محنت کشوں کا اتحاد

آج پاکستان میں محنت کشوں کی حالت زار شکاگو کے اُن مزدوروں کی حالت سے بدتر ہے۔


محمد عارف شاہ April 30, 2015

PALM HARBOR: 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں نے ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی، اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر آنے والے زمانوں کے مزدوروں کے لیے آٹھ گھنٹے اوقات کار اور دیگر سہولیات کا حصول ممکن بنایا تھا۔ محنت کشوں کی اس جدوجہد میں استحصالی قوتوں کے خلاف مزدور ہر اول دستہ ثابت ہوئے۔ اسی لیے ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا بھر میں یوم مئی ''محنت کشوں کے عالمی دن'' کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ایک سسٹم موجود ہے، جس پر عمل ہوتا ہے مگر یہ دونوں ''نعمتیں'' تیسری دنیا کے ملکوں میں داخل ہوتے ہی اپنی صورت اور راستہ بدل لیتی ہیں اور وہاں کے علامہ اقبال کو کہنا پڑتا ہے کہ

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ!
دنیا ہے تریِ منتظر روزِ مکافات

آج پاکستان میں محنت کشوں کی حالت زار شکاگو کے اُن مزدوروں کی حالت سے بدتر ہے۔ ایک مزدور کی نظر میں ''محنت کشوں کا عالمی دن'' کیا حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے ایک مزدور سے اس کے احوال پوچھے تو وہ حیرت انگیز نظروں سے ہمیں دیکھنے لگا اور بولا ...

''ارے حضرت دنیا میں اس قدر ترقی اور مہنگائی ہو رہی ہے مگر ایک چیز گزشتہ کئی عشروں سے جامد ہے اور وہ چیز ہے مزدورکی مزدوری۔۔ فیکٹریوں میں سیٹھ ہیں، دفاتر میں سرکار ہے، آپ کو تو پتہ ہے زیادہ تر سیٹھ بھی ریٹائر سرکاری آفیسر ہوتے ہیں۔''
ہم نے پوچھا۔ ''یونین کس لیے ہوتی ہے؟''
جواب ملا، ہاں میں بھی یہ سوچتا تھا کہ مختلف مزدور یونینیں کس لیے ہوتی ہیں۔ حضرت میں عرض کروں کہ زیادہ تر یونینیں اونر میڈ (Ownermade) ہوتی ہیں جن کو ہم پاکٹ میڈ کہتے ہیں، یہ کام کے علاوہ سب کچھ کرتی ہیں۔

مذکورہ انکشافات نے ہمیں قدرے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ہم بولے، بھئی ہم فلموں، ڈراموں میں دیکھتے آئے ہیں، بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ دنیا میں سب سے پیاری اور میٹھی نیند صرف مزدور کو ہی آتی ہے، کہ پلنگ کے آس پاس بم پھٹتے رہتے ہیں تو بھی خواب مزدوراں میں ذرہ برابر بھی خلل واقع نہیں ہوتا، ایسی میٹھی نیند کو بڑے سے بڑا ساہوکار بھی ترستا ہے۔ شاعر اور قصہ خواں ایسی بیش بہا نیندوں کے متعلق صفحے کے صفحے سیاہ کرتے آئے ہیں۔ ماں ساری رات لوریاں سناتی رہتی ہے، اس کا گلہ رندھ جاتا ہے، مگر وہ نیند اس کے لال کو چھوکر بھی نہیں گزرتی۔ جس کی روداد ہم سنتے آئے ہیں۔

مدلل تقریر کر چکنے کے بعد ہم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ مزدور بیچارے نے اپنا سر پکڑ رکھا ہے اور وہ خود کو یقینا خوش قسمت ترین افراد میں گن رہا ہو گا، اسے اپنی غربت اور مزدوری پر فخر محسوس ہو رہا ہو گا۔

مزدور نے اپنی آنکھیں نیم وا کیں اور اس کے گلے سے رندھی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔

میرے بھائی! میرے محترم، آپ ڈرامے ذرا کم دیکھا کریں، وہ مزدور جو چارپائی پر پڑا ہوتا ہے، وہ لیٹے ہی نیند کے مزے نہیں لے رہا ہوتا بلکہ وہ تمام دن کی تھکن اور کم اجرت کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے مطالبوں اور ضروریات سے مبرا ہونے کے لیے سننے اور بولنے کی صلاحیتیں کھو دیتا ہے۔ وہ سیٹھوں کی ریا کاری اور یونینوں کی اداکاری سے زچ ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ساہوکار بتدریج ایک سے کئی کاروں اور ایک سے کئی کارخانوں کے مالک ہو جاتے ہیں، مگر مزدور کے لیے وہ تمام عرصہ گھاٹے میں رہتا ہے، وہ صرف ان کی بیروزگاری کے ڈر سے فیکٹری بند نہیں کرتا۔

ہم ایک مزدور سے کیسے ہار مان لیتے۔

ہم بولے کہ ''بھئی دیکھو سرکار نے سیٹھوں پر نظر رکھنے کے لیے سرکاری ادارے بنائے ہیں، جس میں لیبر ڈیپارٹمنٹ، اولڈ ایج بینیفٹ اور سول ڈیفنس شامل ہیں۔ حکومت تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ ان پر خرچ کرتی ہے۔ صرف اس لیے کہ حکومت یوم مزدور کے دن بھرپور طریقے سے سرخرو ہو سکے۔

ابھی ہماری دھواں دھار تقریر جاری تھی کہ مزدور بھائی نے ہمیں سرکار سمجھ کر انتہائی حقارت سے دیکھا اور گلوگیر آواز میں بولا ''تمام ادارے حکومت نے ہمارے لیے بنائے تھے مگر ان کا سب سے بڑا نقصان ہم لوگوں کو ہی ہوا،کارخانہ کے منافعے سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک معقول حصہ مذکورہ اداروں کے اہل کار اڑاتے ہیں۔

ہم نے جھلا کر مزدور کی بات کاٹی۔ اچھا چھوڑو، یہ بتاؤ کہ لیبر ڈے پر تم کیا پیغام دینا چاہتے ہو۔

''میرا پیغام نہیں بلکہ میری عرض ہے کہ مزدور کا دن منانے سے پہلے مزدور کو منانا چاہیے، کیوں کہ اس تمام تر معاشرتی ترقی اور روانی میں مزدور کا بنیادی و کلیدی کردار ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جب کہ ہماری مزدوری ایک صدی پرانی ہو چکی ہے۔''

مزدورکے پیغام نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک محنت کشوں کی حالت نہیں بدلی۔ یہاں وہی آٹھ گھنٹے سے زیادہ مشقت لی جاتی ہے، آپ ذرا ان فارمل سیکڑ کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سولہ، سولہ گھنٹے مشقت کے بعد بھی معاوضہ انھیں اتنا ملتا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی بمشکل کھا سکیں۔

سرمایہ دار ان سے بیگارکیمپ کی صورت میں کام لیتا ہے، لیکن سابقہ اور موجودہ حکومتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ محنت کش خوشحال ہے، مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے کہ کوئی ماہر معاشیات ذرا پانچ افراد کا بجٹ تو بنا کر دکھائے۔ صرف بہت تھوڑی تعداد میں مزدوروں کے پاس بھرتی کے لیٹر ہیں، باقی لاکھوں مزدور بغیر بھرتی کے لیٹر پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اوپر سے ٹھیکیدار نظام کی لعنت نے محنت کشوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

ٹھیکیدار کے مزدور کو کوئی بھی ادارہ اپنا مزدور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ زراعت کے محنت کش کا تو ہم ذکر کیا کریں، انھیں نہ حکومت اور نہ ہی زمیندار باقاعدہ مزدور تسلیم کرنے کو تیار ہے اور ان کی پوری فیملی زمیندار کی غلام ہوتی ہے۔

اس طرح بھٹہ مزدور، ماہی گیر، سڑکوں، عمارتوں میں کام کرنیوالے عام مزدور، گھروں میں کام کرنیوالی خواتین، ہوم بیس خواتین اور دیگر یہ سب لیبر لاز کے زمرے میں نہیں آتے۔ اب اگر آپ دیکھیں تو تقریباً ملک کی آدھی آبادی مرد و خواتین سمیت مزدور ہیں لیکن یہ سب صرف بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کر پاتے ہیں۔

اب اگر آپ ان مزدوروں کی طرف آئیں کہ جنھیں تمام تر سہولیات سے آراستہ کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی صرف پانچ فیصد مزدور ٹریڈ یونین کے حق سے وابستہ ہیں لیکن ان کو کس حد تک ٹریڈ یونین کے حقوق مل رہے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔

سرکاری اداروں سمیت لاتعداد اداروں کے محنت کش کسمپرسی کے باوجود جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ایک آدھ جگہ چھوڑ کر کہیں بھی ٹریڈ یونین کی آزادی نہیں، پھر باقی فارمل اور ان فارمل سیکٹر کے ہزاروں مزدور یہ دکھ جھیل رہے ہیں۔

چنانچہ پاکستان کے محنت کشوں کو چاہیے وہ اٹھیں اور کسانوں، طلباء اور غریب عوام کی قیادت کریں۔ منظم جدوجہد کے ذریعے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ان کے کاسہ لیسوں سمیت مزدور کا استحصال کرنے والے تمام لوگوں سے اس ملک کو نجات دلائیں۔

اس بارے میں فیض احمد فیض محنت کشوں میں کتنا زبردست جوش و جذبہ جگاتے ہیں کہ

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اک کھیت نہیں، ایک دیس نہیں، ہم ساری دنیا مانگیں گے
یہاں ساگر ساگر موتی ہیں، یہاں پربت پربت ہیرے ہیں
یہ سارا مال ہمارا ہے، ہم سارا خزانہ مانگیں گے
جو خون بہا، جو باغ اجڑے، جو گیت دلوں میں قتل ہوئے
ہر غنچے کا، ہر قطرے کا، ہر گیت کا بدلہ مانگیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں