کیا ذلت ہم سے دور ہے

موجودہ صورتحال میں مسلم امہ دو بڑے مسالک میں کچھ اس طرح تقسیم ہوئی ہے...


قادر خان April 29, 2015
[email protected]

لاہور: مملکت شام جہاں سوائے مظلوموں و بے گناہوں کے خون سے ہولی ہی نہیں کھیلی جا رہی بلکہ دین اسلام کو تمام دنیا کے سامنے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تماشہ بنایا جا رہا ہے۔ شام کی چار سالہ خانہ جنگی میں اب تک دو لاکھ بیس ہزار سے زائد کی ہلاکتیں اقوام عالم کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایک حکمران کی ضد میں اس کی دہشتگردانہ پالیسیوں کے سبب بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔

مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع کرنے والے شامی مبصر گروپ برائے انسانی حقوق کے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ دو لاکھ بائیس ہزار ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع کیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں 67 ہزار عام شہری جن میں گیارہ ہزار بچے بھی ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بیس ہزار افراد کے نام شامل نہیں ہیں جنھیں لاپتہ افراد کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

شام کے مسئلے پر جس طرح بین الاقوامی طاقتیں خاموش ہیں اور شام کی روز بہ روز بگڑتی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا رہا تو اس ضمن میں مسلم عرب ممالک کے نو رکنی اتحاد پر یہ لازم بھی ہو جاتا ہے کہ یمن کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جس طاقت و اتحاد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، شام میں بھی جابر و ظالم حکومت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور شام کے عوام کو جابر و ظالم حکمران سے نجات دلائے۔

بد قسمتی سے امت واحدہ کے تصور کو جب بھی فرقہ واریت نے پامال کیا، شام و عراق کی طرح سانحات رونما ہوتے رہے ہیں۔ اسلام کو سب سے زیادہ فرقہ واریت نقصان پہنچا رہی ہے، فرقہ وارنہ مسالک کی وجہ سے دین واحد کا تصور مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے دنیا جہاں صلیبی اور غیر صلیبی ممالک میں تقسیم ہو رہی ہے تو دوسری جانب مسلم ممالک کو فرقہ واریت کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔

کسی غیر مسلم ملک کو کسی مسلم ملک کے داخلی مسائل میں صرف اسی صورت دلچسپی ہو سکتی ہے جب وہ دنیا میں اپنا من پسند نظام لا کر دیگر اقوام کو محکوم بنانا چاہتا ہو۔ اگر ہم دنیاوی سیاست کا اجمالی جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ استعماری قوتیں دنیا میں اپنا نظام لانے کے لیے اپنے طے شدہ منصوبوں پر باقاعدگی سے عمل پیرا ہیں۔ عیسائی چاہتے ہیں کہ ان کا نظام ساری دنیا پر رائج ہو جائے، اس کے لیے انھوں نے اپنے عقیدے کو سامنے لاتے ہوئے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب کیا تھا اس لیے انھیں ان ناپاکوں کو اس دنیا سے پاک کردینا چاہیے.

لہٰذا یہودیوں کو جہاں پاؤ، قتل کر دو، پر عمل کرتے ہوئے جہاں ہٹلر نے ڈھیر کے ڈھیر لگا دیے کہ آج دنیا اس معاملے کو ہولو کاسٹ کہتی ہے اور اس پر مغرب میں بحث بھی ممنوع کر دی گئی ہے، لیکن پاپائیت کا یہ ایجنڈا اس سے قبل مسلمانوں پر آزمایا گیا اور صلیبی جنگوں کا آغاز کیا گیا لیکن انھیں پے در پے شکستوں کی وجہ سے مسلمانوں نے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ پاپائیت دنیا میں اس عقیدے کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ دنیا میں صرف عیسائیت باقی رہے.

اس لیے جب نائن الیون کا واقعہ رونما کرایا گیا تو امریکا نے ایسے صلیبی جنگوں کا آغاز قرار دیا۔ مسلم ممالک پر مغرب کی جارحیت بھرپور طاقت کے ساتھ کی گئی اور مسلم ممالک پر اقوام متحدہ کی آڑ لے کر بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ چونکہ مغرب میں یہودیوں نے خود کو مضبوط کر لیا تھا اس لیے انھوں نے جمہوریت کی افسوں گری کا سہارا لے کر پاپائیت کے پیروکاروں کو اپنا غلام بنانا شروع کر دیا۔

جمہوریت کے نام پر ریاست کی طاقت کو کمزور کر دیا اور انسانی مالی و معاشی وسائل پر بتدریج قبضہ کرتے ہوئے خود کو خدا کی چہیتی اولا اور دنیا پر غلبے حاصل کرنے کے وعدے کے خودساختہ مفروضے کے تحت مسلم ممالک کو ہی مشق ستم بنانا شروع کر دیا۔ یہاں انھوں نے بھی اسی مفروضے اور اپنے عقائد کی بنا پر دنیا پر صہیونی حکمرانی کے لیے سازشوں کا جال بنا اور عیسائیت کے مقابلے میں انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے قتل و غارت گری کا انتقام مسلمانوں سے لینا شروع کر دیا۔

عرب ممالک کو شکست دے کر عربوں کی زمین پر قبضہ کر کے یہودی عالمی حکومت کا ہیڈ کواٹر اسرائیل کی صورت میں بنا لیا، عیسائی ممالک پر جمہوریت اور معاشی پالسییوں کے نام پر وہ پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے، ان کے سامنے حائل ہونے والی صرف مسلم امہ تھی، اس لیے انھوں نے مسلم امہ کی کمزوریوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور جہاں جہاں تفرقہ شدت کے ساتھ متشدد نظر آیا اپنے ایجنٹوں کو استعمال کر کے مسلم امہ میں تفرقے کی دراڑیں ڈال دیں۔

موجودہ صورتحال میں مسلم امہ دو بڑے مسالک میں کچھ اس طرح تقسیم ہوئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دونوں بڑے مسالک سب سے پہلے اپنے مسلک کے نام پر مسلم ممالک میں اپنے نظریے کی بنیاد پر مملکتیں قائم کرنے کے خواہاں ہوں۔ عراق، شام، یمن، مصر، لیبیا، افغانستان اور پاکستان کی صورتحال دیکھ لیں تو دوسری جانب عرب ممالک کی جانب سے عرب ممالک میں ہونے والی بغاوتوں پر مسالک کے نام پر امداد و کارروائیوں کی صورتحال دیکھ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مسلم امہ دو بڑے واضح گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک عام مسلمان اس صورتحال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔

6 فروری 2015ء کو یمن میں باغیوں نے ملک میں دو سال کے لیے صدارتی کونسل اور عبوری پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کیا، پانچ سو اکیاون اراکین پر مشتمل ایک عبوری پارلیمنٹ کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا۔

تہران کے رکن اسمبلی علی رضا زاکانی نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ''ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے، بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعا۔'' یہاں مسلم ممالک آپس میں مسالک کے نام پر دست و گریبان ہیں اور مسلم ممالک پر اپنے نظریے کے مطابق اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کے ساتھ دیگر ممالک میں ہونے والے امتیازی سلوک پر موثر آواز اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر مرکزی افریقہ کے دورے کے دوران اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر سمانتھا پاور نے بتایا کہ مرکزی افریقہ میں تشدد کے بعد تقریباً تمام 417 مساجد کو مسمار (شہید) کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے مرکزی افریقہ میں ہونے والی تباہی کو ہولناک قرار دیا اور کہا کہ مسلمان محلوں میں رہنے والے شدید وحشت کا شکار ہیں۔ برسلز کے انٹرنیشنل کرائسس سینٹر نے بھی مرکزی افریقہ کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی فورسز نے بھی امن قائم کرنے میں کوئی مثبت کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ افریقی یونین، فرانسیسی افواج اور مرکزی افریقہ کی افواج نے بھی پائیدار امن اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ناتوانی کا مظاہرہ کیا۔''

دوسری جانب فرانس اور مغربی ممالک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ جب سے بھارت میں انتہاپسند ہندو حکومت آئی ہے، بھارتی مسلمانوں کو چین سے سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا اور آئے روز بھارتی مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے نت نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو تیسرے درجے سے بھی نیچے کے شہری کے طور پر بھی جینے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ دنیا کے نئے نقشے میں کس کی عالمی حکومت قائم ہو گی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔