ایک عظیم یاد
یورپی سرمایہ پرستی اور اجارہ داری کے جواب میں اشتراکی نظام ایک نیا راستہ تھا
برادرم حبیب احمد (جو پاکستان میں رشیئن فیڈریشن کے اعزازی کونسلر بھی ہیں) کا فون آیا کہ وہ 28 اپریل کی شام روسی سفیر کے اعزاز میں ایک عشائیہ دے رہے ہیں جس میں وہ مجھے مدعو کرنا چاہتے ہیں میں نے وعدہ تو کر لیا مگر اس وقت تک مجھے تقریب کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا ہال میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے نظر فقیر اعجاز الدین صاحب پر پڑی جن سے گزشتہ شب کمال منوں صاحب کے اس عمدہ مشاعرے میں بھی ملاقات ہوئی تھی جو اب ایک سالانہ ایونٹ بنتا جا رہا ہے اور گرد نگاہ ڈالی تو بہت سے ایسے شناسا چہرے بھی دکھائی دیے جو اپنے اپنے میدان میں منتخب اور منفرد کہے جا سکتے ہیں۔
مہمان خاص یعنی روسی سفیر اور ان کے کچھ رفقاء بھی پہنچ چکے تھے اور حبیب احمد صاحب ان سے اپنے مدعو کردہ مہمانوں کا تعارف کروا رہے تھے' معلوم ہوا کہ یہ تقریب دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران روسی قوم اور فوج کی ان شاندار خدمات اور قربانیوں کو ایک خراج عقیدت کے طور پر منعقد کی گئی ہے جس کی 70 ویں سالگرہ آیندہ ماہ یعنی مئی کی 9 تاریخ کو ہو گی۔
ابتدا میں دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے گئے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ایک خاتون ادا کررہی تھیں جن کا انگریزی میں بولنا تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر انگریزی کم کم ہی پلے پڑ رہی تھی کہ ان کا لہجہ اور لفظوں کا انتخاب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ہو پا رہے تھے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مشہور جملہ دوہرایا کہ ''ہمارے بیورو کریٹس صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں'' اور ساتھ ہی اس میں یہ اضافہ بھی کیا صرف بیورو کریٹس تک اس بات کو محدود رکھنا درست نہیں کہ اب ''ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ البتہ اردو اس خاتون نے بہت مناسب انداز میں بولی۔
اسٹیج پر میزبان اور مہمانان خصوصی کے علاوہ خورشید محمود قصوری' ایس ایم ظفر'ڈاکٹر اشرف نظامی' لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ستی اور مجھے بٹھایا گیا جو میرے لیے انتہائی غیر متوقع بھی تھا اور قدرے پریشان کن بھی کہ حبیب احمد صاحب نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی اعلان کر دیا کہ مجھے تقریب کے موضوع کی رعایت سے کچھ کہنا بھی ہو گا اور بھلا کرے ان تمام مقررین کا جو مجھ سے پہلے بولے کہ ان کی گفتگو سے مجھے بہت سی تفصیلات کا پتہ چل گیا کچھ مدد اس آڈیو ریکارڈنگ سے مل گئی جو9 مئی 1945 کو روسی ریڈیو سے نشر کی گئی تھی اور جس میں اس جنگ کے دوران روسی عوام اور افواج کی جرات اور قربانیوں کا خاصا معلومات افزا تذکرہ تھا۔
میں نے عرض کیا کہ روسی انقلاب نے آگے چل کر جو بھی شکل اختیار کی یہ اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تقریباً چار صدیوں پر پھیلے ہوئے یورپی اقتدار اور اس کے ایجاد کردہ نو آبادیاتی نظام کے سائے میں زندگی گزارنے والی تقریباً تین چوتھائی دنیا کے لیے یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا اور روشنی کا پیام بر تھا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف بے شمار محکوم ملکوں اور قوموں کو آزادی ملی بلکہ سو سے زیادہ نئے ملک بھی وجود میں آئے۔
یورپی سرمایہ پرستی اور اجارہ داری کے جواب میں اشتراکی نظام ایک نیا راستہ تھا جس میں انسانی مساوات اور حقوق کی ایک بالکل نئی دنیا ان افتادگان خاک کے لیے کھل گئی تھی جنھیں چاروں طرف سے ہر طرح کی غلامی اور غلامانہ ذہنیت نے گھیر رکھا تھا اس انقلاب کی فلسفیانہ اور علمی بنیاد کارل مارکس کی کتاب داس کیپیٹال تھی جسے ماڈرن بائبل کا درجہ بھی دیا گیا ہے اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے بھی اس کے مصنف کو یہ کہہ کر زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ ''نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب'' یعنی کارل مارکس روایتی معنوں میں پیغمبر تو نہیں تھا مگر صاحب کتاب ضرور تھا اس موقع پر میں نے اقبال کی مشہور نظم ''لینن' خدا کے حضور میں'' سے یہ چند اشعار بھی حاضرین سے شیئر کیے کہ
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے' مٹا دو
مختلف مقررین نے اس جنگ' اس میں جاں بحق ہونے والے دو سے تین کروڑ روسی عوام' پاک روس تعلقات کے نشیب و فراز' باہمی دوستی کی اہمیت' موجودہ بہتر اور زیادہ دوستانہ تعلقات اور ان چار برسوں میں ہونے والی اہم جنگوں اور ان کی تفصیلات سے حاضرین کو آگاہ کیا جو واقعی بہت معلومات افزا تھیں۔ تقریب کے اختتام پر اس عظیم یاد کے حوالے سے ایک کیک بھی کاٹا گیا جب کہ کھانے کے دوران ایک بہت عمدہ فلم بھی نصب شدہ اسکرینوں پر چلتی رہی لیکن اسے توجہ سے دیکھنے کا وقت شاید ہی کسی کو مل سکا ہو وجہ صاف ظاہر ہے۔
کھانے کی میز پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر' لیاقت بلوچ' برادرم دلاور عباس' کامران لاشاری سمیت کئی دوستوں سے ملاقات رہی سب کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ روس پاک تعلقات سے متعلق عمومی عوامی تاثرات کو بہتر بنانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اس طرح کی تقریبات بہت اہم اور مثبت رول ادا کر سکتی ہیں۔
مہمان خاص یعنی روسی سفیر اور ان کے کچھ رفقاء بھی پہنچ چکے تھے اور حبیب احمد صاحب ان سے اپنے مدعو کردہ مہمانوں کا تعارف کروا رہے تھے' معلوم ہوا کہ یہ تقریب دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران روسی قوم اور فوج کی ان شاندار خدمات اور قربانیوں کو ایک خراج عقیدت کے طور پر منعقد کی گئی ہے جس کی 70 ویں سالگرہ آیندہ ماہ یعنی مئی کی 9 تاریخ کو ہو گی۔
ابتدا میں دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے گئے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ایک خاتون ادا کررہی تھیں جن کا انگریزی میں بولنا تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر انگریزی کم کم ہی پلے پڑ رہی تھی کہ ان کا لہجہ اور لفظوں کا انتخاب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ہو پا رہے تھے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مشہور جملہ دوہرایا کہ ''ہمارے بیورو کریٹس صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں'' اور ساتھ ہی اس میں یہ اضافہ بھی کیا صرف بیورو کریٹس تک اس بات کو محدود رکھنا درست نہیں کہ اب ''ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ البتہ اردو اس خاتون نے بہت مناسب انداز میں بولی۔
اسٹیج پر میزبان اور مہمانان خصوصی کے علاوہ خورشید محمود قصوری' ایس ایم ظفر'ڈاکٹر اشرف نظامی' لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ستی اور مجھے بٹھایا گیا جو میرے لیے انتہائی غیر متوقع بھی تھا اور قدرے پریشان کن بھی کہ حبیب احمد صاحب نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی اعلان کر دیا کہ مجھے تقریب کے موضوع کی رعایت سے کچھ کہنا بھی ہو گا اور بھلا کرے ان تمام مقررین کا جو مجھ سے پہلے بولے کہ ان کی گفتگو سے مجھے بہت سی تفصیلات کا پتہ چل گیا کچھ مدد اس آڈیو ریکارڈنگ سے مل گئی جو9 مئی 1945 کو روسی ریڈیو سے نشر کی گئی تھی اور جس میں اس جنگ کے دوران روسی عوام اور افواج کی جرات اور قربانیوں کا خاصا معلومات افزا تذکرہ تھا۔
میں نے عرض کیا کہ روسی انقلاب نے آگے چل کر جو بھی شکل اختیار کی یہ اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تقریباً چار صدیوں پر پھیلے ہوئے یورپی اقتدار اور اس کے ایجاد کردہ نو آبادیاتی نظام کے سائے میں زندگی گزارنے والی تقریباً تین چوتھائی دنیا کے لیے یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا اور روشنی کا پیام بر تھا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف بے شمار محکوم ملکوں اور قوموں کو آزادی ملی بلکہ سو سے زیادہ نئے ملک بھی وجود میں آئے۔
یورپی سرمایہ پرستی اور اجارہ داری کے جواب میں اشتراکی نظام ایک نیا راستہ تھا جس میں انسانی مساوات اور حقوق کی ایک بالکل نئی دنیا ان افتادگان خاک کے لیے کھل گئی تھی جنھیں چاروں طرف سے ہر طرح کی غلامی اور غلامانہ ذہنیت نے گھیر رکھا تھا اس انقلاب کی فلسفیانہ اور علمی بنیاد کارل مارکس کی کتاب داس کیپیٹال تھی جسے ماڈرن بائبل کا درجہ بھی دیا گیا ہے اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے بھی اس کے مصنف کو یہ کہہ کر زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ ''نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب'' یعنی کارل مارکس روایتی معنوں میں پیغمبر تو نہیں تھا مگر صاحب کتاب ضرور تھا اس موقع پر میں نے اقبال کی مشہور نظم ''لینن' خدا کے حضور میں'' سے یہ چند اشعار بھی حاضرین سے شیئر کیے کہ
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے' مٹا دو
مختلف مقررین نے اس جنگ' اس میں جاں بحق ہونے والے دو سے تین کروڑ روسی عوام' پاک روس تعلقات کے نشیب و فراز' باہمی دوستی کی اہمیت' موجودہ بہتر اور زیادہ دوستانہ تعلقات اور ان چار برسوں میں ہونے والی اہم جنگوں اور ان کی تفصیلات سے حاضرین کو آگاہ کیا جو واقعی بہت معلومات افزا تھیں۔ تقریب کے اختتام پر اس عظیم یاد کے حوالے سے ایک کیک بھی کاٹا گیا جب کہ کھانے کے دوران ایک بہت عمدہ فلم بھی نصب شدہ اسکرینوں پر چلتی رہی لیکن اسے توجہ سے دیکھنے کا وقت شاید ہی کسی کو مل سکا ہو وجہ صاف ظاہر ہے۔
کھانے کی میز پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر' لیاقت بلوچ' برادرم دلاور عباس' کامران لاشاری سمیت کئی دوستوں سے ملاقات رہی سب کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ روس پاک تعلقات سے متعلق عمومی عوامی تاثرات کو بہتر بنانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اس طرح کی تقریبات بہت اہم اور مثبت رول ادا کر سکتی ہیں۔