش میں لیتی ہے۔ اس ریاست میں موجود زمینی خدا ہمیں کسی بھی عذاب سے نجات دلانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کامیابی کے لیے عوام کا درد چاہیے ہوتا ہے۔
یہ کسی سانحے کے بیس گھنٹے بعد آئے یا پھر نہ آئے، ان کی مرضی اور موڈ پر انحصار کرتا ہے۔ ان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں سے جب پوچھا جائے کہ جناب آپ کی سرکار میں لوگ مر رہے ہیں، آپ کہاں غائب ہیں؟ تو بڑی ہی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ میں کسی کی مرضی سے نہیں آتا، میں اپنے پروگرام کے تحت آتا ہوں۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہوں، ہزاروں کے گھر تباہ ہو گئے ہوں لیکن ان کے منہ سے تسلی کے دو حروف نہیں نکلتے۔ یہ اس صوبے کے سربراہ ہیں، یہ نیا پاکستان بنانے والے ہیں۔ جب ان کا وزیراعلیٰ یہ کہہ دے کہ اس تباہی میں ان کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کا کام تھا تو آپ اپنا ماتھا کہاں پر ماریں گے۔
20 گھنٹوں تک ان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ لوگ اسپتالوں میں جگہ ڈھونڈھتے رہے اور یہ اپنی کمین گاہوں میں کہیں کھوئے ہوئے تھے۔ ان کو شاید یہ ہی بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کا الزام دوسروں کے کاندھے پر رکھ کر آرام سے لیٹے رہیں۔ کتنا دل جلانے والا یہ بیان ہے کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ طوفان آنے والا ہے۔
ویسے تو محکمہ موسمیات نے کہہ دیا ہے کہ انھیں ہم نے پہلے بتا دیا تھا لیکن چلے مان لیتے ہیں کہ جس طرح یہ تمام سیاسی جماعتوں کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اس طرح محکمہ موسمیات نے بھی انھیں جھوٹ بولا ہو گا۔ اگر انھیں معلوم ہوتا تو یہ کیا کر لیتے؟ کیا واقعی یہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں یا صرف میڈیا کے ذریعے اپنا صحت کا انصاف چلانا چاہتے ہیں یا پھر انھیں وہ امپائر نہیں ملا جو انھیں پہلے بتا دیتا ہے کہ انگلی کب اٹھنے والی ہے۔ یہ خود سے نہ تو کوئی مہم چلا سکتے ہیں اور نہ ہی صوبہ۔ بس لگتا ہے کہ یہاں پر بھی ان کے ساتھ امپائر نے دھوکا کر دیا۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بنا موسم کے بارش کا سلسلہ کیوں شروع ہو گیا ہے؟ یا پھر بارشوں کا موسم آ چکا ہے۔ ان کی اہلیت کیا ہے اور یہ کیا کیا کر سکتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے ستائے ہوئے لوگ ہر وقت بنی گالہ کے محل کے باہر التجائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے۔
جس کے لیے لوگوں کو اپنا صوبہ چھوڑ کر کر اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں کے وزیراعلیٰ کی طاقت کتنی ہے۔ اس لیے وزیراعلیٰ صاحب نے 20 گھنٹے بعد اسپتال پہنچ کر بالکل ٹھیک کہا کہ وہ یہاں آ کر کیا کرتے یہاں تو دوسرے لوگوں کو کام کرنا تھا۔ جو لوگ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جو عوامی طاقت کا کہتے ہیں اور جو نئے پاکستان میں ہر شخص کو طاقتور کرنا چاہتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ ان کا وزیراعلیٰ بے بس نظر آتا ہے۔
اور وہاں سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نیا رہے یا بوسیدہ، وہاں حکومت اور اپنی طاقت دکھانے کا طریقہ پرانا ہی رہے گا۔ انتظامی معاملات سے لے کر سوچ پر آمریت ہی حاوی رہے گی۔ یہ آمریت ہی تو ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہوں یا پھر مزدور، اپنے وزیراعلیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے بنی گالہ کے عالیشان محل میں آ کر انھیں چپلیں سیدھی کرنی پڑتی ہیں۔ اس انداز حکومت کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔ ابھی قانونی طور پر موجودہ حکومت کی آدھی مدت رہتی ہے۔
اپنی غلطیوں اور خامیوں پر قابو پانا ہو گا۔ ورنہ آیندہ الیکشن کا نتیجہ بھی کہیں NA246 کی طرح کا نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے پچھلی بار بھی کہا تھا کہ حلقہ کی سیاست اور ڈرائنگ روم کی سیاست میں فرق ہوتا ہے۔ حلقہ کے لوگ یاد رکھتے ہیں کہ کون ان کے دکھ درد اور جنازے میں کاندھے دینے کے لیے آیا تھا۔ اس لیے یہ وقت نہیں کہ جب لوگ اسپتالوں میں موجود ہوں اور آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ میں اپنی مرضی سے آؤں گا۔
یہ ہی وہ رویے ہیں جو کراچی کے الیکشن میں دیکھے گئے کہ امیدوار اپنے حلقہ سے کئی کلومیٹر دور بیٹھ کر اس وقت میڈیا کے لوگوں کے ساتھ ناشتہ کر رہے ہیں کہ جب مخالف جماعت اپنے ووٹروں کو سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں گھر سے لا چکی تھی۔ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس پر فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ووٹنگ اپنے عروج پر تھی اور آپ بہت دور پیزا کی دعوت دے رہے تھے۔
تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اب اگلے مہینے خیبرپختونخوا کا بلدیاتی الیکشن ہے۔ یہاں لمحوں میں ووٹر کی سوچ بدل جاتی ہے، اس لیے جو لوگ خواب آور گولیاں کھا کر اس خوش فہمی میں ہیں کہ پاپولر ووٹ ان کے ساتھ ہیں وہ ایک مہینے کے لیے جا گ جائیں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک اور جوڈیشل کمیشن کے لیے آپ کو محنت کرنی پڑجائے اور نیتجہ وہ ہی ہو کہ امپائر کی انگلی نہ اٹھے۔جو لوگ مدد کے لیے نکلے ان کی فہرست بھی دیکھ لیجیے اور جو اس وقت بھی کسی طرح اپنے رقیب کو نیچا دکھانے کی جستجو میں ہیں انھیں بھی دیکھ لیجیے، ایک کے بعد ایک آفت ہمارے گھر پر آ رہی ہے اور ہم بس کسی طرح مشکل وقت گزار کر پھر گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔
جو لوگ اب ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنا بدلہ لے رہے ہیں انھوں نے کون سا کارنامہ انجام دے دیا؟ بڑے بھائی کے ناتے خادم اعلیٰ کہاں موجود ہیں؟ سیاسی اسکور ایک بیان سے پورا نہیں ہوتا۔ اگر واقعی میں آپ کو دکھ ہوا تو بھیج دیتے اپنی اسپیشل ٹیم۔ لیکن آپ کیوں ایسا کرتے؟ اس وقت اس بربادی میں مرکز کہاں کھویا ہوا ہے؟ وہ جذبہ حب الوطنی وہ جوش کہاں گیا جو ہم نے تباہ کن زلزلہ کے بعد دکھایا تھا۔
سب کو پشاور سے زیادہ کرکٹ میں ہارنے کا دکھ ہے۔ لیکن ہم کون سے میدان میں آگے ہیں، یہ بھی تو بتا دیا جائے؟ پاکستان کی مارکیٹوں میں ہمارا اپنا کپڑا ملتا تھا لیکن یہاں پر اب دکان دار آپ کو یہ کہہ کر متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بھائی دیکھے تو صحیح بنگلہ دیش کی پراڈکٹ ہے۔ کیوں ماتم کر رہے ہو کہ ہم سیریز ہار گئے، یہ بھی تو کوئی ہمیں بتائے کہ کیوں ہمارا صنعت کار یہاں سے پیسہ لے جا کر بنگلہ دیش میں لگا رہا ہے؟ کیوں ہم صدمے میں ہیں کہ ہمارا کوئی کھلاڑی نہیں چلا، یہ بھی تو دیکھ لیں کہ ہم چل کہاں رہے ہیں؟
وہ بنگلہ دیش جو ہمیشہ طوفانوں اور سیلابوں میں گھرا رہتا تھا، وہاں سے پوچھ تو لیں کہ اس نے کس طرح سے ان آفتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک مستقل اور مضبوط حل تلاش کیا ہے۔ ایک منٹ رک تو جائیے اور ٹھنڈے دماغ سے غور تو کریں کہ کیوں ہم نے سونامی سے بچنے کے لیے کچھ نہیں کیا، بلکہ تیمر کے درخت کاٹ دیے اور بنگلہ دیش نے لاکھوں ایکڑ پر وہ درخت لگائے۔ طوفان، زلزے اور سیلاب سب جگہ آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں وہ عذاب میں بدل جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب بہت اچھا ہوا اس تباہی کے فوراً بعد آپ نے پشاور سانحہ پر نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے اپنی شکست پر تبصرہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح بھارت نے ہماری ہاکی بچانے کے لیے ہمیں قرضہ دینے کی بات کی ہے اسی طرح اب بنگلہ دیش کہیں ہمیں کرکٹ کی کوچنگ کا مشورہ بھی نہ دیدے۔