امید بہار رکھ

کتنی خراب عادت ہے کہ ہم رستے پر چلتے چلتے اپنا رستہ بدل لیتے ہیں آپ کہیں گے کہ یہ تو کامیابی کی علامت ہے



لاہور: وقت، حالات و عمر کے ساتھ لفظ اپنے معنی و مفہوم بدل دیتے ہیں لفظ بے چاروں کا کیا ہے یہاں تو وقت کے ساتھ انسان بھی بدل جاتے ہیں۔ وقت تو یوں ہی بدنام ہے اصل معاملہ تو انسان کا ہے جو حالات کی چکی میں پس رہا ہے یوں تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے پہلے کبھی کبھی لیکن اب اکثر۔

کتنی خراب عادت ہے کہ ہم رستے پر چلتے چلتے اپنا رستہ بدل لیتے ہیں آپ کہیں گے کہ یہ تو کامیابی کی علامت ہے (دور حاضر میں) کہ وقت کے ساتھ حالات کے مطابق رستہ بدل لیا جائے لیکن یہاں بات ہے مختلف یہاں تو ہم معنی بدل جانے کی بات کر رہے تھے۔ حالات و عمر کے ساتھ۔ پہنچ گئے گیہوں کے موضوع پر۔ کیا کیا جائے اناج کا بھی ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہے، یہ نہ ہو تو ہم بھوکوں مر جائیں۔

معلوم نہیں کتنے ہیں جو دنیا میں بھوک سے مر رہے ہیں۔ خیر مر تو نفرت و تعصب سے بھی رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا رونا تو سب روتے ہیں بڑھتی ہوئی اموات پر کوئی غور نہیں کرتا۔ جیسے معلوم نہیں کہ آپ نے غور کیا یا نہیں کہ لفظ و معنی و مفہوم سے نکل کر ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ خیر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اگر ہم غور کر لیں یا کر لیتے تو ہم وہاں نہیں ہوتے جہاں ہیں۔

اصل مسئلہ تو غور کرنے کا ہے ہم کبھی بھی ان چیزوں پر غور نہیں کرتے جو کہ غور طلب ہوتی ہیں ہم ہمیشہ ان چیزوں پر غور کرتے ہیں جو کہ قابل غور نہیں ہوتی ہیں۔ مثلاً چھوٹی چھوٹی باتیں جن میں الجھ کر ہم بڑی بڑی باتیں بھول جاتے ہیں بھولنے کی بھی خوب کہی بڑے بڑے واقعات ہماری زندگی میں ہلچل مچاتے ہیں اور پھر ہم تحقیقاتی کمیٹیاں بنا کر بھول جاتے ہیں۔

بس یہ بھول ہی تو ہے کہ کبھی کبھی ہم آزمائے ہوئے لوگوں کو بھی بھول کر دوبارہ آزماتے ہیں بھول بھلیاں میں ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ معنی و مفہوم سے ہم نے بات شروع کی تھی۔ تو جناب! ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہم چھوٹے تھے تو اکثر ہماری اماں کہتی تھیں کہ بیٹا! ہاتھ صاف ہیں کہیں میلے تو نہیں اور ہم جلدی سے اپنی ہتھیلیاں صابن سے رگڑ رگڑ کر صاف کرتے دن میں کئی مرتبہ ہاتھ دھوتے۔ اماں خوش ہو جاتیں کبھی بھی ہم نے اماں کی بات کا برا نہ مانا لیکن اب بڑی کرسی پر بیٹھ کر لفظوں کے معنی وقت کے ساتھ کتنے بدل گئے ہیں اب اگر کوئی ہمارے سامنے بیٹھ کر زیر لب مسکرا کر پوچھتا ہے کہ جناب! آپ کے ہاتھ صاف ہیں یا کتنے صاف ہیں تو ہمیں ان کا یہ جملہ ناگوار گزرتا ہے۔ اب تو ہر بات ہی ناگوار گزرتی ہے۔

زمانہ ہی ایسا آ گیا ہے۔ قوت برداشت نام کی کوئی چیز تو رہ ہی نہیں گئی ہے۔ کوئی اچھی بات بھی کرے تو ہمیں بری لگتی ہے مثلاً اگر دسترخوان پر کوئی یہ پوچھے کہ کھانے پینے کا شوق ہے یا کھلانے کا تو ہمیں عام سی بات لگتی ہے۔ لیکن اگر کرسی پر بیٹھ کر کوئی پوچھ لے کہ کتنا کھاتی ہو یا کھلاتی ہو تو ہم کرسی سے اچھل جائیں گے بس یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر برہم ہونے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔

اگر آپ چونک رہے ہیں تو ہم آپ کو بتادیں کہ اب یہ چھوٹی سی بات ہے کیونکہ اب اس سے بھی بڑی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ بڑی بڑی۔ ہم آپ کو ہر بات کیوں بتائیں کہتے ہیں کہ بات زبان سے نکلی تو پرائی ہوگئی۔ سورۃ بنی اسرائیل میں آیا ہے کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو ۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔

کسی زمانے میں ہم بہترین قوم ہوا کرتے تھے اور اب بد ترین زمانے میں بدترین باتیں کرنے لگے ہیں۔ زبان تو جیسے قابو ہی میں نہیں ہے اب خود ہی بتائیں ایسی صورت میں بچوں کو بھلا کس طرح قابو میں رکھیں۔ بچے بھی قیمتی اثاثوں کی طرح ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں پرندوں کے بچوں کی طرح پر نکلتے ہی پرواز کر جاتے ہیں بات تھی زبان کی۔ تو جناب! یہ زبان ہی تو ہے جو محبت و نفرت کی بنیاد ڈالتی ہے۔ شیریں بیانی رشتوں کو مضبوط کرتی ہے اور بدزبانی رشتوں اور قوموں میں نفاق پیدا کرتی ہے ہماری زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی کا دارومدار زبان پر ہے۔

بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ یہ زبان ہی تو ہے جو قیامت ڈھاتی ہے اب ان کے کہے پر یقین آنے لگا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے اللہ کو اسی آدمی سے نفرت ہے جو بے شرمی کی بات زبان سے نکالتا ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہمارا اخلاق ہماری پہچان ہے ہمارا مذہب ہمیں خوش اخلاقی کی تعلیم دیتا ہے لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ہم غیر محسوس طریقے پر کس قدر بداخلاق ہوگئے ہیں، ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ اپنوں کی پہچان ختم ہوگئی ہے۔ غیروں کو اپنا رہے ہیں اور تماشہ بن رہے ہیں کاش ہم اپنوں کو اپنائیں اور غیروں کی چالوں کو سمجھ سکیں۔

ہائے تاریخ پکار پکار کر آئینہ دکھا رہی ہے فتح و شکست عروج و زوال کی ان منٹ کہانیاں رہنمائی کر رہی ہیں۔ لیکن ہم تو عقل ہی کھو بیٹھے ہیں۔ کھونے کی بات نہ کریں فہرست طویل ہے کیا کھویا کیا پایا اور پانے کے بعد کیا کیا کھو دیا۔ فرصت کہاں ہے سوچنے کی ہم تو صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا کیا مل سکتا ہے۔ ارے یہ کیا بچے کبھی بھی کوئی کام مکمل نہیں کرنے دیتے۔

اچھا خاصا لکھ رہی تھی کہ شور مچا کر تسلسل توڑ دیا۔ توبہ دادا ابا کی کرسی نہ ہو گئی تماشا ہو گئی کبھی گھسیٹ کر کمرے میں لے جاتے ہیں اور کبھی برآمدے میں ایک بیٹھ جائے تو دوسرا قیامت ڈھا دیتا ہے چین نہیں آتا جب تک اٹھا نہ دے اس اٹھنے بیٹھنے۔ بٹھانے اور اٹھانے کے عمل میں مجھے تو کرسی پر ترس آ جاتا ہے دادا ابو تھوڑی دیر تو تماشا دیکھتے ہیں پھر ان کی ایک ڈانٹ پر بچے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب تک ہمارے خیالات درہم برہم ہو چکے ہوتے ہیں اب ان منتشر خیالات کو جمع کرنے میں وقت لگے گا تو پھر وقت کا انتظار کرتے ہیں مجھے ہمیشہ اچھے وقت کا انتظار رہتا ہے۔ اور آپ کو؟ نہیں مایوسی کفر ہے ہم تو مسلمان ہیں تو جناب! پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔