لاڑکانہ کے چہار درویش
یہ سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس لیے ہوسکتا ہے، کیونکہ اچھے انسان خاموش ہوگئے ہیں یا گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک مشہور سندھی کہاوت ہے کہ''جیب میں ہواگر نامہ، توجاؤگھومنے لاڑکانہ ''کیونکہ لاڑکانہ کبھی اہل سندھ کے خوابوں کا محور ہوا کرتا تھا۔یہ وہ شہر نگاراں ہے، جس کے پہلو سے سندھو ندی مست وخراماں گذرتی ہے۔جس کے دامن میں دنیا کی ایک عظیم تہذیب وتمدن کی نشانیاں موجود ہیں۔جس کی فضاؤں میں''ساری مستی شراب کی سی ہے'' والی کیفیت پائی جاتی ہے۔
جس کی سوندھی مٹی میں ماں کی چھاتیوں جیسی مہک ہے۔ یہی وہ شہر ہے، جس کی کوکھ سے ان گنت نادر روزگار ہستیوں نے جنم لیا،جن کا شمار ممکن نہیں۔مگر پھر بھی ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو سیاست کے میدان میںہمیںجہاں سرشاہنواز بھٹو،خان بہادر ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ، ذوالفقار علی بھٹواور بینظیربھٹوجیسی ناموراور عالمی شہرت کی حامل شخصیات نظر آتی ہیں۔
وہیں علم وادب کی دنیامیں ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ اس شہر کی مٹی سے ابھرتا نظر آئے گا۔پیر علی محمد راشدی، پیر حسام الدین راشدی، کشن چند بیوس، ہوندراج دکھایل، جمال ابڑو،ڈاکٹر ایاز قادری اور پروفیسر غلام مصطفیٰ قاسمی جیسی ہستیوں نے اس شہر کے نام کو چار چاند لگائے۔جب کہ آج جامی چانڈیو جیساماہر عمرانیات اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ان کے علاوہ ان گنت نوجوان قلمکار اور فنکار اس کے نام کو زندہ وپایندہ رکھنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔
جس طرح میری محبتوں کا محور سکھر ہے،اسی طرح لاڑکانہ مسلم شمیم کی گیان بھومی اور پریم بھومی ہے۔اس شہر سے ان کی عقیدتیں ان کی ہر تحریر اور ہر تقریر میں نمایاں رہتی ہیں۔جس طرح سکھر اور شکار پورکا ہر محلہ اور ہرگھٹی(گلی)کبھی میرے قدموں کی دھول ہوا کرتی تھی۔
اسی طرح لاڑکانہ کا ہر چوک اور چوبارہ مسلم شمیم کی یادوں کے انمٹ نقوش اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔اگر دل کی بات کہوں تو 40برس سے کراچی میں رہنے کے باوجودآج بھی دل و دماغ کے گوشے سکھرکی یادوں سے منور ہیں۔ یقینا یہی حال مسلم شمیم کا بھی ہوگا۔میری طرح ان کی روح بھی اترا دی سندھ کے شہروں میں بھٹکتی رہتی ہوگی۔میں نے اب تک جو بھی خواب دیکھاہے، اس میں سکھرہی نظر آیاہے۔ شاید یہی کیفیت مسلم شمیم کی بھی ہو۔
مسلم شمیم ایک صاحب طرز شاعر، ایک بلند پایہ دانشور اور ایک انتہائی کمیٹیڈ نظریاتی انسان ہیں۔انھوں نے خالص نظریاتی موضوعات پر کئی کتب تحریر کی ہیں۔ جن میں نظریات کا تصادم چونکادینے والی تحریر ہے۔ان کی شاعری بھی ان کے فکری رجحانات کی عکاس ہے۔وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکز صدر نشین بھی ہیں اور حتیٰ المقدور اسے ایک نئی جہت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مگرجہاں تک یادوں کے دریچوں کا معاملہ ہے، توان میں جھانکتے ہوئے انھیں ''من تو شدم تو من شدی'' کے مصداق چہار سو لاڑکانہ ہی نظر آتا ہے، جو ان کی محبتوں اور چاہتوں کا مرکز ہے۔ جہاں گذرے شب و روز ، سنگی ساتھیوں سے ہونے والی گپ شپ اور اہل علم و دانش کی حکمت افروز گفتگو اور انسان کی عظمت کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کے مناظر ان کے ذہن کو معطر رکھتے ہیں۔
مسلم شمیم جو محنت کی عظمت اور فکری تنوع کے سچے داعی ہیں، اپنے ان محسنوں کو کیونکر فراموش کرسکتے ہیں، جن کے آگے زانو ادب تہہ کرکے انھوں نے ان آفاقی سچائیوں کا ادراک حاصل کیا۔ یہ ہستیاںصرف مسلم شمیم کی ہی فکری اتالیق نہیں ہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے رہبری و رہنمائی کا ذریعہ ہیں، جو فکری کثرتیت اور انسان کی عظمت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی جذبہ اور سوچ کے نتیجے میں یہ کتاب'' لاڑکانہ کے چہار درویش'' وجود میں آتی ہے۔
یہ سب باتیں اس لیے وثوق کے ساتھ لکھ رہا ہوں، کیونکہ اپنی کتاب ''لاڑکانہ کے چہار درویش'' میں انھوں نے جس چاہت اور چاؤ سے ان درویشوں کا تذکرہ کیا ہے، جن کا آدرش انسانیت دوستی کے نقطہ عروج سے شروع ہوکر سماج کی طبقاتی جدوجہد پر منتج ہوتا ہے، وہ ان کی اس شہر سے وارفتگی کا بین ثبوت ہے۔ زیر نظر کتاب میں جن شخصیات کی زندگی پر اظہار خیال کیا ہے، وہ ہر اس شخص کے لیے اہمیت کی حامل ہیں، جو سماج میں جاری ناانصافیوں، ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کو ناپسند کرتے ہوئے ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے۔
ہر وہ شخص جو ان ہستیوں کی تمام زندگی حق گوئی اور جرأت رندانہ پر قائم رہنے کی روایت کو سمجھتا ہے، ان کا نام آتے ہی اس کا سر احترام میں جھک جاتا ہے۔ یہ چار ہستیاں، کامریڈجمال الدین بخاری، کامریڈ حیدربخش جتوئی، کامریڈ مولوی نذیر حسین جتوئی اور کامریڈ سوبھو گیان چندانی کی ہیں۔
ان میں اول الذکر درویش یعنی کامریڈ جمال الدین بخاری ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے اور پھر لاڑکانہ کی زلف کے ایسے اسیر ہوئے کہ انھوں نے اس شہر کو نہ صرف اپنی سیاسی جدوجہد کا مرکزو محور بنایا، بلکہ اپنی تمام زندگی اسی شہر کی محبتوں کی نذر کردی۔ بقیہ تین درویشوںنے اسی شہر میں جنم لیا۔
کتاب کے حرفِ آغازمیں مصنف مسلم شمیم کہتے ہیں کہ '' اس کتاب میں جن چار شخصیتوں کی جدوجہد سے عبارت حیات کی روداد اجمالاً بیان کی گئی ہے، یہ چاروں ہستیاں، جامعیت اور کثیر الجہتی کی حامل آدرش وادی شخصیات ہیں۔ یہ شخصیات سماج کی ان بنیادوں کی بیخ کنی کرنا چاہتی تھیں، جو اس دھرتی پر جبر واستحصال کا سرچشمہ تھیں۔'' آگے چل کر لکھتے ہیں کہ'' 1789میں انقلاب فرانس کے بعد روسو اور والٹئیر کے افکار و نظریات جمہوری طرز احساس کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آزادی، مساوات اور اخوت آج انسان کا Mindset بن چکے ہیں۔19ویں صدی میں جمہوری انقلابات کے تسلسل کے ساتھ آغاز اور 1848 میں مارکس اور اینگلزکے کمیونسٹ منشور نے تاریخ کے دھارے کو نہ صرف ازسرنوChannelizeکیا، بلکہ دھرتی پر محنت کشوں کی حکومت کے قیام کی نظریاتی سمتیں بھی طے کردیں اور انقلابات کے خدوخال کی نشاندہی بھی کردی۔''
سابق اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ ذوالفقار قادری کا اس کتاب کے حوالے سے کہنا ہے کہ '' قحط زدہ معاشرے میں جہاں ہر طرف بے چینی اور اضطراب کا دور دورہ ہو، بڑی مشکل سے انسانوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس لیے ہوسکتا ہے، کیونکہ اچھے انسان خاموش ہوگئے ہیں یا گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ ببانگ دہل اچھائی کا پرچار کرتے نظر آئیں گے، وہ تھوڑے ہی سہی لیکن اصل انسان کی قبا اوڑھے ہوئے ہیں۔ مسلم شمیم ہمیشہ لاڑکانہ کے ستاروں کی کھوج میں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لاڑکانہ کی مردم خیز سرزمین سے چار ہیروں یا ستاروں کو یکجا کرکے ایک کتاب کی شکل میں لے آئے ہیں۔ یہ چہار درویش واقعی عظیم لوگ ہیں، جنہوں نے جو شمعیں جلائی ہیں، وہ کبھی ماند نہیں پڑیں گی۔ مسلم شمیم نے جس فنکارانہ انداز سے انھیں پیش کیا ہے، اس سے لاڑکانہ کی خوشبو، امرود کے درختوں کی کھنکھناہٹ ، چاولوں کے پکنے والی گرمی اور اس مٹی اور پانی کا پورا پورا حق ادا کردیا ہے۔''
مسلم شمیم نے ''لاڑکانہ کے چہار درویش '' لکھ کر دراصل20ویں صدی میں نہ صرف اترادی بلکہ پورے سندھ میں ہونے والی سیاسی و طبقاتی جدوجہد کی سیاسی تاریخ کو ایک کتاب میں جمع کردیا ہے۔ ہم جیسے لوگ جو ان نابغہ روزگار ہستیوں سے ملنے کا اعزاز رکھتے ہیں، مسلم شمیم کی اس کاوش کی شاید وہ پذیرائی نہ کرسکیں، جس کے وہ حقدار ہیں اور شاید انھیں مبارک باد دے کر مطمئن ہورہے ہیں۔
لیکن تصور کیجیے کہ آنے والے زمانوں میں جب کوئی محقق سندھ کی تاریخ پر تحقیق کر رہا ہو گا تو یہ کتاب اسے کس قدر فیض پہنچائے گی۔ اسے ہمارے اس زمانے میں سماجی انصاف، سیاسی و جمہوری آزادیوں اور حقوق انسانی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا صحیح اور حقیقت پسندانہ ادراک ہوسکے گا اور وہ تاریخ کے ابواب کو درست شکل میں پیش کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ اس لیے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تاریخ، ادب اور سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والے احباب کے علاوہ تاریخ اور سیاسیات کے طلبا و طالبات بھی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
کیونکہ یہ کتاب انھیں تاریخ کے ان گمنام ابواب تک رسائی دے گی، جنھیں بوجہ ہماری ریاست عوام تک پہنچنے نہیں دینا چاہتی ۔ جس کی وجہ سے نوجوان نسل کے ذہنوں پر تاریخ اور سماجیات کے حوالے سے جالے لگ چکے ہیں۔ یہ کتاب ان جالوں کو صاف کرنے اور ذہن میں کشادگی اور فکری بالیدگی پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ یہ کتاب سوچ کے دھاروں کو حقیقت پسندانہ شکل دینے معاون و مددگار ثابت ہوگی۔