پاکستانی شادی پیسے کی بربادی

ہمارے ہاں روایتی شادی کی تقریبات کے آغاز اور اختتام کے دوران ہر دن پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے۔


عاطف اشرف April 30, 2015
اگر غور کیا جائے تو اخراجات کی اصل وجہ شادی نہیں بلکہ فرسودہ اور خواہ مخواہ کی ہندوانہ رسومات ہیں جو ہمارے کلچر میں بری طرح سرایت کر چکی ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: دنیا کے کسی میں ملک میں شادی ایک انتہائی عام اور سستی سی سرگرمی ہے۔ یورپ اور امریکا میں باہمی رضا مندی کے بعد چرچ جائیں اور میاں بیوی بن کر گھر آجائیں۔

اگلےدن دوستوں اور اہل وعیال کو کھانے کی دعوت پر بلائیں مبارکبادیں لیں۔ چلیں جی ہوگئی اِس طرح نئی زندگی شروع ۔۔ نہ کوئی زیور، نہ جہیز، نہ مکلاوا، نہ واگ پھڑائی، نہ جوتی چھپائی، نہ دودھ پلائی، نہ مایو، نہ مہندی، نہ لڑکی والوں کی طرف سے تمام سسرال والوں کے جوڑے لگائی اور نہ ہی سارے رشتے داروں کی مٹھائی اور بدِ بھجائی۔ جتنی زیادہ رسمیں اتنی ہی زیادہ ٹینشنیں، اور اتنی ہی زیادہ رشتے داروں کی باتیں اور ناراضگیاں۔ لیکن قصوروار کون؟ ہماری خواہ مخواہ کی انا، ہمارا معاشرہ، ہندووانہ رسمیں اور لوگوں کی باتوں اور سوچ کا ڈر ۔۔۔ کہ لوگ کیا سوچیں گے!



چین جیسے ملک کا کوئی باشندہ اگر پاکستان اور بھارت میں آکر ایک مڈل کلاس فیملی کی شادی دیکھ لے تو وہ یقیناً یہی سمجھے گا کہ یہ کسی بادشاہ کی شادی ہورہی ہے۔۔ کیوں؟ شاید اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کے لئے سب سے بڑی ذمہ داری اولاد بیاہنے کی ہوتی ہے اور وہ اس لئے ان تین چار دنوں کی شادی تقریبات میں ساری عمر کی کمائی لگا دیتے ہیں۔ نئی زندگی تو شروع ہوجاتی ہے لیکن پرانی زندگی کا خون چوس کر۔۔

ہمارے ہاں روایتی شادی کی تقریبات کے آغاز اور اختتام کے دوران ہر دن پیسہ پانی کی طرح بہتا ہے۔ شادی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے رشتے کی تلاش سے۔ پیسے نچوڑنے کا پہلا مرحلہ شروع ہوتا ہے میرج بیورو یا رشتے کروانے والوں سے۔ لڑکی یا لڑکے کا رشتہ دکھانے کی آڑ میں سبز باغ دکھاکر خوب پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ پسند کا لڑکی لڑکا چننے میں ایک عمر گزر جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر مرضی کا رشتہ طے ہوتا ہے۔

اب رشتہ طے ہونے کے بعد مبارکباد کے نام پر مٹھائی کھلائی جاتی ہے اور لڑکا اور لڑکی والے ایک دوسرے کو نقد رقم دے کر بات پکی کرنے کا بالکل ایسے ہی اشارہ دیتے ہیں جیسے کسی پراپرٹی کا بیعانہ دیا جاتا ہے۔ اس دوران منگنی کی باتیں بھی چلتی ہیں اور لڑکی اور لڑکے والے ایک دوسرے کی ''اچھی سیرت اور کردار'' کی تصدیق کرنے کے لئے نا صرف گھروں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں بلکہ محلے داروں سے بھی بھرپور تفتیش کی جاتی ہے۔

منگنی کی تاریخ طے ہو تو دلہن کے لئے سونے کی انگوٹھی اور گولڈن سیٹ تو پکا ہے اور ساتھ ساتھ سسرال والوں بالخصوص نند کے لئے بھی جوڑے اور سیٹ دینا روایت ہے۔ ناک رکھنے کے لئے رشتے داروں کی دعوت کے لیے شادی ہال اور اچھے کھانوں کا اہتمام بھی خوب کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس منگنی کے اخراجات کی لسٹ بنائیں تو اسے ''منی شادی'' بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر اسے پی ایچ ڈی کے ریسرچ تھیسز کا سائیناپسز بھی کہہ سکتے ہیں۔۔

منگنی کے بعد پھر بات چلتی ہے شادی کی تاریخ طے کرنے کی۔ ڈیٹ فکس کرنے کی روایت الگ سے ہے۔ دونوں خاندان ایک دوسرے سے مذاکرات کے ذریعے شادی کی تاریخ طے کرتے ہیں۔ ڈیٹ فکس کرنے کی تاریخ کی بھی لڑکی والوں کو دعوت کے ساتھ رقم کی جاتی ہے۔ لڑکی والے لڑکے والوں کے پورے خاندان کے لیے کھویا یا مٹھائی لے کر آتے ہیں اور لڑکے والے مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ آپس میں میٹھی میٹھی باتیں ہوتی ہیں اور الوداع کے بعد چائے کے کپ پر تھوڑی سی غیبت کی چسکیاں لی جاتی ہیں۔۔

ڈیٹ فکس ہونے اور مایو کے دن کے درمیان کے سارے ایام شادی کی شاپنگ کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔ لڑکی والوں کی کمر تو پہلے جہیز توڑتا ہے اور پھر زیور۔ دلہا دلہن کے جوڑے، جوتیاں، سسرالیوں کے لئے ان سلے کپڑے مایو مہدی کا سامان، ڈی جے کا بندوبست، شادی کارڈ چھپوانا، ناچ گانے کا اہتمام اور ڈھول اور بارات والوں کو بلاوے سمیت دعوت طعام کے لئے بھرپور انتظام کیا جاتا ہے۔ شادی کی دعوت آپ ایس ایم ایس پر نہیں دے سکتے۔ خود گھر گھر جانا پڑتا ہے۔ لڑکے والے تو ناک رکھنے کے لئے دلہن کے زیور اور ولیمے کا بہترین اہتمام کرتے ہیں۔ ان دنوں ایک ہی معاملہ زیر بحث رہتا ہے، ولیمہ شادی ہال میں کریں یا فارم ہاؤٴس بہتر رہے گا یا کوئی ہوٹل۔ خیر پھر وہ دن آتا ہے جب شادی کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔



پہلے مایو پر رقم اجڑتی ہے اور پھر تیل مہدی پر دعوت طعام کے ساتھ ساتھ ڈھول باجے، لڈی، اور ڈے جے کے اہتمام پر رات کی نیند اجڑ جاتی ہے۔ بارات والے دن کے خرچے گنوائیں تو گنتی کم پڑجائے۔ گاڑی والے کا خرچہ، ڈھول باجے کا خرچہ، پیسے لٹانے کا خرچہ، شادی ہال کا خرچہ، مووی والے، فوٹو گرافر کا خرچہ، کھانے کا خرچہ، دودھ پلائی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مہمانوں کے لئے تو اصل شادی اس وقت شروع ہوتی ہے جب کھانا کھلتا ہے۔ اس وقت تو منظر دیکھنے والا ہوتا ہے جب ساری تہذیب کھانے کی ٹیبل پرٹوٹ جاتی ہے اور چمچوں اور پلیٹوں کے ہتھیار سے طبل جنگ بج جاتا ہے۔ دودھ پلائی کے بعد دلہن کا روایتی رونا دھونا ہوتا ہے اور دلہن چاول پیچھے کی طرف پھینک کر آہستہ آہستہ پھولوں سے سجی گاڑی تک جاتی ہے اور نئے سفر کا آغاز کردیتی ہے۔۔

https://twitter.com/92Khurram/status/202868090713804800

اگلے دن صبح صبح لڑکے والوں کے گھر لڑکی والے ناشتہ لے کر آتے ہیں، تھوڑی گپ شپ ہوتی ہے اور پھر دلہن بیوٹی پارلر تیارہونے کے لئے چلی جاتی ہے۔ ولیمے کے دن لڑکے والے لڑکی والوں کو نیچا دکھانے کے لئے ایک ہاتھ آگے جا کر اہتمام کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دن دولہے کی سسرال رخصتی ہوتی ہے جہاں جوتی چھپائی کی رسم سالیوں کے لئے اے ٹی ایم مشین سے کم نہیں ہوتی۔ اگلے دن مکلاوا ہوتا ہے اور اس کے بعد رشتے دوروں کی طرف سے دعوتوں کی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ لڑکی اور لڑکے والوں کا بینک اکاؤنٹ خالی ہو جاتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو اخراجات کی اصل وجہ شادی نہیں بلکہ فرسودہ اور خواہ مخواہ کی ہندوانہ رسومات ہیں جو ہمارے کلچر میں بری طرح سرایت کر چکی ہیں۔ اگر ہم نہ مایو نہ مہدی نہ منگنی، نہ جہیز اور نہ فرسودہ رسومات جیسے مشکل کام کرلیں اور صرف نکاح اور ولیمہ اور شادی مبارک پر اکتفا کرلیں تو کیا ہی خوب کام ہوجائے گا۔

حکومت نے شادی بیاہوں پر ون ڈش کی پابندی لگا کر کچھ اخراجات تو کم کر دیے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دوسری فضول رسومات پر بھی سرکاری طور پر پابندی لگا دی جائے تاکہ غریب کا بھرم بھی رہ جائے اور دھرم کے مطابق اہم فریضہ بھی انجام پاجائے۔ شادی کے معاملات پر معاشرے کوبھی اپنی سوچ کو ری فریم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کبھی نہ سوچیں کہ "لوگ کیا کہیں گے''۔ لوگ جو بھی سوچیں کہ یہ سب اہم نہیں ہے اور نہ اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اہم وہ ہے جو آپ سوچتے ہیں! کیونکہ اگر لوگوں کو آپ سے کوئی مسئلہ ہے تو یہ ان لوگوں کا مسئلہ ہے آپ کا نہیں۔ عمر بہت قیمتی ہے۔ اسے فرسودہ رسومات کی خاطر کبھی نہ گنوائیں۔

[poll id="391"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |